فیس بک سے’ فیس لور‘ تک۔۔آصف محمود

انعام رانا کی ’ فیس لور‘ کیا سامنے آئی ، زکر برگ کی ’ فیس بک‘ کی کمر ہی ٹوٹ گئی۔ آپ کہیں گے اس کی وجوہات میں ٹک ٹاک اور دیگر گستاخ بروئے کار آئے ہیں تو میں عرض کروں گا گستاخی کا حجم نہیں ، اس کا ماخذدیکھیے۔ ہمارے پاکستان کی نسبت سے تو اس ابلاغی سپر پاور کے آگے صرف ایک ہی گستاخی کی گئی ہے اور اس کا نام ’ فیس لور‘ ہے۔باقیوں کی وہ جانیں ، ہم تو اس بارش کے اپنے قطرے سے واقف ہیں ، کیا جانے وہی آگے چل کر ساون بن جائے۔

خیر یہ کوئی بحث نہیں کہ اس پر تکرارکی جائے ، آئیے ایک اور پہلو پر غور کر لیتے ہیں۔ حال ہی میں سینیٹ میں سٹیٹ بنک ترمیمی بل آیا اور ’’ باقی اب تاریخ ہے‘‘۔پاکستان صرف ایک ارب ڈالر کے قرض کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کے دباؤ  میں قانون سازی کرنے پر مجبور ہوا پڑا ہے اور دوسری طرف صرف ایک فیس بک کو صرف ایک سہہ ماہی میں محض صارفین کی تعداد گھٹنے سے ہونے والے نقصان کا تخمینہ 230 ارب ڈالر ہے۔کہاں ایک ایٹمی ریاست اور صرف ایک ارب ڈالر کے حصول کے لیے اتنی مجبوریاں، کہاںصرف ایک کمپنی اور صرف ایک جھٹکے سے پہنچنے والا نقصان 230 ارب ڈالر؟

کیا اس میں ہمارے سوچنے سمجھنے کے لیے کچھ موجود ہے؟ اگر بات اب بھی واضح نہ ہو پا رہی ہو تو ایک کام کیجیے۔ پاکستان کا اس سال کا بجٹ نکال لیجیے اور حساب کتاب کر کے دیکھیے کہ ہماری ریاست کا کل ترقیاتی بجٹ کتنا ہے ، تعلیم کے لیے کتنا مختص کیا گیا ہے ، دفاع کے لیے کتنی رقم رکھی گئی ہے، پھر اس سب کو جمع کیجیے اور مارک زکر برگ کے صرف تین ماہ کے نقصان کے ساتھ تقابل کر کے دیکھ لیجیے کہ ٹیکنالوجی کی یہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچتی جا رہی ہے اور ہم بطور معاشرہ کہاں کھڑے ہیں۔ فیس بک کیا ہے؟

ابلاغ کی دنیا میں ایک شخص کا قائم کردہ ایک ادارہ۔لیکن اس ادارے کا معاشی حجم اتنا زیادہ ہے کہ بہت ساری ریاستیں سالانہ بجٹ میں اس حجم کا تصور تک نہیں کر سکتیں۔کہاں ہم کہ ایک ارب ڈالر کے قرض کے حصول کو کامرانی لکھ رہے ہیں اور کہاں اکیلا زکر برگ کہ اس کو ملنے والا ایک معاشی جھٹکا ہمارے تازہ ترین قرض سے230 گنا زیادہ ہے۔یعنی ایک ریاست ایسا ہی قرض 230 بار لے تو یہ فیس بک کو پہنچنے والے ایک جھٹکے کے نقصان کے برابر ہو گا۔ ابلاغ پر اس ادارے کی اجارہ داری کا عالم یہ ہے کہ کمیونٹی سٹینڈرڈ کے نام پر اظہار رائے کا دائرہ کار سکڑتا چلا جا رہا ہے اور عالم یہ ہے کہ اب کوئی یہ دیکھنے کا تردد بھی نہیں کرتا کہ کہنے والے نے کہا کیا ہے۔ اب کسی کا گلاگھونٹنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس نے تحریر میں فلاں فلاں لفظ کیوں استعمال کر لیے۔

آج ہم پانچ فروری یعنی یوم کشمیر منا رہے ہیں ، دیکھتے ہیں شام تک کس کس کی کمر ’ کمیونٹی سٹینڈرڈ‘ کے نام پر لال اور ہری ہوتی ہے۔گھٹن اتنی ہو چکی ہے کہ اقوام متحدہ کے طے کردہ اصولوں کے اندر رہتے ہوئے بھی بات کرنا مشکل ہو چکی ہے۔مثال کے طور پر کشمیریوں کو جو حق1949 کے جنیوا کنونشن کے ایڈیشنل پروٹوکول 1کے آرٹیکل 1 کی ذیلی دفعہ 4 میں دیا گیا ہے ، آج اس کا تذکرہ کرنا مشکل ہے۔ذیلی دفعہ چار یہ اصول طے کر رہی ہے کہ حق خود ارادیت کے لیے اگر کوئی بندوق اٹھا لے تو اسے دہشت گردی نہیں کہا جائے گا۔یہ بین الاقوامی تنازعہ سمجھا جائے گا اور اس پر وہی قوانین لاگو ہیں جو ’ انٹر نیشنل آرمڈ کانفلیکٹ ‘ میں لاگو ہوتے ہیں۔ جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 3314 بھی کمیونٹی سٹینڈرڈز کے خلاف قرار دی جا چکی ہے کیونکہ اس میں بھی کشمیریوں کو مسلح جدوجہد کا حق دیا گیا ہے۔ جنرل اسمبلی کی ایک اوور قرارداد بھی کمیونٹی سٹینڈرڈز کے خلاف تصور کی جاتی ہے اور یہ ہے قرارداد نمبر 37/43۔اس میں کہا گیا ہے کہ حق خود ارادیت کی خاطر لڑنے والوں کو مسلح جدوجہد سمیت تمام دستیاب ذرائع استعمال کرنے کا حق حاصل ہے۔

آج کوئی اس کا حوالہ دے اور مضمون باندھے کہ all available means including armed struggle سے کیا مراد ہے تو کمیونٹی سٹینڈرڈ کا کوڑا شام سے پہلے پہلے اس کے سر پر برس چکا ہو گا۔ یہ وہ چیلنج ہے جس کا ہم ادراک نہیں کر رہے اور بھارت کو واک اوور مل چکا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا میں بھارت کہاں سے کہاں پہنچ چکا اور ہم قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے کھیل کو نوٹی فکیشن بھیج رہے ہیں کہ سوشل میڈیا پر وزیر اعظم صاحب کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے پر اولمپئین رشید الحسن جونئیر پر 10 سال کی پابندی لگا دی گئی ہے۔رشید الحسن بھی اگر ایک خط قائمہ کمیٹی کو بھیج دیں کہ حکومت اور اپوزیشن کے معزز اراکین پارلیمان جو زبان ایک دوسرے کے بارے میں استعمال کرتے ہیں کیا وہ شائستہ ہے؟ اور اگر وہ بھی نازیبا ہے تو کیوں نہ ان سب پر بھی دس دس سال کے لیے اسمبلی تشریف لانے پر اور الیکشن لڑنے پر پابندی لگا دی جائے؟

ابلاغ کی دنیا میں امکانات کا ایک جہان آباد ہے لیکن ہمارے ہاں جب بھی غور ہوتا ہے اسی بات پر ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا کے گستاخوں کا ’ مکو‘ کیسے ٹھپہ جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا سے جڑے امکانات اور چیلنجز کا کسی کو احساس ہی نہیں۔ جب بھی کوئی فرمان جاری ہوتا ہے سوشل میڈیا سے گستاخی کے شکووں اور سرکوبی کی خواہش میں لپٹا ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بھارت اس میدان میں اجارہ داری قائم کر چکا ہے اور کمیونٹی سٹینڈرڈ میں اسی کی خواہشات غالب ہیں۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کے میڈیا سیل موجود ہیں لیکن ان کا کام دوسروں پر کیچڑ اچھالنا ہے۔ کوئی مقصدیت نہیں۔ بس ایک میدان سا سجا ہے اور زبانیں آگ اگل رہی ہیں۔ ہمارے سیاسی شعور میں سوشل میڈیا کا یہی مطلب ہے۔ پاکستان سے بہت دور ایک پاکستانی انعام رانا نے مگر خواب دیکھا اور اس خواب کی تعبیر ’ فیس لور‘ کی شکل میں سامنے آ چکی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

انعام رانا کا کہنا ہے کہ ہم فیس بک کی بجائے فیس لور پر کم ا کم ایک دائرہ کار میں ہی سہی مگر کھل کر بات تو کر سکتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ کاوش کس حد تک کامیاب ہوتی ہے لیکن انعام رانا کی ’فیس لور‘پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ عزیزہم وطنو ! میدان یہی ہے اور کرنے کا کام بھی یہی ہے۔بھلے اس کوہ کنی سے تمہارا زہرہ آب ہی کیوں نہ ہو جائے۔ اگر ہم سوشل میڈیا سے جڑے امکانات سمجھنا چاہیں تو فیس بک سے فیس لور تک ایک جہاں آباد ہے جو دعوتِ فکر دے رہا ہے۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply