معذورنہیں… اثاثہ ہوں میں

معذور نہیں اثاثہ ہوں میں…
زندگی کبهی بهی آسان نہیں ہوتی اسے آسان بنانا پڑتا ہے کبهی کچھ باتوں اور حالات کو بر داشت کر کے، کبهی نظر اندار کر کے تب ہی کچھ جینے کا حوصلہ اور راستے ملتے ہیں..
فلم میکنگ کے لیاری ٹیم سے گر لز گروپ کے لیے میری اسٹوری سلیکٹ ہوئی جو میرے لیے خو شی کی بات ہے.اس اسٹوری کے لیے ایک ایکٹر کی بهی ضرورت تهی سب اسٹوڈنٹس گروپ کی شکل میں اسکر ین پلے کے لیے ڈسکس کر رہے تهے اچانک سر آئے ،ان کے ساتھ ایک لڑکا بهی تها ۔انہوں نے ہمیں مخاطب کر کے کہا یہ ایاز ہے آپ کی فلم کا مین کر یکٹر ،یہ آپ کی کہانی کو اٹها دے گا ۔میں بے اختیار مسکرا دی کیو نکہ میں جانتی تهی جسے سر نے اس فلم کے لیے چنا ہے وہ اس کا حق ادا کرنے کی اہلیت رکهتا ہے..چلیں اب آپ کو بتاتے ہیں ایاز کون ہے؟ کیا کرتا ہے؟ اور مجهے کیوں وہ اپنی اسٹوری کے لیے موزوں لگا؟…
ایاز لیاری کے ایک غریب کچهی گهرانے سے تعلق رکهتا ہے.مزدور محمد یو سف کا بیٹا ایاز ایک ایسا فنکار ہے جس کی مو جودگی فلم کی کا میابی کی ضمانت سمجها جانے لگا ہے.انڈین اداکاروں کی نقالی وہ اس مہارت سے کر تا ہے کہ دیکهنے والے ہنس ہنس لو ٹ پوٹ ہو جائیں وہ بلا مبالغہ پیدائشی فنکار ہے مگر بہت سی تکلیف دہ جسمانی کمزریوں کے ساتھ….
دوسروں کو ہنسانے والے اس نوجوان فنکار کی زندگی بہت ہی دردناک حقیقت سے بهری ہو ئی ہے مگر اس کے چہرے پر ہمشہ ایک مسکراہٹ سجی نظر آتی ہے جو شاید اندر کا درد چهپانے کاایک بہترین اور کا رآمد “ٹوٹکہ”ہے..
ایاز بچپن سے ہی جسمانی طور پر نارمل نہیں تها اپنے ہم عمر اور چهوٹے بچوں سے بهی وہ جسمانی طور پر کمزور تها اسکا جسم بڑهنے کے بجائے مسلسل کم ہو رہا تها پندرہ سال کی عمر میں اس کا وزن محض چهبیس کلو رہ گیا تها اتنے کم وزن اور کمزوری کے با عث وہ ایک جگہ سے اٹھ کر دوسری جگہ تک نہیں جا سکتا تها اس سے چهو ٹا بهائی اسے گود میں اٹها کر اسکی جگہ تبدیل کرواتا .آہستہ آہستہ اس کےجسم کی ہڈیاں آپس میں مڑنے لگیں معاملات دن بہ دن بگڑنے لگے والدین، بہن بهائیوں کی پر یشانی دیدنی تهی گهر میں غربت کا راج سب سے بڑی اولاد جوانی میں قدم رکهتے رکهتے اپاہج ہو جائے یہ کسی بهی ماں باپ کے لیے ایک کڑا امتحان ہو تی ہے..
کہتے ہیں مصیبت جسمانی ہو یا مالی کسی بهی طرح کی ہو کبهی اکیلے نہیں آتی ایسا ہی ایاز کے ساتھ بهی ہوا ۔جب اسے اور اس کے گهر والوں کو پتہ لگا کہ ہڈیوں کے ساتھ ساتھ اس کے گردوں کا سائز بهی آہستہ آہستہ کم ہو نے لگا ہے اور دونوں گردوں نے کام کر نا چهوڑ دیا ہے۔ اس خبر نے ایاز کی رہی سہی ہمت بهی توڑ دی ایسے میں اس کی ماں نے اپنے بیٹے کا حوصلہ بڑهایا اور دو ہزار گیارہ میں ماں نے اپنا گردہ ایاز کو دے دیا اس طرح محض پندرہ سال کی عمر میں کڈنی ٹرانسپلانٹ کروانا پڑا..
اب لگا شاید زندگی اپنے معمول پر آجائے گی اور ایسا ہو نے بهی لگا ۔آہستہ آہستہ ایاز کا وزن بڑهنے لگا اور چهبیس سے پینسٹھ کلو تک پہنچ گیا گهر والے اور ایاز بهی اس بات پر خوش تهے کہ چلو اب وہ بهی نارمل زندگی گزارنے کے قابل ہو رہا ہے مگر تب اچانک ایاز کے وزن میں تیزی سے کمی واقع ہو نے لگی ڈاکٹر کو دکهانے کے بعد نیا انکشاف شوگر جیسی مہلک مرض کی صورت میں سامنے آیا اب اسے روزانہ انسولین لینی پڑتی ہے تاکہ معمولات زندگی گزارنے میں آسانی ہو..
اسے جاننے والے اس باہمت انسان کو سراہے بغیر نہیں رہ سکتے جس نے غربت، بیماری، آپریشن کے باوجود اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکها.کڈنی ٹرانسپلانٹ کے بعد فر سٹ ائیر میں داخلہ لیا اور ساتھ ہی ایک کو چنگ سینٹر کو جوائن کیا یہاں سے اس کی زندگی کا ایک نیا موڑ آیا اور اسے پہلی بار اداکاری کر نے کا موقع ملا ۔اپنی زندگی کی پہلی ہی پر فارمنس شہید بے نطیر بهٹو یو نیورسٹی لیاری میں دی جہاں لوگوں نے اس بے مثال فنکار کی اداکاری کو سراہا اور اس طرح اپنی پہلی ہی پر فارمنس کے بعد ہی وہ مختلف تهیڑ گروپ میں اپنے لیے جگہ بنانے میں کا میاب ہو گیا.تهیٹر اور اسٹیج پر اپنی اداکاری سے داد سمیٹتے سمیٹتے اسے فلم میں کام کر نے کا موقع ملا ۔یہ اس کی زندگی کا دوسرا اہم موڑ ثابت ہوا اس نے اپنی پہلی ہی بلوچی شارٹ فلم کانگی (کوا) میں اداکاری کے لازوال جوہردکهانے پر آئی ڈی ایس پی فلم فیسٹیول کی جانب سے بہترین اداکار کا ایوارڈ اپنے نام کر لیا۔ یہ فلم بہترین فلم مکینک اور ایاز کی حقیقت سے قریب تر اداکاری کی بنا پر ایک دو نہیں پورے پانچ ایوارڈ اپنے نام کروانے پر کامیاب ہوگئی.اب ایاز کے چر چے فلم نگری میں بهی عام ہوگئے ۔کانگی کے بعد اسے سیٹی، گلی، منی لیاری (میرا لیاری) اور پوسٹر نامی فلموں میں کام کر نے کا موقع ملا..
ایاز دن رات اپنے آپ کو اس معاشرے کا کارآمد فرد بنانے کی دوڑ میں دیگر نارمل انسانوں کی طرح مصروف ہے۔ اداکاری کے ساتھ اپنے گهر والوں کی بہتر ین کفالت کے لیےوہ کے الیکٹرک میں ملازمت کر رہا ہے اس کے علاوہ فلم میکنگ کی کلاسز لے کر اپنے اندر چهپی صلا حیتوں کو مزید نکهار رہا ہے کیو نکہ وہ حقیقتا معذور نہیں لیاری کا ، کراچی اور ہمارے ملک کا قیمتی اثاثہ ہے.

Facebook Comments

زرمینہ زر
feminist, journalist, writer, student

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply