بھونگ مسجد۔۔ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بُخاری

ضلع رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد کے مغرب میں بھونگ نامی ایک قصبہ آباد ہے جس کی وجہ شہرت یہاں موجود وہ شاہکار ہے جسے دیکھنے دور دور سے لوگ آتے ہیں۔یہ رئیس غازی محمد کی بنائی گئی بھونگ مسجد ہے جو پچاس سال کے عرصے میں تعمیر ہوئی۔اس مسجد کی تعمیر 1932 میں شروع ہوئی جب نواب آف بہاول پور کے دوست رئیس غازی محمد نے اپنی محل نما حویلی کے پاس ایک عالی شان مسجد بنوانے کا سوچا۔ رئیس محمد غازی، بھونگ کے رئیس، اعزازی طور پر مجسٹریٹ اور بہاولپور اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ رئیس صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ بہت اللہ لوک شخص تھے جن کی اندگی کا مشن عبادت و ریاضت، سماجی کاموں اور مختلف علاقوں میں مساجد کی تعمیر تھا۔

ایک دن وہ اپنے محل کے پاس مسجد میں نماز ادا کر رہے تھے کہ اچانک ان کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ میرا گھر اتنا شاندار اور خوبصورت ہے تو پھر اللہ تو اس سے کہیں زیادہ کا حق رکھتا ہے۔ بس یہی سوچ کر آپ نے یہاں ایک عالی شان مسجد تعمیر کروانے کا ارادہ کر لیا جو اُس محل سے بھی شاندار ہو۔

ماسٹر عبد الحمید کی زیر نگرانی مسجد تعمیر ہونا شروع ہوئی جس کے ایک ایک مرحلے پر رئیس صاحب نے ذاتی دلچسپی لی۔ مسجد کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیئے ایک مدرسہ اور رہائشی کمرے بھی تعمیر کیئے جانے تھے۔ روایت ہے کہ اس مسجد کا کوئی باقاعدہ نقشہ نہیں بنایا گیا بلکہ ایک خاکہ رئیس غازی محمد کے ذہن میں تھا جس کے مطابق تعمیر کا آغاز کیا گیا (یہی بات ہمیں ان کے ایک جانشین نے بھی بتائی تھی)۔ رئیس غازی محمد باہر کے ممالک سے مساجد کا جو بھی ڈیزائن پسند کر کہ لاتے اسی کے مطابق بھونگ مسجد میں تبدیلی کروا دیتے۔

سال 1950 میں جب سیم نے اس مسجد کی عمارت کو نقصان پہنچانا شروع کیا تو مرکزی عمارت کو شہید کر کہ تقریباً 20 فٹ بلند ایک چبوترہ بنایا گیا اور اس پہ مسجد کی تعمیر نئے سرے سے کی گئی۔ اس طرح مسجد کے ڈیزائن میں کئی بار تبدیلی کی گئی جس کی وجہ سے پچاس سال یہ تعمیر ہوتی رہی۔

تعمیر کےلئے اٹلی، ہنگری و آسٹریا سے سنگِ سرخ، سنگِ مرمر، سنگِ خارا، سنگِ سرمئی اور سنگِ سیاہ منگوائے گئے۔

ان پتھروں کو کاٹنے اور تراشنے ، ٹائلوں پر پھول بنانے ، میناکاری و خطاطی کرنے ، صندل کی لکڑی پر باریک اور نفیس کام کرنے ، گلکاری کرنے اور سونے کے پھول بنانے والے ہزاروں کاریگر کراچی، راجستھان اور برِصغیر کے دیگر حصوں سے بلوائے گئے۔ کہتے ہیں کہ بہت سے مزدور تو اتنے عمر رسیدہ تھے کہ وہ تعمیر کے دوران ہی چل بسے لیکن ان کے بیٹوں اور پوتوں نے تعمیر کے کام کو جاری رکھا۔

ماہرین نے اس مسجد کے ڈیزائن میں لاہور، ایران و ترکی کے طرزِ تعمیر کو اسپین اور دیگر مغربی ممالک کے طرز تعمیرسے مِلا کر مشرق و مغرب کے بہترین اشتراک کی مثال قائم کی۔روایتی تعمیراتی کرافٹ جیسے سنگِ مرمر، ساگوان ، ہاتھی دانت، سنگ سلیمانی، چمکدار ٹائل، استرکاری، شیشے کے کام اور کوزہ گری کو جدید و مصنوعی تکنیکوں جیسے چپسی فرش (پتھر کی کنکریوں کو سیمنٹ میں ملا کر پچی کاری سے تیار کیا گیا فرش)، سیمنٹ کی رنگین ٹائل، خالص لوہے اور پتھر کی استرکاری سے ملا کر استعمال کیا گیا۔اندرونی حصوں پر کمال کی نقش نگاری اور فریسکو کا کام کیا گیا۔ یہ بھی مشہور ہے کہ اندرونی محراب کے اوپر سونے و چاندی کا پانی چڑھایا گیا تھا۔

غازی صاحب کے خاندان کے ایک فرد نے بتایا کہ اُن دنوں بھونگ اور اطراف کے علاقوں میں پکی سڑک ناپید تھی سو بھاری مشینیں اور تعمیر کے دیگر لوازمات صادق آباد کے اسٹیشن سے چھکڑوں اور اونٹوں پہ لاد کر یہاں تک پہنچائے جاتے تھے۔ یہاں کے تمام کاریگروں کو ان کی مہارت اور تجربے کی بنیاد پر اُجرت دی جاتی تھی۔

1975 میں (مسجد بننے سے سات سال پہلے) رئیس غازی محمد کا انتقال ہو گیا تو ان کے ولی عہد رئیس شبیر محمد نے والد کے کام کو آگے بڑھایا۔

1982 میں اس مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی اور اسے نمازیوں کے لیئے کھول دیا گیا۔ مسجد میں ایک وسیع دارالمطالعہ، مدرسہ اور وہ حجرہ بھی موجود ہے جہاں رئیس غازی محمد عبادت کیا کرتے تھے۔

فی الحال یہاں تقریباً ڈھائی ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔ خواتین کے لیئے بھی ایک چھوٹی مسجد علیحدہ موجود ہے جو جمعہ مسجد کہلاتی ہے۔

مشہد میں مزار امام احمد رضا کے صدر دروازے سے مشابہت رکھتا مرکزی دروازہ، سنگ مرمر کی سیڑھیاں اور فوارے اس مسجد کی خوبصورتی کو چار چاند لگانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی انفرادیت سے متاثر ہو کر بھونگ مسجد کو 1986ء میں تعمیرات کے شعبے میں آغا خان ایوارڈ بھی دیا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

2004 کو حکومت پاکستان نے اس مسجد کی تصویر والا ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔ بھونگ مسجد رحیم یار خان سمیت وسیب کی سیاحت کا اہم حصہ ہے جہاں دور دور سے سیاح اسے دیکھنے آتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply