بوسیدگی سے بچنے کے لیے سعی۔۔عامر حسینی

روز ایک طرح کی مشینی زندگی آپ کی اصل کو دھیرے دھیرے ختم کررہی ہوتی ہے ۔آپ بے سوادے ہوتے جاتے ہیں اور بوسیدگی آپ کے باطن تک پہنچنے لگتی ہے ۔ اور ایسے لگتا ہے کہ آپ کے اندر جو انسان تھا وہ قریب المرگ ہے ۔ اپنے اندر کی موت سے بچنے کے لیے آپ اپنے شہر میں قدیم روحوں کی تلاش کرتے ہیں جو اپنی جُون بدلنے کے پراسس کے خلاف مزاحمت کررہے ہوتے ہیں۔اور شہر ایسے لوگوں سے روز بروز خالی ہوتا جاتا ہے اور لے دے چند ایسے لوگ رہ جاتے ہیں جو اپنی جُون کو بدلنے کے خلاف سخت ترین مزاحمت کررہے ہوتے ہیں ۔ اس دوران آپ ایک تو اپنے “شہرِ ماقبل انسان” میں بچ جانے والے چند ایک انسانوں کی منڈلی میں شامل ہوجاتے ہیں تو دوسرا منڈلی کو جب موقع  ملتا ہے تو اُن ویرانوں کی طرف جاتے ہیں جہاں ابھی ماقبل انسان سماج کو پوری طرح دخیل ہونے کا موقع  نہیں مل سکا۔
گر یونہی گھر میں بیٹھا رہا، مار ڈالیں گی تنہایاں
چل ذرا میکدہ میں چلیں اے فنا دل بہل جائے گا
ہم تین نفس تھے جو پرسوں رات ایک گوشہ عافیت میں اکٹھے ہوئے تو تینوں ایک دوسرے کے چہرے غور سے دیکھنے لگے، کہیں ہماری “جُون” تو بدل نہیں گئی؟ خاموشی سے یہ عمل کافی دیر جاری رہا، پھر بلوچ نے خاموشی کو توڑا اور کہنے لگا،
حسینی! کوئی ایسی جگہ ہے جہاں کل ہم جائیں تو ہمارے اندر جینے کی ماند پڑتی خواہش کو پَر لگ جائیں؟
شاہین کہنے لگا، ہاں یارا! کہیں ایسی جگہ چلیں جہاں لوگ ابھی فطرت کے قریب ہوں اور وہ مشین نہ ہوں؟
میں اُن کی بات سُن کر ہنس پڑا۔ اُن دونوں نے میرے ہنسنے کا تھوڑا بُرا منایا ۔ میں  اُن کے بولنے سے پہلے ہی کہنے لگا، “اب اس دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں اُجرت کی غلامی کا دور دورہ نہ ہو، جہاں قوت محنت خریدنی و فروختنی شئے نہ بن چکی ہو۔ جہاں منافع کمانے کی ہوس کا راج نہ ہو، جہاں وسائل پیدوار و ذرایع پیداوار کے مالکان دوسروں کو اپنا اُجرتی غلام نہ بنالیا ہو ۔ جن کی محنت اور کام اُن سے بے گانہ نہ ہوچکی ہو، جہاں محنت اور سرمایہ کا تضاد موجود نہ ہو اور سماج کی اکثریتی علاقوں میں اجرتی غلام اب تک طبقاتی شعور سے لیس نہیں ہیں وہ Class in itselfسے Class for itselfکا سفر مکمل نہیں کرپائے “

بلوچ کہنے لگا کہ کوئی علاقہ ایسا نہیں ہے جہاں سو فیصد نہ سہی چند فیصد ہی “خود کفیل گاؤں” کی جھلک نظر آئے جس کے طریق پیداوار کو کارل مارکس نے “ایشیائی طریق پیداوار” کہا تھا ۔
“مینڈے سوہنے بلوچا! برصغیر کے نام نہاد ایشیائی طریق پیداوار کو برطانوی نوآبادیاتی راج میں ہونے والی سوشل انجینئرنگ نے ہی توڑ پھوڑ دیا تھا اور اُسی زمانے میں ہمارے دیہاتوں کو منڈی سے جوڑ دیا تھا ۔ ہر علاقے میں اُس نے سینکڑوں ایسے چھوٹے ٹاؤن بنائے جن کے نام کے آگے یا پیچھے “منڈی” آتا تھا جیسے “منڈی خانیوال” ، “منڈی صادق گنج” منڈی بہاؤالدین” ان منڈیوں سے آس پاس کے دیہی علاقوں کو جوڑ دیا اور وہاں کی زرعی پیداوار ان منڈیوں میں آکر بکا کرتی تھی ۔ اور پھر اُس نے ریلوے لائن اور زمینی راستوں کو ایک دوسرے سے مربوط کیا تاکہ یہ خام مال اُس ملک تک بندرگاہوں سے پہنچایا جاسکے ۔ اس نے اُس ماقبل نوآبادیاتی دیہی سماج کو اکھاڑ کر رکھ دیا جو “خودکفالت” کی مثالی حالت کو پہنچا ہوا تھا ”
” اب ایسا کوئی گاؤں ڈھونڈنا ایک سعی لاحاصل ہوگا“

“پھر بھی کوئی تو ایسی جگہ ہوگی جہاں زندگی پوری مشین نہ لگتی ہو”، بلوچ نے تھوڑا جھنجھلا کر کہا۔
میں نے انھیں کہا کہ اچھا کل ہم “بھوانہ” چلتے ہیں اور وہاں سلیم عارف سِپرا ہمارا دوست رہتا ہے، وہ ایسی جگہ جانتا ہوگا جہاں ہمارے نفوس کی اوور ہالنگ ہوجائے ۔

ہمارا ایک دوست سیال ہے ویسے تو وہ بھی ایک زمانے میں پیروال کے قریب ایک جنگل کے پاس انگریز کے بسائے چک نائن آر میں مقیم ہے اور مگر ہمیں یہ پتا نہیں ہے کہ جب انگریز نے پنجاب کی “باروں” کو کاٹ چھانٹ جب نہریں نکال کر کالونی علاقے بنائے کب اُس کے آباءواجداد کو دریا کے کناروں سے اکھاڑ کر یہاں لا بسایا تھا ۔ اُس سے میں نے کہا کہ وہ ایک دن کے لیے ہمیں اپنی گاڑی اور ڈرائیور ادھار دے۔ اُس نے ہمیں یہ فوری ادھار دے ڈالے ۔

ہم ہفتے دن 11 بجے سیال کی گاڑی میں بیٹھے جسے اس کا ڈرائیور چلا رہا تھا ۔ وہ بھی بلوچ ہے ۔ ایک زمانے میں وہ مذہبی شدت پسند عسکریت پسند تھا جس نے 20 برس سے زائد کا عرصہ پاکستان کی مختلف جیلوں میں کاٹا، بے پناہ تشدد کا سامنا کیا اور پھر وہ سب کچھ سے توبہ تائب ہوگیا تو سیال کے واسطے سے ہمیں ملا اور اس کی کہانی بھی سننے کو ملی ۔ یہ آج اپنی جوانی کے دنوں کے ایک ایسے کام میں صرف ہوجانے پہ افسوس کرتا ہے جو اسے آج انسانیت کے خلاف سب سے بڑا جرم لگتا تھا ہے ۔ اس کی کایا کلپ کیسے ہوئی؟ کبھی موقع ملا تو ضرور تفصیل سے لکھوں گا ۔

سفر شروع ہوا ۔ گاڑی کبیروالہ انٹرچینج سے فیصل آباد جانے والی موٹروے پہ آگئی تو سیال کے ڈرائیور نے ہم سے پوچھا کہ کیا وہ طالب درد کو سُن سکتا ہے؟ شاہین نے کہا، جی بسم اللہ….. کون کافر طالب درد کو سننے سے انکاری ہوگا، ڈرائیور نے طالب درد لگا دیا ۔  ۔ ۔ موٹروے پہ ہمارا سفر شروع تھا کہ شاہین اور بلوچ جو گاڑی کی بیک سیٹ پہ بیٹھے تھے نے آپس میں آنکھوں سے اشارے کیے جسے میں نے بیک ویو مرر سے دیکھ لیے، اور میں بظاہر اخبار پڑھنے میں مشغول رہا۔

” دیکھو جی، موٹروے بن جانے سے کیسے ایک عرصہ سے کٹے ہوئے علاقے مین سٹریم ہوگئے اور سفر کتنا آسان ہوگیا، پنجاب کے لوگ یونہی تو نواز شریف، شہباز کے گن گاتے۔
” ہاں نا، کتنے بدترین حالات تھے کہ ایک طرف فوج اور عدلیہ نے محاز کھڑا کررکھا تھا دوسرا 2014ء سے دھرنا شروع ہوگیا تھا اور میڈیا میں بدترین کردار کشی کی مہم چل رہی تھی پھر بھی نواز شریف اور شہباز شریف نے وہ کارنامے کردکھائے جو کوئی اور نہ کرسکا ۔ لوڈ شینڈنگ ختم کرنے کے لیے بجلی کے منصوبے مکمل کیے۔“
بلوچ نے جواب میں کہا۔۔
اتنے میں شاہین نے مجھ سے سگریٹ مانگی۔۔ میں نے مصنوعی خفگی کے ساتھ کہا، “اپنے ساتھ والے مصاحب سلطنت شریفیہ سے مانگو، میں تو تمہیں دینے والا نہیں”…… یہ سُن کر بلوچ اور شاہین دونوں نے بلند قہقہ لگایا ۔

سفر یونہی جاری رہا ۔ ہم پینسرہ انٹرچینج سے بھوانہ روڈ پہ ہولیے۔ اور پھر ہم منگوانہ، حمدنوانہ سے ہوتے ہوئے جیسے ہی بھوانہ میں پرانے جھنگ ۔پنڈی روڈ پہ پہنچے تو وہ اُسی طرح ٹوٹا پھوٹا ہوا تھا جیسا میں نے اسے 2003ء میں دیکھا تھا۔اس روڈ کو دو رویہ پی پی پی کے دور میں 1996ء میں کیا جانا شروع ہوا تھا جو نواز شریف دور میں مکمل ہوا تھا۔ بہت بُری حالت تھی خیر ہم سلیم عارف سپرا کے گھر پہنچ گئے ۔ میں دوسری بار زندگی میں بھوانہ آیا تھا جبکہ بلوچ ایک بار اپنے ایک کولیگ سے ملنے چینوٹ جاتے ہوئے امین انٹرچینج سے اترکر بھوانہ کو جاتے جاتے دیکھ چُکا تھا ۔ شاہین پہلی بار اس علاقے میں آیا ۔

سلیم عارف سپرا کے ہاں ہم نے دوپہر کا کھانا کھایا، چائے پی اور پھر اس کے بعد میں نے سپرا صاحب کو کہا وہ ہمارے نوجوان دوست “میاں کاشف بھٹہ” کو فون کرے اور اسے بتائے کہ ہم اُس کی طرف آنا چاہتے ہیں ۔ کئی بار فون ملانے پہ بھی فون نہ اٹھایا گیا تو میں نے کہا کہ ہم سب میاں کاوش کی جاگیر پہ چلتے ہیں، مل گیا تو ٹھیک ورنہ اُس کے علاقے کی ایک جھلک دیکھ کر واپس آجائیں گے ۔ سب اٹھے اور گاڑی میں بیٹھ کر کاوش میاں کی طرف چل دیے۔ کاوش بھٹہ جہاں رہتا ہے وہ بھوانہ شہر سے اب قریب قریب 20 کلومیٹر کا فاصلہ بنتا ہے ۔ جنرل مشرف کے دور میں بھوانہ اور نور پور گاؤں اور دیگر علاقوں کو دریائے چناب پہ ایک پُل تعمیر کرکے ملایا گیا۔ اسے برج لالیاں کہا جاتا ہے ۔ اس سے پہلے دریائے چناب کے ایک طرف بھوانہ والوں کو دوسری طرف جانے کے لیے پہلے جھنگ جانا پڑتا اور پھر وہاں سے مزید 50 کلومیٹر کا سفر کرنا پڑتا اور یوں چار سے پانچ گھنٹے لگتے تھے اور اب یہ سفر موٹر سائیکل اور کار پہ بمشکل 20 منٹ کا ہے ۔ دریا کی بیٹ کے قریب میاں کاوش بھٹہ اپنی زمینوں پہ رہتا ہے۔ وہ ایک زمانے میں انتھروپولوجی میں قائد اعظم یونیورسٹی سے ماسٹرز کرکے آیا تو پہلے پہل وہ علم بشریات میں تحقیق کرنا چاہتا تھا اور ایک انتھروپولوجی ریسرچ انسٹیٹیوٹ بھی قائم کرنا چاہتا تھا ۔ اور ایسے ہی اُس نے قانون کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اور پھر وہ گریڈ 17 کا اسلام آباد میں وفاق کا افسر بن گیا تھا۔ پھر سب چھوڑ چھاڑ وہ بظاہر اس کٹے ہوئے علاقے اور ویرانے میں بس کھیتی باڑی سے جڑگیا تھا ۔

ایک زمانہ وہ تھا جب وہ لاہور میں باقاعدگی سے نجم حسین سید کی مجلس اٹینڈ کرتا اور لخت پاشا کے اسٹڈی سرکلز میں بھی وہ باقاعدہ سے شریک ہوا کرتا تھا۔
اور وہ سر سے پیر تک پنجابی آرٹ و کلچر کی اس لہر سے جڑگیا تھا جس کو لہر بنانے میں نجم حسین سید کا بہت بڑا کردار تھا۔
کاوش اور میرے درمیان اشتراک “بھٹوز اور پی پی پی” سے عشق ہے۔ وہ تو ایک بار پی پی پی کے ٹکٹ پہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن تک لڑچُکا ہے۔

میں کاوش کے بارے سوچ رہا تھا کہ ڈرائیور نے طالب درد کو دوبارہ لگایا تو سلیم بھائی نے بتایا کہ طالب درد اس خطے کا سب سے مقبول ترین گلوکار تھا اور ذاتی زندگی میں بھی شاندار آدمی تھا ۔ وہ اپنی آمدنی کا بہت بڑا حصہ اپنی ٹیم کے افراد پہ خرچ کردیا کرتا تھا اور انہوں نے یہ بھی بتایا کہ طالب درد کیسے ہر سال شاہ جیونہ کے سالانہ عرس و میلے میں گایا کرتا اور اُس کے سامنے کسی کا جادو نہیں چلتا تھا ۔ سلیم نے بتایا کہ اب اُس کے بیٹے عمران طالب درد سے اُن کا بڑا تعلق ہے،
“کبھی، آپ دو روز کے لیے آئیں تو عمران طالب درد کو ایک رات بلاکر سنیں گے”، سلیم عارف سپرا نے کہا۔
سلیم نے بتایا کہ وہ جاب کرکے اب تنگ آگیا، وہ اب کاشتکاری اور لائیوسٹاک کا کام کرے گا ۔ اپنے گاؤں وہ منتقل ہونے کا پروگرام بنائے ہوئے تھا۔
سلیم نے پنجابی میں ماسٹرز کیا ہوا ہے ۔ وہ ڈاکٹر سعید بھٹہ (سابق صدر شعبہ پنجابی پنجاب یونیورسٹی و حال سربراہ پنجابی ڈیپارٹمنٹ جی سی یو لاہور) کے شاگرد ہے ۔ پنجابی کے دونوں رسم الخط گورمکھی اور شامکھی دونوں پہ عبور رکھتا ہے اور دونوں میں لکھتا ہے ۔ پنجابی زبان، ادب اور ثقافت کے فروغ کے لیے اُس نے ایک یو ٹیوب چینل بھی بنارکھا ہے ۔

ہم کاوش کے گھر کی طرف رواں دواں  تھے کہ اتنے میں ہماری گاڑی کے قریب سے ایک موٹر سائیکل تیز رفتاری سے گزرا۔ سلیم نے گاڑی رکوائی اور باہر نکل “کاوش، کاوش” کی آوازیں لگانے لگا۔ لیکن موٹر سائیکل تیزی سے آگے جاتا رہا ۔ ہم نے گاڑی واپس موڑنے کو کہا اور تیزی سے موٹر سائیکل کو جالیا۔ کاوش بھٹہ ہاتھ میں گنا پکڑے موٹر سائیکل پہ پیچھے بیٹھا تھا ۔ وہ اترا اور مجھے دیکھتے ہی بے اختیار زور سے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے مجھ سے لپٹ گیا۔ گاڑی اور موٹر سائیکل واپس ہوئے اور ہم سب کاوش کی ہمراہی میں اس کی جاگیر میں پہنچ گئے ۔ کاوش بڑی زمین کا ملک ہے اور اس زمین پہ ہی اس نے اپنا گھر بنارکھا ہے ۔ جب کہ اسی زمین پہ ایک حصے میں اس نے گورنمنٹ اسکول بنوایا ہے جو آس پاس کے علاقوں کے لیے پڑھائی کا واحد ادارہ ہے ۔ ویٹنرری ڈسپنسری کے قیام کے لیے جگہ فراہم کی ہوئی ہے ۔ اور تین بڑے کمروں پہ مشتمل مہمان خانے کی الگ سے عمارت ہے جو اس کے والد کے زمانے سے ہے ۔

ہم دھوپ میں باہر چارپائیوں اور کرسیوں پہ بیٹھے رہے ۔ اس دوران بلوچ،شاہین ، سپرا اور چند اور لوگ کاوش کی زمین کے گنوں سے انصاف کرتے رہے اور حال احوال بھی جاری رہا ۔ اس دوران جب سورج غروب ہوگیا اور رات چھانے لگی تو باہر تریل پڑنے لگی اور سردی میں اضافہ ہوگیا تو کاوش نے ایک کمرے میں الاؤ کا انتظام کیا تو لوگ اس کمرے میں منتقل ہوگئے ۔

اس دوران کاوش نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگا ذرا باہر چہل قدمی کرتے ہیں ۔ باہر آسمان صاف تھا۔ستارے جھلمل کررہے تھے مگر سردی کافی تھی اور میرا کوٹ اس سردی کو جھیل نہیں پارہا تھا اور اسے میرے بدن میں منتقل کررہا تھا۔ کاوش گھر گیا اور اندر سے ایک گرم چادر لاکر مجھےدی، جود اس نے گرم جیکٹ پہن لی تھی اور سر کے گرد مفلر لیپٹ لیا تھا ۔ ہم اس کی زمینوں کے کنارے کنارے آہستہ آہستہ چلتے جارہے تھے ۔ اس دوران اُس نے مجھے تفصیل سے اپنی کہانی سُنائی کہ کیسے اُسے اسلام آباد میں وحشت سی ہونے لگی اور دیسی انگریزوں کے اعمال سے اَسے نفرت ہونے لگی ۔”مجھے لگتا تھا جیسے میرا اندر کچھ بدل رہا ہے، میں تو وہ ہوں ہی نہیں جو میں تھا”، اس کی آواز وہاں ویرانے میں گونج رہی تھی اور ہم دونوں ستاروں کی روشنی میں چلتے دو ہیولے نظر آرہے تھے ۔”

مجھے لگا کہ میں فطرت سے دور ہوتا جارہا ہوں اور ایک مصنوعی زندگی گزار رہا ہوں، میرادَم گھٹنے لگا تھا، قریب تھا کہ میں ذہنی توازن کھو بیٹھتا، میں نے نوکری پہ لات ماری، اسلام آباد کے کوفے کو چھوڑا اور یہاں نور پور کے اس مدینے کے مضافات میں رہنے لگا ہوں”، وہ یہ سب جس درد بھرے لہجے میں کہہ رہا تھا ، افسوس اس درد کو اس رپورتاژ میں منتقل کرنے سے قاصر ہوں ۔
” میں اپنے ربذہ میں واپس آگیا ہوں اور مجھے بہت سکون ہے “، اُس نے” ربذہ” کے استعارے کو ایک اور معنی میں استعمال کیا تو میں مسکرانے لگا اور کہا
” لیکن بے فکر رہو تم جب مروگے تو تنہا نہیں ہو  گے، نہ تمہارا جنازہ پردیسی مسافر پڑھائیں گے، تمہاری قسمت ابو زر جیسی نہیں ہے، ویسے یہاں ابو زر ہوتے تو انہوں نے تمہیں بس ساڑھے بارہ ایکٹر زمین دینی تھی باقی سب بے زمین کسانوں کو بانٹ دینی تھی “۔۔ یہ سُن کر کاوش نے زوردار قہقہہ لگایا ۔ اتنے میں سامنے سولنگ سے کماد سے بھری ایک ٹرالی گزرنے لگی تو اس نے بتایا کہ یہ اُس کا کماد شوگر مل بکنے جارہا ہے اور اس نے بتایا کہ فی من اُسے پچاس روپے خالص منافع ہوگا اس سے اندازہ کرلیں شوگر مل مالکان کسانوں کا کتنا استحصال کرتے ہیں ۔
“اپنے علاقے کے غریب کسانوں کو مفت قانونی امداد فراہم کرنے کے لیے ہائیکورٹ کی پریکٹس کررہا ہوں، عابد ساقی کے چیمبر میں دو دن بیٹھتا ہوں” اُس نے دھیمے سے لہجے میں بتایا ۔
“کیا پڑھ رہے ہو؟” میں نے پوچھا
کہنے لگا کہ وہ آج کل گاندھیائی سوشلسٹ ماڈل میکرز کو پڑھ رہا ہے اور چاہتا ہے کہ گاندھیائی ماڈل پہ اپنے علاقے کو استوار کیا جائے ۔
” فکشن نہیں پڑھ رہے کیا؟ ”
کہنے لگا کہ” رات کو سونے سے پہلے آخری دو گھنٹے فکشن ہی پڑھتا ہوں اور نیند میں فکشن کے کرداروں سے تفاعل کرتا ہوں”

اس کے بعد ہم دوستوں کی محفل میں جاشریک ہوئے ۔ دو گھنٹے محفل موسیقی میں گزرگئے اور رات گیارہ بجے ہم وہاں سے واپس ہوئے اور دو بجے ہم واپس خانیوال آئے ۔ آج اتوار کو شام کے وقت بلوچ کا موبائل فون پہ پیغام آیا :
” میری جُون بدلنے کا خطرہ وقتی طور پہ ٹل گیا،” خچر بنن توں بچ گئیا ہاں، توں سُنا!”
میں جواب میں کچھ لکھنے لگا تھا کہ نصرت فتح علی خان گانے لگے،
عقل کے روگ مار دیتے ہیں
عشق کے سوگ مار دیتے ہیں
آدمی خود بخود نہیں مرتا
دوسرے لوگ مار دیتے ہیں

Advertisements
julia rana solicitors

تو میں کچھ بھی مزید لکھنے سے رک گیا!

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply