ہماری آنے والی نسل کو کیسے خبر ہو گی؟۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

بہت سے رت جگے جھیلے
بہت آہ وبکا میں وقت گذرا
غم پرستی کے سیہ حُجرے میں پہروں بیٹھ کر روئے
صنم پوجے ملال و حُزن کے ان بُت کدوں میں، جو
سخن کے بُت تراشوں اور غزل کے آذروں نے
اپنے وقتوں میں تراشے تھے

بہت غزلیں کہیں، شعروں میں حُسن و عشق کے پیکر تراشے
خود سے باتیں کیں
بڑے ہی خوبصورت
استعاروں کی زباں میں بات کہنے کا ہنر سیکھا
بزرگوں کے وہ گُر ازبر کیے
جو شعر کہنے میں معاون تھے
بہت کچھ کر لیا، دیوان چھاپے، محفلوں میں داد حاصل کی

مگر آخر کِیا کیا؟
کون سی سچائیوں کے نخل کی یہ آبیاری تھی؟
یہ کیسی شاعری تھی،
انفعالیت، شکست ِ ذات، خود ترسی
کی قدریں تھیں
جنہیں معصوم ذہنوں میں سمویا تھا
سمجھ کر جوہر ِ فن، حسنِ روح ِ شاعری ہم نے؟

کبھی اس حُزن کے حجرے سے نکلیں تو
کبھی تازہ ہوا میں سانس لینے کو تو راضی ہوں
کبھی سوچیں کہ ہم نے کیا دیا ہے
آنے والی نسل کو اس کی وراثت میں؟

کوئی ایسا صحیفہ،
جس میں پورے دور کی تاریخ لکھی ہو؟
صحیفہ جو تدبّر کی علامت ہو
تعقل سے عبارت ہو
صحیفہ جس میں مخفی ہو
کسی گُذرے ہوئے کل کی کہانی
عصرِ حاضر کے معانی کے تناظر میں؟
صحیفہ، فلسفے کا، عشق کا، راز طریقت کا؟
صحیفہ، صاف پانی کا وہ چشمہ
عکس جس میں جھلملاتا ہو سبھی روشن مُناروں کا
شبیہیں قوم کے معمار فنکاروں کی
جو ہر دور میں تاریخ سازی میں معاون تھے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں کچھ سوچنا ہو گا
بہت سی اور راتیں جاگ کر ہی کاٹنا ہوں گی
انہی شعری صحیفوں کی عبادت میں
اگر خون ِ رگ ِ جاں سے نہ لکھ پائے یہ فن پارے
ہماری آنے والی نسل کو کیسے خبر ہو گی؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply