عہد ساز فنکارہ۔۔فائزہ عامر

لتا جی کی سریلی آواز اُبھری “یہ جیون ہے اس جیون کا یہی رنگ ہے “۔۔ یہ گیت سوگوار فضا میں گونج رہا ہے، دل بہت بوجھل ہے ،خیال آیا کہ مجھے ایسا کیونکر محسوس ہو رہا ہے، میرا ان سے تعلق ہی کیا ہے؟

تو محسوس ہوا کہ ان کا مجھ سے شاید محبت کا رشتہ ہے اور احترام کا  بھی۔ اسی لیے آج دل بہت بھو جھل ہے ۔۔۔ لتا منگیشکر سے یہ عزت واحترام کا رشتہ ان کی آواز کی وجہ سے تھا ۔ کیونکہ میری  کبھی ان سے ملاقات تو ہوئی نہیں ، مگر آواز کے اس رشتے میں اس قدر محبت اور خلوص تھا کہ معلوم ہی نہیں پڑا کہ کب وہ آنکھوں کو بھی بھانےلگیں اورمیرے دل میں ان کے لیے ایک چھوٹا سا گھر بن گیا ۔ کبھی کبھی مجھے ان کے نغمات سنتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے وہ میرے دل میں بیٹھی نغمہ سرا  ہیں۔

ان کی خوب صورت آواز کی طرح ان کی شخصیت بھی بہت بھاتی تھی ۔ سفید ساڑھی میں ملبوس وہ بہت ہی نفیس لگتیں ،غالباً 1988 کی بات ہے مجھے ریڈیو سننے کا ایسے ہی جنون تھا جیسے آج بچوں کو موبائل یا آئی  پیڈ کا ۔ ریڈیو پہ ان کا ایک انٹرویو سنا اور سوچنے لگی کہ وہ گاتی تو کمال ہیں مگر عام گفتگو میں بھی جہاں ان کی آواز بہت خوبصورت اور سریلی تھی وہیں ان کا انداز گفتگو بھی بہت جاندار تھا انٹرویو کے دوران ان سے پوچھا گیا کہ وہ ہمیشہ سفید ساڑھی ہی کیوں پہنتی ہیں ۔۔کیا انھیں رنگ نہیں بھاتےتو وہ دھیرے سے ہنسی ۔۔۔۔ ریڈیو پہ ان کی ہنسی کی آواز سے کانوں میں عجب سی رس بھری جھنکار سی محسوس ہوئی اور پھر وہ دھیرے سے گویا ہوئیں کہ مجھے رنگ تو بہت بھاتے ہیں مگر کتنے اور کون کون سے رنگ پہنوں گی ۔۔اگر ہرا رنگ پہنوں گی تو دل گلابی رنگ کے لیے بھی مچلے گا اور پھر گلابی پہن لوں تو پیلا نیلا جامنی اتنے رنگ ۔۔۔۔بس میں نے سوچا کیوں نہ سفید رنگ ہی پہن لوں مجھے یہی مناسب لگا اور میں نے اپنے لیے اسی کو چن لیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج جب انھیں سفید پھولوں سےسجے ایک ٹرک پہ نہایت عزت و وقار سے اپنی آخری منزل کی جانب جاتے ہوئے دیکھا تو ان کی سفید رنگ سے محبت کی کہانی یاد آگئی ۔ فضا میں ان کے خوب صورت مدھ بھرے گیت گونج رہے ہیں مجھے ایسے محسوس ہورہا ہے کہ میرے دل میں   ان کا گھر تو ہمیشہ رہے گا کیونکہ اس گھر کا تعلق تو ان کے فن سے ہے وہ فن جو امر ہے جسے کبھی زوال نہیں ۔بہت سی محبت اور دعاؤں کے ساتھ الوداع لتا جی !

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply