زندہ آزاد مُردے۔۔اعظم معراج

“دھرتی کو پاک کرتے ناپاک دھرتی واسیوں کے نوحے”نامی کتاب کے لئے لکھی گئی ایک تحریر
میں نے پوچھا دروازے پر کون ہے۔؟
وہ بولا ایک زندہ مردہ ہوں ۔
میں نے پوچھا کیا تم قدیم مصری جنگی قیدی کی روح ہو،۔
جو خود کو زندہ مردہ کہتے ہو،
وہ بولا نہیں میں دور حاضر کا جیتا جاگتا انسان لیکن ایک آزاد غلام ہوں۔
میں نے کہا آزاد کا تو پتہ نہیں لیکن جنگی قیدیوں کو قدیم مصری غلام بنا کر پہلے مردہ کہتے تھے۔پھر جب ان غلاموں سے بیگار لینے لگے ، پھر انھیں زندہ مردہ کہنے لگے۔
اس نے کہا تمھیں آزاد غلام کا نہیں پتہ؟
میں نے کہا نہیں میں اپنی لاعلمی پر شرمندہ ہوں،
اس نے کہا۔۔” آزاد غلام وہ ہوتا ہے،”
جو مسلسل استحصال کے اَن دیکھے جبر سے مرضی سے کانوں میں مرتا ہے،عمارتوں سے گرتا ہے۔غلاضت سے بھرے گٹروں میں کود جاتا ہے۔اور کمال یہ ہے،کہ اس طبقے کے ہزاروں لاکھوں یہ قربانی دینے کے لئے قطار اندر قطار انتظار میں ہوتے ہیں۔ انکا نہ کوئی رنگ ہے،نہ مذہب،نہ نسل یہ صرف استحصال زدگان ہیں۔
وہ پھر بغیرِ کسی دکھ درد کے سپاٹ ،بے حس لہجے میں بولا، اگر قدیم مصری تہذیب زندہ ہوتی تو وہ کبھی انھیں،جفاکش،محنت کش،اور دھرتی کو پاک کرتے عظیم لوگوں جیسے منافقانہ القابات سے نہ نوازتے، بلکہ سیدھے کھرے الفاظ میں” زندہ آزاد مردے” کہتے جسکا مطلب آزاد غلام ہوتا.۔۔
میں یہ سن کر مزید شرمندہ ہؤا کہ میں بھی بجائے” آزاد زندہ مردوں” کو حقیقی آزادی دلوانے کے لئے کوشش کرنے کے انھیں انہی القابات سے پکارتا ہوں۔
ڈاکٹر فیدو رکر ووکن کی کتاب تاریخ عالم اور مولانا روم کی مکالماتی غزل سے ماخوذ 

Advertisements
julia rana solicitors

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک تحریک شناخت کے بانی رضا کار اور 18کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply