کانسپٹ واضح ہے؟۔۔انجنیئر عطاء اللہ

بچپن میں ایک بار میں نینے کرنے بٹ پر گیا ،ادھر جب بھٹیارے مامامکئی کے کچے دانے بھوننے کیلئے بٹ میں درانتی مارتا تو کچھ دانے زمین پر گرتے اور ارد گرد لوگ اس کو اُٹھاکر کھاتے ،یہا ں سے پشتو کی ایک کہاوت بھی مشہور ہوئی  ہے ۔“تم دَ پولئے پڑق تہ ناست ئے” اسی دوران کچھ بطخے  اُدھر آگئے ،اور جیسے ہی کچھ دانے زمین پر گرتے فوراً بغیر چبائے ہی کھا جاتے ،مجال ہے کہ کسی انسان  کے بچے کو کھانے دیتے ،ارد گرد مجمع میں سے کسی جلے ہوئے نے کہا ،وا ہ اتنی جلدی جلدی کھا کر  یہ ہضم کس طرح کرتے ہیں، دوسرے ایک بندے کے اندر کا جینئس جاگتے ہوئے کہنے لگا ،نہیں یار اندر ایسی مشینری لگی ہوئی  ہے کہ پتھر بھی ریزہ ریزہ کرتا ہے تو مشینری کا لفظ سن کر اچانک میرے ذہن میں انجنیئرنگ یونیورسٹی کے لوگو میں موجود گراری کی تصویر آگئی کہ بطخ کے پیٹ کے اندر بھی ایسے گراریا ں گھومتی ہوں گی، پھر سوچا یہ گراریاں  لوہے کی بنی ہوں گی، یا گوشت کی، کیونکہ لوہے کو تو زنگ بھی لگ جاتا ہے یہ تو پھر جب سائنس پڑھی تو پتا چلا کہ بابا یہاں تو سارا نظام ہی الگ قسم کا ہے ۔بچپن میں ایسا ہی ہوتا ہے، پرسوں ایک بچہ کہہ رہا تھا یہ جو بادل اوپر اُڑتے ہیں  یہ ہوا میں برف بن جاتے ہیں اور جب برف پگھلنے لگتی  ہے تو ہمیں بارش کی صورت ملتی  ہے۔ میں اس کے اس ننھے ذہن کے کانسپٹ اور پھر اس کی وضاحت پر حیران تھا، کہ اس کے ننھے ذہن نے بارش بادل کے فینومینیا پر سوچا ہوگا ،تبھی تو وہ اتنی خوبصورتی سے اس کو ایکسپلین کرتی ہے، ہماری تعلیمی نظام میں میرے خیال میں یہی سب سے بڑی خامی ہے کہ بچےمیں ہر چیز پرخود سوچنے اور اپنا کانسپٹ ڈیویلپ کرنے کی تربیت نہیں کرتے، بس پہلے سے جو چیز کتاب میں ہے ٹھیک اسی طرح ہی تم رٹا لگا کر  بولو بھی اور لکھو بھی ، یعنی لکیر کے فقیر کے مصداق نوٹ بک سے تھوڑابھی آگے پیچھے ادھر ا ُدھرنہیں ہلنا۔
اگر ہم اپنے بچو ں میں خود سوچنے اور خود ہی فینومیناز کے ایکسپلین کرنےکا  اعتماد لے آئے تو پھر ہم بس اس کو صرف اپنے آئیڈیاز کوبیان  کرنے کیلئے صرف  زبان  کا  بنیادی علم دے کر اس کو ایک اچھا محقق بنا سکتےہیں ، بچہ اگر چیزو ں پر خود سوچے گا تو یا تو اس کا کانسپٹ غلط ڈیویلپ ہوگا یا ٹھیک ،اگر ٹھیک بنےگا اور آگے کتاب میں یا کلاس میں وہ یہ کانسپٹ اسی طرح ہی پڑھے گا تو اس کا اعتماد اپنے اوپر اور بڑھے گا اور اگر غلط ہو تو وہ اسے ٹھیک کرلے گا۔ یہ اس بچے سے بہت اچھا ہوگا کہ جس نے اس چیز پر کبھی سوچا ہی نہ ہو۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply