بہت سے رت جگے جھیلے
بہت آہ وبکا میں وقت گذرا
غم پرستی کے سیہ حُجرے میں پہروں بیٹھ کر روئے
صنم پوجے ملال و حُزن کے ان بُت کدوں میں، جو
سخن کے بُت تراشوں اور غزل کے آذروں نے
اپنے وقتوں میں تراشے تھے
بہت غزلیں کہیں، شعروں میں حُسن و عشق کے پیکر تراشے
خود سے باتیں کیں
بڑے ہی خوبصورت
استعاروں کی زباں میں بات کہنے کا ہنر سیکھا
بزرگوں کے وہ گُر ازبر کیے
جو شعر کہنے میں معاون تھے
بہت کچھ کر لیا، دیوان چھاپے، محفلوں میں داد حاصل کی
مگر آخر کِیا کیا؟
کون سی سچائیوں کے نخل کی یہ آبیاری تھی؟
یہ کیسی شاعری تھی،
انفعالیت، شکست ِ ذات، خود ترسی
کی قدریں تھیں
جنہیں معصوم ذہنوں میں سمویا تھا
سمجھ کر جوہر ِ فن، حسنِ روح ِ شاعری ہم نے؟
کبھی اس حُزن کے حجرے سے نکلیں تو
کبھی تازہ ہوا میں سانس لینے کو تو راضی ہوں
کبھی سوچیں کہ ہم نے کیا دیا ہے
آنے والی نسل کو اس کی وراثت میں؟
کوئی ایسا صحیفہ،
جس میں پورے دور کی تاریخ لکھی ہو؟
صحیفہ جو تدبّر کی علامت ہو
تعقل سے عبارت ہو
صحیفہ جس میں مخفی ہو
کسی گُذرے ہوئے کل کی کہانی
عصرِ حاضر کے معانی کے تناظر میں؟
صحیفہ، فلسفے کا، عشق کا، راز طریقت کا؟
صحیفہ، صاف پانی کا وہ چشمہ
عکس جس میں جھلملاتا ہو سبھی روشن مُناروں کا
شبیہیں قوم کے معمار فنکاروں کی
جو ہر دور میں تاریخ سازی میں معاون تھے؟
اگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں کچھ سوچنا ہو گا
بہت سی اور راتیں جاگ کر ہی کاٹنا ہوں گی
انہی شعری صحیفوں کی عبادت میں
اگر خون ِ رگ ِ جاں سے نہ لکھ پائے یہ فن پارے
ہماری آنے والی نسل کو کیسے خبر ہو گی؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں