راجہ داہر نے اپنی بہن سے شادی کا ارادہ کیا جس کی اجازت اس وقت کا ہندو معاشرہ نہ دیتا تھا۔ راجہ نے اپنے ایک وزیر سے مشورہ لیا۔ وزیر موصوف نے کہا حضور یہ عوام کچھ دن کے اندر سب بھول جاتی ہے آپ بس بھگوان کا نام لے کہ ارادے پہ عمل کریں۔ اپنی بات ثابت کرنے کے لیے وزیر نے ایک بکری پہ کوئی پودا لگا کہ بازار میں گھمایا۔ دو ہفتے بعد بازار کے لوگوں سے پوچھا کہ تمھیں کوئی انہونی بات یاد ہے پچھلے کچھ دنوں کی؟ عوام میں سے کسی کو کچھ یاد نہ تھا (شاید ان دنوں بھی ٹماٹر پیاز کافی مہنگے تھے)۔ یوں وزیر نے راجہ کو باآرام شیشے میں اتار لیا مگر تاریخ کے پنّوں سے یہ قصہ اور تاقیامت راجہ کو لعن طعن سے نہ بچا سکا۔
حافظہ ہماری عوام کا بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ شاید برصغیرکے پانی کا اثر ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ راجہ اگر سپہ سالار اعظم بن کہ یہی سب کرتا اور اس کے اطلاع کسی آئی ایس پی آر کے ذریعے عوام کو دیتا تو عوام سب بھول جاتے بلکہ الٹا اسے ایک عظیم شخص و ادارے کے نام سے یاد رکھتے۔
فی الوقت سوال بس اتنا ہے کہ جس واقعے کو بنیاد بنا کر ذمہ داران کا تعین ہو رہا ہے اور اس کی بنیاد پہ استعفے لیے جا رہے ہیں، کیا وہ گناہ بغلِ اعظم میں اسامہ بن لادن کی رہائش اور پھر امریکی فوج کی جانب سے ہمارے سرحدی حدود کے ساتھ باالجبر سے زیادہ بڑا، حساس اور سنجیدہ ہے؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں