امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے ٹرمپ انتظامیہ کو جوہری معاہدے کی موجودہ حالت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ویانا جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے مواقع کی کھڑکی بند ہونے والی ہے۔
نیڈ پرائس نے ٹرمپ انتظامیہ کو جوہری معاہدے سے امریکہ کی یکطرفہ دستبرداری کا ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام میں پیش رفت پچھلی حکومت کے جوہری معاہدے سے دستبرداری کے فیصلے کے بعد سامنے آئی۔
مبصرین نوٹ کرتے ہیں کہ امریکی وزیر خارجہ کا بیان پروپیگنڈے اور دباؤ کی پالیسی سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور امریکی حکام نے بارہا اعتراف کیا ہے کہ تہران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی واشنگٹن کی پالیسی بری طرح ناکام ہوئی ہے۔
ابھی حال ہی میں امریکی ڈیموکریٹک سینیٹر کرس مرفی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ پابندیوں کی پالیسی کا کوئی فائدہ نہیں ہوا اور اس نے واشنگٹن کے لیے کچھ نہیں کیا۔
امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سیلیوان نے جنوری 2022 میں کہا تھا کہ واشنگٹن ٹرمپ کی المناک غلطیوں کی قیمت چکا رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلینکن نے بھی ایسا ہی بیان دیا۔ بلینکن نے 7 دسمبر 2021 کو کہا کہ امریکہ نے 2015 میں جوہری معاہدے سے دستبردار ہو کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔
گزشتہ تین سالوں کے دوران ٹرمپ کی جانب سے زیادہ دباؤ اور پابندیوں کی پالیسی جاری رہنے کے باوجود ایران نے زیادہ ڈیٹرنس کی پالیسی پر عمل کیا اور واشنگٹن کی تمام نئی اور پرانی پابندیوں کا پوری عزم کے ساتھ مقابلہ کیا اور یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ تہران کے حوالے سے اپنے کسی بھی اہداف تک نہیں پہنچ سکے۔ اپنے اقتدار کے آخری ایام تک، اور یہ سرد جنگ کے بعد امریکی خارجہ پالیسی کی تاریخ کی سب سے بڑی ناکامی تھی۔
ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی حکام کو اپنے پیشروؤں کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے اور اپنی غلطیوں کو دہرانے سے گریز کرنا چاہیے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں