• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • نوجوانوں میں دین گریزی اور الحاد کے رجحان میں اضافہ؛ قصوروار کون؟ ۔۔ڈاکٹر جواد حیدر ہاشمی

نوجوانوں میں دین گریزی اور الحاد کے رجحان میں اضافہ؛ قصوروار کون؟ ۔۔ڈاکٹر جواد حیدر ہاشمی

“اسلام دین فطرت ہے” یہ جملہ تو سبھی نے سنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسانوں کے اندر جو فطریات رکھی ہیں انہی میں سے ایک دین کی طرف رغبت اور اس کو قبول کرنا بھی ہے۔۔۔ لیکن ایک اہم مسئلہ جو دین کے حوالے سے آج کل مشاہدے میں آ رہا ہے وہ دین گریزی اور الحاد کا بڑھتا ہوا رجحان ہے، خصوصا ً نوجوانوں میں۔۔ دین سے دور ہونے والوں کی اکثریت بظاہر پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل ہے۔  یہ معاملہ اتنا گھمبیر ہو چکا ہے کہ بعض دیندار اور اسلامی گھرانوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی دین سے دور ہو رہے ہیں اور الحاد کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

اس تحریر میں نوجوانوں اور پڑھے لکھے افراد کی دین گریزی اور الحاد کی طرف رجحان کے ایسے اسباب کے بارے میں گفتگو کی جا رہی ہے جن پر خاموشی اور چشم پوشی سے یہ مسئلہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔  عام طور پر بہت سے لوگ دین سے فرار اور الحاد کی طرف نوجوانوں کے رجحان کو فقط دین دشمن عناصر کی سازشوں سے جوڑ دیتے ہیں، (کہ البتہ ان کی سازشیں بھی یقینا ً ہیں! لیکن چونکہ وہ ہیں ہی دین کے مخالف ؛ تو ظاہر ہے وہ دین کے خلاف اپنے کام سے باز نہیں آئیں گےلہذا ان سے دین کی مخالفت چھوڑنے کی توقع رکھنا بے جا ہے۔ ) لیکن ایک اور اہم سبب جس سے ہم میں سے بہت سے لوگ دانستہ یا نادانستہ چشم پوشی کر لیتے ہیں، یہ ہے کہ معاشرے میں بہت سے افراد کی دین گریزی کا سبب بعض دیندار لوگ ہیں۔

جی ہاں اسلام کی صحیح تعلیمات سے نابلد وہ افراد جو دین کے نام پر نہ صرف دین کی خود ساختہ تعبیرات پیش کرتے ہیں، بلکہ اسلامی تعلیمات سے متصادم افعال اور کردار انجام دیتے ہیں۔۔۔ اور پھر اپنے غلط اقوال و افعال کو دین سے جوڑ دیتے ہیں۔۔۔ بظاہر دیندار لوگوں کے ایسے افعال اور کردار کو جب عام لوگ دیکھتے ہیں تو اسے دین کے مترادف سمجھ کر ان افراد سے نفرت کے ساتھ ساتھ اصل دین سے بھی نفرت شروع کر دیتے ہیں۔۔۔ یعنی بعض دیندار لوگوں کے دین اور اسلام کے نام پر بے دینی اور غیر اسلامی بات اور کردار کے باعث بہت سے لوگ اسلام سے بدظن ہوتے چلے جا رہے ہیں۔۔۔
اب یہاں مطلب کی وضاحت کے لیے ہمارے مسلم معاشرے سے ایسے کاموں کی کچھ مثالیں پیش کی جاتی ہیں جو دین گریزی اور الحاد کا باعث بن رہے ہیں:

1- اسلام کے نام پر تشدد اور دہشتگردی کو فروغ دینا۔۔  اس وقت ہمارے مسلم معاشرے کی ایک انتہائی افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ بعض ناعاقبت اندیش مُلّا اور مولوی اپنی کم علمی، جہالت، نادانی یا خاص نامعلوم مفادات کے حصول کی خاطر اسلام کی غلط تفسیر کرتے ہوئے اسے تشدد اور انتہاء پسندی کے دین کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یہ لوگ دین کے نام پر دہشتگردی کے مرتکب ہوتے ہیں اور اسے جہاد سے تعبیر کرتے ہیں۔ اپنے اس طرز عمل سے انہوں نے اسلام کے مقدس حکم جہاد کو بھی دنیا میں بدنام کر کے رکھ دیا ہے، حتی بہت سے مسلمانوں کے درمیان بھی اسے مشکوک بنا دیا ہے۔ یہ لوگ اپنے انتہاء پسندانہ طرزِ عمل سے لوگوں کے دلوں میں اسلام کے لیے نفرت کے جذبات پیدا کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ لوگ اسلام کے نام پر دیگر بے گناہ لوگوں کے گلے کاٹتے ہیں۔ ان کی لاشوں کے اوپر کھڑے ہو کر سیلفی بناتے ہیں۔۔ ان کے سروں کے ساتھ فٹبال کھلیتے ہیں۔ سکول کے بچوں کو گولیوں سے بھون دیتے ہیں۔۔ کسی پر توہینِ دین کا الزام لگا کر بلا تحقیق اس کو قتل کر دیتے ہیں، لاش کی بے حرمتی کرتے ہیں، آگ لگاتے ہیں۔ مساجد، امام بارگاہوں، اقلیتوں کی عبادتگاہوں، جلسے جلوسوں، بازاروں، کھیل کے میدانوں اور دیگر مقامات پر بم دھماکے کر کے بے گناہ لوگوں کو قتل کر کے اسے جہاد کا نام دیتے ہیں۔ مقدس ہستیوں سے عشق اور محبت کے نام پر سڑکوں پر نکل کرسرکاری، عوامی املاک اور گاڑیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں، آگ لگاتے ہیں، توڑ پھوڑ کرتے ہیں اور بعض نام نہاد علماء بھی ان کی تائید اور حمایت کرتے ہیں، یا ان کی غلط کاریوں کی توجیہ اور تاویل پیش کرتے ہیں۔یہ لوگ پوری دنیا میں اسلام کا چہرہ مسخ کرنے کا باعث بنتے ہیں بلکہ عام مسلمانوں کو بھی دین سے بیزار کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ آج بہت سے دینی گھرانوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان بھی ایسے انتہاء پسند لوگوں کی وجہ سے دین سے اپنا رشتہ توڑ رہے ہیں۔۔

2- اہل مدارس اور علماء کا غلط افعال اور کاموں میں ملوث ہونا۔ ایک اور اہم سبب جس کی وجہ سے آج نوجوان نسل علماء سے اور نتیجتاً دین سے دور ہو رہی ہے، وہ بعض اہلِ مدارس اور نام نہاد علما کا غیر اخلاقی اور غلط کاموں میں ملوث ہونا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے مسلسل ایسی خبریں میڈیا اور سوشل میڈیا کی زینت بن رہی ہیں، جو واقعا صرف شرم آور ہیں اور قابل تعزیر بھی ہیں۔ایسے لوگوں کی وجہ سے آج لوگ نہ صرف مدارس اور علما سے بدظن ہو رہے ہیں ، بلکہ دین سے بھی بدظن ہو رہے ہیں، آج کے دور میں دین گریزی اور الحاد کے بڑھتے رجحان کا ایک اہم سبب یہ لوگ ہیں۔

3- پیری مریدی کے نام پر عجیب و غریب کام اور حرکتیں۔۔ معاشرے میں مذہبی عناوین کے ساتھ پیری مریدی کے ایسے ایسے نمونے نظر آتے ہیں جن کو دیکھ کر ہر انسان ان کی عقل و شعور پر شک میں پڑ جاتا ہے۔ اور چونکہ یہ لوگ دین کے نام پر یہ خرافات انجام دے رہے ہوتے ہیں اس لیے بعض لوگ دین کی حقانیت کے بارے میں ہی شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کیا دین انہیں یہ سکھاتا ہے اور کیا دین کے اندر ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں؟! اور یوں دین سے وہ فاصلہ اختیار کر لیتے ہیں۔

4- علما کا سوال کرنے والوں کی توہین اور تحقیر اور اسے دین دشمنی سے تعبیر کرنا۔ مختلف چیزوں کے حوالے سے انسانی اذہان میں سوالات کا ابھرنا ایک فطری بات ہے۔ ظاہر ہے عقائد اور دین سے مربوط حقائق سے متعلق سوالات بھی انسان کو پیش آ سکتے ہیں، دین سے مربوط سوالات کے جوابات کے لیے جب پڑھے لکھے نوجوان علما کی طرف رجوع کرتے ہیں تو بعض علما ان کے سوالات کا جواب دینے کے بجائے سوال پوچھنے والے کی تحقیر اور توبیخ شروع کر دیتے ہیں۔ اور بسا اوقات ان کو توہین اسلام کا مرتکب قرار دے کر جواب دینے کے بجائے توبہ و استغفار کی دعوت دینا شروع کر دیتے ہیں، اب ظاہر ہے توبے کی دعوت سے تو اس کا مسئلہ حل نہیں ہو گا اسے اپنے سوال کا جواب چاہیے تھا جو نہیں ملا؛ یوں وہ آہستہ آہستہ دین کے بارے میں بدگمانی کا شکار ہو جاتا ہے۔۔۔

5- علما کا جدید شبہات اور اعتراضات کا علمی جواب پیش کرنے سے قاصر ہونا۔ دینی مدارس سے تعلیم یافتہ علمائے کرام سے لوگ یہی توقع رکھتے ہیں کہ وہ دین سے مربوط لوگوں کے شبہات اور سوالات کے جوابات دیں، لیکن جب وہی علماء لوگوں کے ذہنوں میں ابھرنے والے سوالات کے قانع کنندہ جوابات دینے سے قاصر ہوتے ہیں تو اس کا بہت برا اثر یہ پڑتا ہے کہ عام لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ ان سوالات اور اعتراضات کا جواب دین کے پاس نہیں ہے، یعنی دین میں یہ کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دین کے پاس جواب ہے فلان عالم اور مفتی کے پاس جواب نہیں ہے۔ یعنی لوگ عالم اور مفتی کی کم علمی کو دین کی کوتاہی کے مترادف سمجھتے ہیں اور یوں آہستہ آہستہ دین سے دور ہو جاتے ہیں۔۔

6- بعض علما کا تسلسل کے ساتھ دوسرے مسالک اور ان کے اکابرین کے خلاف ہرزہ سرائی۔ یہ بہت سے افراد کے دین سے بدظن اور دور ہونے کا ایک اہم سبب ہے۔ افسوس کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ بعض علماءنے  اپنا مستقل شیوہ بنا رکھا ہے کہ وہ جب بھی بات کریں، تقریر کریں، خطبات دیں تو وہ دوسرے مسالک اور ان کے اکابرین کے خلاف ضرور زبان کھولیں گے۔۔۔ وہ معاشرے میں نفرت اور انتشار کے فروغ کے ساتھ ساتھ دانستہ یا نادانستہ لوگوں کو دین سے بدظن بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ بظاہر اپنے مسلک کے دفاع کے نام پر ایسا کرتے ہیں لیکن اس حقیقت سے بے خبر ہوتے ہیں کہ ان کے اس طرز عمل کی وجہ سے ان کے اپنے چند حواریوں کے علاوہ باقی عام لوگوں کے دلوں میں اس کے مسلک اور اصل دین کے بارے نفرت کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں۔۔

7- اہل مساجد کا غرور اور دوسروں کی تحقیر۔۔ یہ طرز عمل بھی معاشرے میں بعض جوانوں کے دین اور اسلام سے بدظنی کا باعث بن رہا ہے۔۔۔ کہ چند اہلِ مسجد اپنی مسجد سے تعلق اور عبادت کی توفیق پر شکر کے بجائے تکبر اور دوسروں کے بارے میں بدترین بدگمانی کا شکار ہوتے ہیں اور انہیں بے دینی اور بے نمازی جیسی تہمتوں سے نوازنے سے دریغ نہیں کرتے جس کی وجہ سے عام افراد ان کے قصور کو ان کے اپنے ذاتی کھاتے میں ڈالنے کے بجائے دین کے کھاتے میں ڈالتے ہیں اور یوں دین اور دینی امور سے فاصلہ اختیار کر لیتے ہیں۔۔۔

8- مدارس اور مساجد کو وراثت میں تبدیل کرنا۔۔۔؛ مدارس اور مساجد جو عام مسلمانوں کی امداد اور مالی تعاون سے بنتے ہیں اسے ان کے بعض مدیران اور مہتممین اور پیش امام وغیرہ غیر اعلانیہ طور پر اپنی میراث بنا دیتے ہیں اور اپنے اولاد کو منتقل کر دیتے ہیں، وہ انہیں اپنی ذاتی جاگیر سمجھتے ہیں۔ یہ مسئلہ اس وقت اتنی گھمبیر صورتحال اختیار کر چکا ہے کہ اس وقت بہت سے مدارس اور مساجد کے ایسے مسائل اندرون خانہ اختلافات سے نکل کر تھانہ کچہری تک پہنچے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اہل مساجد اور اہل مدارس کا یہ ناشائستہ طرز عمل بہت سے لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے چونکہ لوگ انہیں انبیاء کے وارث اور دین کے نمائندے کے طور پر دیکھتے ہیں اور جب ان سے اس قسم کے رویے دیکھتے ہیں تو انہیں بھی دین کے کھاتے میں ڈال کر ان کی ملامت کے ساتھ ساتھ دین کی ملامت بھی کرنے لگتے ہیں۔ دوسرے مسالک کے مدارس اور مساجد پر قبضے کی کوشش بھی اس میں شامل ہے۔۔

9- مذہبی سیاسی جماعتوں کا طرز عمل۔۔ ہمارے ہاں بہت سی سیاسی جماعتیں ہیں جو مذہب کے عنوان سے سیاست میں متحرک ہیں۔ اگرچہ منشور، نصب العین اور مقاصد کے اعتبار سے دیکھا جائے تو نہایت نیک اہداف رکھتے ہیں، لہذا یہ ایک اچھی علامت ہے۔۔۔ لیکن سیاست کے عملی میدان میں ان کی سیاست دیگر سیاسی جماعتوں سے مختلف نہیں ہوتی؛ اور معاشرے میں رائج غلط طرزِ سیاست کے مطابق سیاست میں اِن رہنے کی کوشش کرتی ہیں؛ چونکہ یہ لوگ مذہب کے مقدس ٹائٹل کے ساتھ سیاسی میدان میں ہوتے ہیں اس لیے لوگ ان سے حقیقی اچھی دینی سیاست کی توقعات رکھتے ہیں لیکن جب اپنے اہداف و مقاصد کو بالائے طاق رکھ کر اقتدار تک پہنچنے کے لیے اقدار کو پس پشت ڈالتی ہیں تو ان کی منفی سیاست کے نتیجے میں عام لوگ ان سے دوری اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اصل دین اور مذیب سے بھی دوری اختیار کر لیتے ہیں، یعنی مذہبی جماعتوں اور ان کے رہنماوں اور کارکنوں کی منفی سیاست بعض لوگوں کے دین سے دوری کا باعث بن رہی ہے۔

10- تعلیمی ادراروں میں مذہبی تنظیموں سے وابستہ افراد کا برا اور غیر اسلامی رویہ۔ ملک کے بہت سے تعلیمی اداروں میں مذہبی تنظیموں سے وابستہ بعض طالبعلموں کا رویہ نامناسب ہوتا ہے۔ ان تنظیموں سے وابستہ افراد تعلیمی ادارے پر اپنی اجارہ داری اور دوسری تنظیموں پر اپنی برتری کو ثابت کرنے کے لیے تشدد اور خوف ایجاد کرنے سے بھی نہیں کتراتے۔ اور اگر کسی تعلیمی ادارے میں ذرا طاقتور ہوں تو وہاں دوسری تنظیموں کو گھسنے کی اجازت نہیں دیتے اور اس کے لیے تشدد کا راستہ بھی اختیار کر لیتے ہیں۔۔۔ علاوہ ازیں ان تنظیموں سے وابستہ بعض افراد کا رویہ دیگر طالبعلموں حتی اساتذہ کے ساتھ بھی متکبرانہ اور تحقیر آمیز ہوتا ہے۔ ظاہر ہے مذہبی تنظیموں سے وابستہ اس طرح کے طالبعلم مذہب کے نام پر اپنے جذباتی کاموں کے ذریعے دیگر طالبعلموں کو دین سے بدظن کرنے کا باعث بنتے ہیں۔۔۔

11- دینداری کے دعویداروں کی بے دینی اور عملی کوتاہیاں۔ جب انسان اپنے آپ کو دیندار سمجھے تو اس کا عمل بھی اس کے مطابق ہونا چاہیے، لیکن آج ہمارے مسلم معاشرے کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ بظاہر دینداری کے دعوے کے باوجود عمل اور کردار سے بے دین نظر آتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا، غیبت کرنا، تہمت لگانا، ظلم اور ناانصافی کرنا،۔۔۔ وغیرہ ۔ پھر جب ایک عام انسان کسی بظاہر دیندار انسان کی بے دینی کو دیکھتا ہے تو دین کے بارے میں بھی بدگمان ہو جاتا ہے لہذا بے عمل دینداروں کا طرز عمل بھی دین گریزی کے اسباب میں شامل ہے۔

12- فطری اور جائز کاموں میں بے جا سختی اور ان سے روکنا۔ بعض علما کرام اور دیندار افراد دینی امور کے بارے میں غیر ضروری سختی سے کام لیتے ہیں، اور دین میں شرعی لحاظ سے جائز کاموں سے بھی نوجوانوں کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں، جیسے مختلف قسم کے جائز کھیل کود وغیرہ۔ تو یہاں بعض علماء اور والدین نوجوانوں اور بچوں پر بلا ضرورت سختی کرتے ہوئے انہیں ان کاموں سے جب روکتے ہیں، تو اس سے ناخودآگاہانہ طور پر ان کے دلوں میں اسلام اور دین کے بارے میں ایک نفرت پیدا ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ آگے چل کر دین کو مکمل چھوڑ دیتے ہیں۔

اس حوالے سے اسباب فقط یہی نہیں ہیں بلکہ اور بھی ہیں لیکن یہاں اختصار کو مدنظر رکھ کر فقط چند چیدہ چیدہ نکات اور اسباب کو ذکر کیا ہے۔ بہر حال ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ اسلام اور ہے مسلمان اور ہے۔ مسلمانوں کے اعمال کو اسلام کے کھاتے میں ڈالنا درست نہیں ہے۔
اگر ہم نوجوانوں میں دین گریزی اور الحاد کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پانا چاہتے ہیں تو ہمیں دین کے خلاف بیرونی سازشوں کے مقابلے کے ساتھ ساتھ بظاہر دیندار لوگوں کے رویوں کو بھی راہ راست پر لانے کی کوشش کرنی ہو گی اور ان کے غلط کاموں کے خلاف بھی آواز اٹھانی ہو گی تاکہ یہ لوگ دین کی آڑ لے کر دانستہ یا نادانستہ دین کو نقصان پہنچانے سے باز رہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

(نوٹ: دین کا ایک عام معنی ہے اور ایک خاص معنی:)
“عام معنی کے اعتبار سے دیندار یعنی جو بھی دین پر ایمان کا دعوی کرے۔ یعنی دینی گھرانے میں پیدا ہونے والا ہر انسان اس عمومی معنی کے اعتبار سے دیندار کہلائے گا چاہے عمل دین کے مطابق ہو یا نہ ہو، یہ لوگ دین کے بارے میں بدظنی کا باعث بنتے ہیں۔
خاص معنی کے اعتبار سے دیندار یعنی دین پر ایمان کے ساتھ اس کے تقاضوں کو بھی پورا کرنا، یعنی باعمل اور باکردار شخص۔ ایسے نیک لوگ دین کے بارے میں حسن ظن کا باعث بنتے ہیں۔
یہاں جن دیندار لوگوں کے قصور کا تذکرہ ہوا وہ پہلی قسم کے لوگ ہیں؛ جو اپنے ہر غلط کام کو بھی دین سے جوڑ دیتے ہیں، وگرنہ دوسری قسم کے لوگوں کے کردار کو دیکھ کر لوگ دین کی طرف آتے ہیں، یعنی یہ زبان سے دین کی تبلیغ نہ بھی کریں تو ان کے نیک کردار سے خود بخود دین کی تبلیغ ہو جاتی ہے۔”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply