فیصلوں پر کیا ججوں کی ذات پر بھی انگلی اٹھے گی۔۔گُل بخشالوی

سپریم کورٹ کے 28 ویں چیف جسٹس آ ف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے 1983 ءمیں لاہور میں بطور ایڈووکیٹ ہائیکورٹ وکالت کے کیرئیر کا آ غاز کیا ، 4 دسمبر 2004ءکو لاہور ہائیکورٹ کے جج مقرر ہوئے، 2007ءمیں عبوری آ ئینی حکم کے تحت حلف لینے سے انکار کیا، وکلاءتحریک کے بعد بحال ہوئے، یکم جون 2012ءکو لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بنے اور 16 جون 2014ءکو بطور سپریم کورٹ جج تعینات کیے گئے۔جسٹس عمر عطا بندیال جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر فیصلہ دینے والے 10 رکنی بنچ اور بی آ ر ٹی پشاور کیس کا فیصلہ کرنے والے بینچ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال کہتے ہیں ‘ ہم سب کے دلوں میں ایک دوسرے کا بہت احترام ہے اور قانون سے متعلق اختلافِ رائے ہمارے ذاتی تشخص سے بالاتر ہے۔۔۔ ’مگر کچھ مبصرین جو کہ میڈیا میں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں، انھوں نے بالخصوص سوشل میڈیا پر عدالتی فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے ججز کو ’سکینڈلائز‘ کرنے کی ذمہ داری اٹھا رکھی ہے۔ اس طرح کا طرز عمل ناصرف غیر پیشہ وارانہ اور غیر مہذب ہے بلکہ یہ ’غیر آئینی‘ بھی ہے اور اس حوالے سے کچھ نہ کچھ ہونا چاہیے۔

سپریم کورٹ میں بطور جج جسٹس عمر عطا بندیال اس بینچ کا بھی حصہ تھے جنھوں نے وزیرِ اعظم عمران خان کو ’صادق‘ اور ’امین‘ قرار دیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کرنے والے پہلے سات رکنی بینچ اور پھر اس سات رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی کی اپیلوں کی سماعت کے لیے 10 رکنی بینچ کی سربراہی بھی تھے۔ان درخواستوں کی سماعت کے دوران اس وقت کے اٹارنی جنرل انور منصور نے بینچ کے ججز پر الزام لگایا کہ وہ اس معاملے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی معاونت کر رہے ہیں تو جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے ان ججز کا نام بتانے کا کہا جنھوں نے ان کے بقول قاضی فائز عیسیٰ کی مبینہ مدد کی ہے۔اٹارنی جنرل انور منصور اس کا جواب نہ دے سکے اور اسی معاملے پر انھیں اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے بعد کا فیصلہ جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا اور اس فیصلے میں انھوں نے جہاں ایک طرف صدارتی ریفرنس کو مسترد کیا وہیں 200 صفحات پر مشتمل اس فیصلے میں انھوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جائیدادوں سے متعلق اکٹھی کی گئی تفصیلات کو بھی عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق تفصیلی فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر سات رکنی بینچ کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کا اظہار جسٹس عمر عطا بندیال نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے سے دو روز قبل سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے دیے گئے عشائیے میں بھی کیا اور انھوں نے کہا کہ ’فیصلوں پر تنقید کریں منصف پر نہیں۔ا‘نصاف بھی عبادت کا حصہ ہے ، ہم تنقید کا جواب نہیں دیتے ، بے جا تنقید سے دل دکھتا ہے،مثبت تنقید سے بہتر فیصلے کرنے میں مدد ملتی ہے، مقدمات کے فیصلوں میں جلد بازی نہیں کرینگے فیصلہ وہی اچھا ہے جو واضح ہو،فریقین کوپتاہوکہ یہی آ خری فیصلہ ہے۔

وطن عزیز کی عدالتوں میں تشریف فرما جب کسی تقریب میں بولتے ہیں تو فرشتے لگتے ہیں لیکن جب انصاف کی کرسی پر بیٹھتے ہیں تب ” مجبوریاں بھی ہوتی ہیں کچھ آدمی کے ساتھ “ ہمیں تو ایسا لگنے لگا ہے کہ یا تو پوری قوم جاہل ہے یا جاہل سمجھا جا رہا ہے لیکن اگر جاہل لوگ کبھی زبان کھولیں یا قلم بولے تو توہین عدالت لگ جاتی ہے چیف جسٹس آ ف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیا ل نے فرمایا کہ ملک میں انصاف کی فراہمی یقینی بنانا ہے ۔

جہاں تک ان کا یہ کہنا کہ انصاف بھی عبادت کا حصہ ہے بہت خوب کہا لیکن اس کو دل سے تسلیم بھی تو کیا جائے ہم پاکستانی قوم اپنی قومی عدالتوں سے یہ ہی تو چاہتے ہیں کہ خدا را پاکستان کی عوام مسلمان ہے ان کے مذہبی اور قومی حقوق برابر ہیں اگر کوئی غریب ہے یا کوئی امیر ہے تویہ نظام قدرت چلانے کے لئے رب کریم کا فیصلہ ہے لیکن ا س حقیقت کو قومی عدالتوں نے نظر انداز کردیا ہے جو اپنے بھو کے بچوں کے لئے روٹی چوری کرتا ہے لٹکا دیا جاتا ہے اور جو قومی خزانہ لوٹتا ہے ا سے پچاس روپے کے سٹام پےپر پر جیل سے بیرون پاکستان بھیج دیا جا تا ہے ہماری ناقص سوچ کے مطابق تو یہ انصاف نہیں بلکہ ظلم ہے ۔

عدالت میں انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر فیصلے لکھنے اور سنانے والے جانے میدان ِ محشر کو کیوں بھول جاتے ہیں ، ہمارے ہی دیس پاکستان کی عدلیہ میں تین جج ۔ جسٹس کارنیلس،عیسائی تھے، جسٹس رانا بھگوان داس ہندو تھے جسٹس دراپ پٹیل پارسی تھے لیکن انتہائی دیاندار جانے جاتے تھے ان کے فیصلوں پر آج تک کسی نے انگلی نہیں اٹھائی اور ایک آج کی عدلیہ ہے جس پر ہر ایرا غیرا انگلی اٹھاتا ہے تو کیوں ؟ اس لئے کہ اگر اقربا ءپروری کی حوصلہ افزائی ہو گی تو فیصلوں پر کیا ججوں کی ذات پر بھی انگلی اٹھے گی ۔

جانے منصف کٹہرے میں کھڑے ظالم اور مظلوم کا چہرہ کیوں نہیں پڑھتے معصوم کی آنکھوں میں معصو میت اور فرغون کی آنکھوں میں فرغونیت نظر کیوں نہیں آتی، حقائق کی روشنی میں عدالتوں میں لکھے گئے فیصلے بولتے ہیں تو عوام کے دلوں سے نعرہ ءتکبیر کی آوازیں آتی ہیں لیکن جب انصاف کا خون ہوتا ہے تو دلوں سے جو آہ نکلتی ہے وہ عرش تک کو ہلا دیتی ہے ، جسٹس فائز عیسٰی کا فیصلہ اقرباءپروری کا تھا جس پر انگلیاں اٹھیں اور ایک فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا آیا ہے جس پر تالیاں بج رہی ہیں۔

اسلام آباد ہائی کور ٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے ایف 12، جی 12، ایف 14 اور ایف 15 کی سکیموں کو غیر آئینی قرار دینے کے ساتھ ساتھ اسے مفاد عامہ کے بھی خلاف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست کی زمین اشرافیہ کے لیے نہیں بلکہ یہ صرف عوامی مفاد کے لیے ہے۔ جج، بیورکریٹس اور پبلک آفس ہولڈرز (عوامی عہدیدار) مفاد عامہ کے خلاف ذاتی فائدے کی پالیسی نہیں بنا سکتے۔ حیران کن طور پر پلاٹس حاصل کرنے والوں میں اعلیٰ عدلیہ کے موجودہ اور ریٹائر ججز بھی شامل ہیں۔ اس فیصلے میں سنہ 2019 میں برطرف کیے گئے ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی کا نام لیے بغیر کہا گیا ہے کہ کمسن گھریلو ملازمہ پر تشدد کیس میں سزا یافتہ جج بھی پلاٹ لینے والوں میں شامل ہے۔ اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کے ایک اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج پرویز القادر میمن کا نام لیے بغیر کہا گیا ہے کہ ایک نجی نیوز چینل کے مالک کو ضمانت کے بدلے پچاس لاکھ روپے بطور رشوت لینے کی پاداش میں برطرف کیا گیا تھا۔رشوت وصولی کے اعتراف پر برطرف جج بھی پلاٹس لینے والوں میں شامل تھے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم اور کابینہ کو اس کے اثرات سے اندھیرے میں رکھا گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جب کہ نئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ماتحت عدلیہ کے ججز کے پلاٹ منسوخ کرنے سے متعلق ایک درخواست کی سماعت کے دوران یہ ریمارکس دیے تھے کہ اگر حکومت کی پالیسی کے تحت ججز کو پلاٹ دیے جاتے ہیں تو یہ مفاد کے ٹکراؤ  کے زمرے میں نہیں آتا۔واضح رہے کہ ان سیکٹرز میں سابق چیف جسٹس گلزار احمد اور نئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ سپریم کورٹ کے موجود چند دیگر جسٹس صاحبان کے بھی پلاٹ ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply