اپنی محدودات کا نوحہ۔۔نصرت جاوید

مجھے خبر نہیں کہ تاریخی اعتبار سے یہ دعویٰ درست ہے یا نہیں۔ 1970کی دہائی میں لیکن جوانی کی حدود میں داخل ہورہا تھا تو بارہ دروازوں والے لاہور میں یہ بات مشہور تھی کہ پنجابی کے معروف شاعر استاد دامن شاہی قلعہ کے متوازی آباد ہوئے محلہ کی اس کھولی میں رہتے ہیں جہاں اس شہر سے اکبر اعظم کے دور میں ابھرے ملامتی شاعر شاہ حسین قیام پذیر تھے۔

دامن صاحب کی شاعری کو میں ادبی اعتبار سے سراہنے کے قابل نہیں تھا۔ اگرچہ ان کا سارا کلام لاہور کی گلیوں میں بولی والی زبان پر مبنی تھا۔ اسے پڑھنا انتہائی دشوار محسوس ہوتا۔ مشاعروں میں تاہم دامن صاحب کی آواز میں سناجاتا تو ڈرامائی سحر طاری ہوجاتا۔ ایک بار ہمارے گورنمنٹ کالج میں بھی نظم پڑھنے تشریف لائے تھے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے باہمی تعلق کو انہوں نے “الجبرہ” اور “جیومیٹری” والا رشتہ بتایا۔ ہمیں وہ شعر بہت مزاحیہ سنائی دیا۔ برسوں اسے یاد کرتے ہوئے لطف اندوزہوتے رہے۔

سقوط ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت آئی تو چند ہی ماہ بعد استاد دامن کی گرفتاری کی خبر نے شہر کو چونکا دیا۔ پولیس کا دعویٰ تھا کہ ان کی کھولی سے بم برآمد ہوا ہے۔ لوگوں کا مگر اصرار تھا کہ “بم” دامن صاحب کی اس نظم کی وجہ سے “دریافت” کرنا پڑا جس کے ذریعے شاعر نے “کی کری جاناں ایں ” یعنی “کیا کررہے ہو” والا سوال پوچھا تھا۔ اس نظم میں بھٹو صاحب کو ان کا بھارت سے “ہزار سال جنگ” لڑنے والاوعدہ یاد دلایا تھا اور مذکورہ وعدے کا شملہ معاہدے کی تیاریوں کے تناظر میں تمسخر اُڑانے کی جسارت۔ ان کی کھولی سے بم کی برآمدگی لہٰذا حقیقی زندگی میں رونما ہوئے لطیفہ میں بدل گئی۔ دامن صاحب ہنستے مسکراتے عدالت میں پیش ہوتے رہے۔ بالآخر انہیں رہا کرنا پڑا۔

دامن صاحب کی گرفتاری اور رہائی والا واقعہ یاد کرتا ہوں تو بے ساختہ ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ وہ واقعتا خوش نصیب تھے۔ ان کے زمانے میں سوشل میڈیا نہیں تھا۔ ہمیں ان دنوں “ففتھ جنریشن وار” کا ادراک بھی نہیں تھا۔ ان دنوں فیس بک یا ٹویٹر ہوتے تو ان پر چھائے محبان وطن کی سپاہ ٹرول پیغامات کے سیلاب سے ثابت کردیتی کہ شاہ حسین سے منسوب کھولی میں تقریباََ گوشہ نشین ہوا شاعر واقعتا ایک “تخریب کار” تھا۔ اپنے گھر میں بم چھپائے دہشت گردی کی گھنائونی واردات کے ارتکاب کو مچل رہا تھا۔

استاد دامن کی مضحکہ خیزالزام کے تحت ہوئی گرفتاری نے میرے دل میں ان سے ملنے کا اشتیاق بڑھادیا۔ لہوری ہونے کے ناطے میرے تایا کے ان کے ساتھ بے تکلفانہ مراسم تھے۔ مجھے ان کی کھولی میں لے گئے۔ اس کے بعد میں جب بھی آوارہ گردی کرتا ہوا ان دنوں کے منٹو پارک اور آج کے مینارپاکستان جاتا تو واپسی پر انہیں سلام کرنے کو رک جاتا۔ اپنی کھولی میں وہ اکثر تنہا بیٹھے ہوتے تھے۔ کتابوں کے انبار ان کی کھولی کی چھتوں کو چھورہے ہوتے۔ کتابوں کو محفوظ رکھنے کے لئے اپنے ہاتھ سے چوری بناکر کھولی میں چوہوں کے لئے بکھیردیتے تھے۔ ایک کتاب ہمیشہ ان کے سرہانے رکھی ہوئی ملتی۔ وہ کتاب انگریزی کے مشہور ناول نگار جیمز جوائس کا لکھا بھاری بھر کم ناول “Ulysses”تھا۔ جیمز جوائس اسے “اولیسز” پکارنے کو مصر رہتا تھا۔

مجھے ان دنوں ہرگز خبر نہیں تھی کہ جیمز جوائس کون ہے اور اس کا مذکورہ ناول کیوں مشہور ہوا۔ استاد دامن سے مگر اکثر استفسار کیا کہ وہ اس کتاب کو ہمیشہ اپنے سرہانے کیوں رکھتے ہیں۔ وہ معصومانہ عاجزی سے محض یہ جواب دے کر خاموش ہوجاتے کہ کئی برسوں کی کاوشوں کے باوجود وہ اس ناول کی گہرائی تک نہیں پہنچ پائے ہیں۔ مجھے ان کا جواب سن کر مزید حیرت اس لئے بھی ہوتی کیونکہ لاہور کی گلیوں میں بولی جانے والی زبان میں لکھنے والا شاعر انگریزی میں لکھے ایک ناول سے شدید متاثر محسوس ہوا۔

استاد دامن پہلی نظر میں اپنے ڈیل ڈول کی وجہ سے پہلوان ہونے کا تاثر دیتے۔ دھوتی، کرتہ اور سرپر پٹکا باندھنے کی وجہ سے ان کا “عوامی” ہونا مزید عیاں ہوجاتا۔ وہ مگر انگریزی کے علاوہ دیگر کئی زبانوں کے سنجیدہ طالب علم بھی تھے۔ عمر کے آخری حصے میں روسی ادب کی گہرائی تک پہنچنے کو اس کی زبان پر مہارت حاصل کرنے کو بھی بے چین رہے۔

استاد دامن کی یاد بدھ کے روز انٹرنیٹ دیکھتے ہوئے اس وقت آئی جب کئی ایسے مضامین نظر سے گزرے جو جیمز جوائس کی بابت لکھے ہوئے تھے۔ 2فروری کے دن غالباََ موصوف کی برسی تھی یا یوم پیدائش۔ استاد دامن کے سرہانے رکھے اس کے ناول کی وجہ سے میں نے ان میں سے چند مضامین غور سے پڑھے۔ انہیں پڑھنے کے بعد علم ہوا کہ اس کا تعلق بنیادی طورپر آئرلینڈ سے تھا۔ جوانی ہی میں لیکن وہاں سے پہلے برطانیہ اور بعدازاں یورپ منتقل ہوگیا تھا۔ یورپ کے مختلف ممالک کے سکولوں میں انگریزی پڑھاکر رزق کماتے ہوئے بالآخر پیرس چلاگیا۔ دوسری جنگ عظیم میں اس شہر پر قبضے کے بعد جرمن افواج کے خوف سے سوئٹزرلینڈ چلا گیا۔

ساری عمر دربدر رہنے کے باوجود جیمز جوائس مگر اپنے دل ودماغ سے آئرلینڈ کو ایک لمحہ کے لئے بھی بھلانہیں پایا۔ اس کی تمام تخلیقات کا موضوع آئرلینڈ ہی رہا اور خاص طورپر وہاں کے شہر ڈبلن کے باسی اور ان کی روزمرہّ زندگی۔ ڈبلن کی ثقافت اور روزمرہّ زندگی کو لیکن اس نے کبھی رومانوی انداز میں قابل رشک بناکر پیش نہیں کیا۔ بہت ہی انوکھی زبان میں بلکہ یہ کھوج لگانے کی کوشش کرتا رہا کہ ظاہری طورپر مذہب سے تقریباََ جنونی انداز میں وابستہ ہوئے ڈبلن کے باسی اتنے منافق کیوں ہیں۔ ان کی منافقت کو عیاں کرنے کے لئے اس نے جو کردار اور واقعات تخلیق کئے ان پر “فحش نگاری” کا الزام لگا۔ امریکہ جیسے ملک میں بھی اس کا وہ ناول اسی الزام کے تحت ناقابل اشاعت وفروخت رہا جو استاد دامن کے سرہانے دھرارہتا تھا۔

بدھ کے روزجیمز جوائس کے بارے میں انٹرنیٹ پر پھیلے مضامین پڑھے تو گماں ہوا کہ باغبان پورہ کے ایک درزی کے ہاں پیدا ہونے والا چراغ دین جو بعدازاں استاد دامن کے نام سے مشہور ہوا، لاہور سے ابھرے ایک ملامتی شاعرسے منسوب کھولی میں محصور ہوا درحقیقت اپنے “شہر سنگ دل” کے اصل اور تلخ حقائق کو بیان کردینے کی خواہش میں مبتلا تھا۔ وہ مگر جیمز جوائس جیسا انداز بیان دریافت نہ کرپایا۔

یہ بات لکھتے ہوئے میں استاد دامن کی تخلیقی محدودات بے نقاب کرنے کی جسارت نہیں کررہا۔ جوائس آئرلینڈ سے کہیں دور بیٹھا اپنی “دھرتی ماں ” کے تلخ حقائق بیان کررہا تھا۔ اس کی تخلیقات ڈبلن کے شرفا کو اشتعال دلاتی تھیں۔ وہ مگر جلاوطن ہوتے ہوئے ان کے غضب سے محفوظ رہا۔ استاد دامن بے چارے نے مگر “کی کری، ” والی نظم ہی لکھی تو ان کی کھولی سے “بم” برآمد ہوگیا۔ اس کے بعد انہوں نے مزید سچ برملا کہہ دینے کا حوصلہ بھی یقینا کھودیا ہوگا۔ ان کے سرہانے رکھا جیمز جوائس کا ناول درحقیقت ان کی حسرت کا بھرپوراظہار تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہاں تک پہنچنے کے بعد احساس ہواہے کہ استاد دامن کو یاد کرتے ہوئے میں خود بھی اپنی محدودات یا اصل اوقات کا نوحہ لکھ رہا ہوں۔ خود کو “کی کری، ” کہتے ہوئے خاموش رہنے ہی میں عافیت ہے۔ ویسے بھی آج جشن منانے کا دن ہے۔ آئی ایم ایف کے بورڈ آف گورنر نے ہمیں ایک ارب ڈالر کی “امدادی رقم” فراہم کردینے کی منظوری دے دی ہے۔ اس کے عوض ہماری سرکار میری اور آپ کی جیب سے تقریباََ377ارب روپے کی مزید رقم روزمرہّ زندگی کے لئے لازمی شمار ہوتی اشیاء پر سیلز ٹیکس کی صورت جمع کرے گی اور سٹیٹ بینک آف پاکستان ہر من مانی کرنے کو “خودمختار”ہوگا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply