آہ! بابا محمد خان بھی چلے گئے۔۔محمد علی عباس

وہ محمد خان تھے، کرنل تھے اور نہ ہی ڈھرنال، ان کی اپنی ایک الگ پہچان تھی۔ بوڑھوں اور نوجوانوں میں وہ یکساں مقبول تھے۔ دَھنی کے جن محمد خانوں کا ذکر ہم بڑوں سے سنتے یا کتابوں میں پڑھتے آۓ ہیں وہ اس خاص وضع قطع کے محمد خان تھے۔ اور میرے خیال میں یہ آخری ”محمد خان“ تھے۔ انہوں نے شہر اقتدار میں بیلوں کا جلسہ کرا کے چکوال کی ثقافت سے اپنے پیار کا اظہار کیا تھا۔ پھر لکھاری بنے تو ہزاروں لوگ ان کو پسند کرنے لگے۔

رات سے بوندا باندی جاری تھی۔ صبح سویرے ہی میرے دوست بابر ممتاز ایڈووکیٹ مجھے لینے میرے پاس آ گئے ۔ ہم نے G-6/2 میں واقع اپنے مشترکہ عزیز چوہدری محمد خان ”قلندر“ کی فاتحہ خوانی کے لئیے جانا تھا۔ سارے راستے انہی کی باتیں کرتے ان کے گھر پہنچے تو ان کا سب سے چھوٹا بیٹا شہریار محمد خان ہی گھر پہ موجود تھا۔پتہ چلا کہ گھر کے باقی سب لوگ قبرستان گئے ہوۓ ہیں۔ ہمیں اندر لے جایا گیا تو میرے  لیے  خود پہ قابو پانا مشکل ہونےلگا۔ میں اسی صوفے پر بیٹھا تھا جہاں آخری بار بابا محمد خان کے ساتھ ملاقات کے دوران بیٹھا تھا۔ بیرسٹر شہریار محمد خان ہم سے اپنے مرحوم والد کا پُرسہ لے رہے تھے۔ بابر ممتاز اور  بابا محمد خان کی دوستی فیس بک تک ہی محدود تھی۔ ملاقات کبھی نہ ہو سکی لیکن ایک اچھا تعلق بہر حال قائم تھا۔

کوئی  نصف دہائی  قبل کی بات ہے کہ فیس بُک پہ ایک بزرگ کی پروفائل  سامنے آئی  جس میں دَھنی کے وہ مخصوص محمد خان جو ہم نے دیکھ، پڑھ اور سُن رکھے تھے وہ سب آنکھوں کے سامنے سے گزر گئے۔ یہاں سے ایک فارمل دوستی کا آغاز ہوا کہ اسی دوران ایک پوسٹ پر میری والدہ کے ماموں چوہدری محمد خان ”صاحب“ بکھاری کلاں کا ذکر چھڑ گیا۔جب میں نے انہیں چوہدری محمد خان بکھاری کلاں سے اپنا رشتہ بتایا تو فوراً مجھ سے میرا نمبر مانگا اور شام کو کال آ گئی۔

وہی دَھنی لہجہ، گرج دار آواز اور ایک خاص اپنائیت جو اب بزرگوں میں ہی رہ گئی ہے۔ جب یہ سب ایک ساتھ ملے تو میں تو جیسے اس شخص کا گرویدہ ہو گیا۔ بات سے بات چلی، میں نے جب اپنا  مکمل تعارف کرایا تو بابا محمد خان نے مجھ سے دو تین رشتہ داریاں نکال لیں۔ یہاں سے ہمارے درمیان ایک اچھے تعلق کا آغاز ہوا۔ تب بابا محمد خان فیس بک پر شاعری کرتے تھے۔ سیاست و سماجیات پہ کم ہی لکھتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ انہوں نے قلم کو شاعری سے پتہ نہیں کیوں نثر کی جانب موڑ لیا اور ایسی کمال کی نثرلکھی کہ ہم ایسے طِفلان مکتب ان کی بزم میں طالب علم کی حیثیت سے موجود رہنے لگے۔ باقاعدہ  کالم لکھنا شروع کیے، تو چکوال پریس کلب والوں نے انہیں چکوال بلا لیا۔ اپنے بیٹے سلطان محمد خان کے ساتھ پریس کلب آۓ تو “ہم بھی وہاں موجود تھے”۔ پریس کلب والوں نے ان سے شاعری بھی سنی، دَھنی زبان پر بھی ان کی راۓ لی اور ان کو کھل کر بولنے کا موقع دیا۔ جب ان کو بھرپور عزت سے نوازا گیا تو وہ آبدیدہ ہو گئے۔ یہاں ان سے میری پہلی باقاعدہ ملاقات ہوئی جو بہر حال یادگار تھی۔

وہ ٹیکس کے شعبے سے منسلک تھے اور ان دنوں راقم ایم کام کر رہا تھا ،میں نے بھی ارادہ بنا رکھا تھا کہ ممکن ہوا تو اسی شعبے میں قسمت آزمائی  کروں گا۔ پھر میں اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ اس بارے معلومات لیتا رہا، کالج میں ٹیکس پڑھاتا بھی رہا اور بابا محمد خان کی اپنی انکم ٹیکس پریکٹس بارے لکھی کہانیاں پڑھتا رہا تو دلچسپی اور بھی بڑھ گئی ، تو سمجھ آ گئی  کہ اگر اس شعبے میں جانا ہے تو چکوال چھوڑ کر اسلام آباد جانا پڑے گا۔ سال 2019 میں ایم کام بھی مکمل ہو چکا تھا اور میں نے اپنی زندگی کے دو سال ونگز کالج میں پڑھا کر اپنی سوچ سے زیادہ عزت اور محبت سمیٹ لی تھی۔ فیصلہ کیا کہ ”بھریا میلہ“ چھوڑ دیا جاۓ تو بہتر رہے گا کہ جس کلاس کو پہلے دن سے آخر تک پڑھایا تھا اب اس جیسی کلاس کی تلاش میں وقت برباد تو کیا جا سکتا ہے مگر ایسے بچے اب نہیں ملنے تھے۔ بچوں سے دُعا لی اور کالج سے رخصت لے لی۔ مجھے کہتے ہوۓ فخر محسوس ہوتا ہے کہ جس بہترین انداز میں کالج سے میں رخصت ہوا نجی اداروں سے ایسی رخصت بھی کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ اس سارے عرصے کے دوران میں بابا محمد خان کی تحریروں کا مستقل قاری رہا اور میری تحریروں پر وہ اپنی راۓ بھی دیتے رہے۔ انکم ٹیکس کی کلاس میں ان کی پریکٹس بارے لکھی کہانیاں سنا کر اپنے بچوں میں پڑھنے کا شوق پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہا جس میں کافی حد تک کامیابی ملی۔

پنڈی شفٹنگ اور پھر ساتھ ہی چکوال واپسی کے بعد ایک سال کی کہانی پھر سہی لیکن اس دوران بھی بابا محمد خان کی لاجواب تحریریں مستقل پڑھتا رہتا۔ پھر 2020 میں پاکستان کی بڑی ٹیکس فرم اے ایف فرگوسن میں چلا گیا۔ ایک روز انہیں معلوم ہوا کہ میں اے ایف فرگوسن میں ہوں تو سختی سے کہا کہ میرے گھر کے بالکل پاس رہتے ہو اور مجھے ملنے نہیں آۓ۔ مرتا کیا نہ کرتا، ٹائم  سیٹ کیا اور ایک شام جب کہ ساۓ لمبے ہو رہے تھے میں ان کے گھر پہنچ گیا۔ بڑی گرم جوشی سے ملے اور بیٹھک میں بٹھا لیا جہاں کبھی ان کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ سارے دفتر کی سیٹنگ بھی بتا دی کہ کہاں وہ خود بیٹھتے تھے، کہاں ٹیلی فون رکھا ہوتا تھا اور حُقّہ کہاں رکھتے تھے۔ پریکٹس کیسے کی وہ ساری کہانی بھی سنا دی۔ وہ پاکستان کے معروف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ  امیر عالم خان ،جن کا تعلق چکوال کے گاؤں منوال سے تھا کے شاگرد تھے۔ امیر عالم خان نے نہ صرف ان کو انکم ٹیکس کا مکمل کام سکھایا تھا بلکہ خاص دعا بھی دی تھی اور دفتر کہاں بنانا ہے، کلائنٹ  کیسے لینے ہیں یہاں تک کہ ٹیکس آفس کے عملہ سے کیسےبات کرنی ہے، بتایا تھا۔ میں ان کی یہ باتیں سنتا اور حیران ہوتا رہا کہ جہاں ٹیکس کا کام جاننے والے اپنے جونیرز کو سکھانا تو دور انہیں پاس بٹھانا تک گوارا نہیں کرتے، تو کیسے خوش قسمت تھے وہ لوگ جن کو امیر عالم خان جیسا استاد میسر آیا۔ اب تو جتنی بڑی فرم ہے اس میں سیکھنے کے مواقع اتنے ہی کم ہیں لیکن کچھ بے لوث لوگ بہر حال آج بھی موجود ہیں اور میں ان چند خوش قسمت لوگوں میں سے ہوں جسے ایسے بے لوث مہربان میسر آۓ جنہوں نے بچوں کی طرح انگلی پکڑی اور مجھے چلنا سکھایا۔

بابا محمد خان مجھے ٹیکس پریکٹس بارے نصیحتیں کر چکے تو خاندانی معاملات زیر بحث آۓ۔ کچھ گھر کی باتیں جو زیادہ تو مجھے معلوم ہی تھیں سنائیں  ، بڑے پیار سے زندگی گزارنے اور خاندانی معاملات چلانے بارے مجھے نصیحتیں کرتے رہے۔ ان دنوں کیمو تھیراپی کے کٹھن مرحلے سےگزر رہے تھے۔ اس دن بھی کیمو تھیراپی ہوئی  تھی تو اب ان کے لائیے  مزید بیٹھنا مشکل ہو رہا تھا میرے اٹھنے سے پہلے اپنی پہلی کتاب ”بادبان“ اٹھا لاۓ۔ کہنے لگے یہ بیس کاپیاں لے جاؤ اور ایک لسٹ بنوائی  کہ چکوال میں کن کن لوگوں کو دینی ہیں۔ میں نے کتابیں اٹھائیں  اور ان سے اجازت لے کر واپس ہاسٹل آ گیا۔ پھر ایسا ہوتا کہ کبھی کبھار شام ڈھلے میں ان کے پاس چلا جاتا اور جب ساۓ ختم ہوجاتے تب واپسی کی راہ لیتا۔ کچھ ہی ملاقاتیں اس دوران ان سے ہو سکیں جن میں ان کی زوجہ میرے لئیے کھی میدے کی گوگیاں اور کبھی اسپیشل کافی بنا لاتیں۔ بیگم سے کہتے کہ ”دیکھو بھاٸی تمہیں پلا پلایا پوتا مل گیا ہے، مجھے اس پر بڑی امیدیں ہیں کہ میرا نام روشن کرے گا“۔ میں حیران ہوتا کہ نہ جانے کیا خوبی مجھ میں دیکھ لی ہے جو مجھ سے امیدیں لگا بیٹھے ہیں۔

پیار بھری ان ملاقاتوں کا سلسلہ تب ٹوٹا جب میں اے ایف فرگوسن سے انٹرنشپ مکمل ہونے کے بعد اپنے مہربان محمد رضا صاحب کی انگلی پکڑ کر انفوک کنسلٹنگ میں آ گیا۔ یہاں سے شام کو چھُٹی کر کے بابا محمد خان کے پاس جانا اتنا مشکل تو نہ تھا کہ درمیان میں چھ ساتھ سیکٹر ہی پڑتے تھے لیکن میری سُستی آڑے آتی اور میں رک جاتا۔ ایک سال گزر گیا اور اس دوران ان کی مزید دو کتابیں بھی آ گئیں ۔ انہوں نے مجھے بلایا اور میں نے جانے کا وعد کر لیا مگر نہ جا سکا۔ پھر گزشتہ روز اچانک مجھے بابر ممتاز بھائی  کی کال آئی  اور انہوں بتایا کہ بابا محمد خان وفات پا گئے ہیں۔ میں چونک گیا۔ جب ان کے بیٹے سلطان محمد خان کو فون کیا تو تب بابا محمد خان کی تدفین H-11 قبرستان میں کی جا رہی تھی۔ میرے لیے یہ بات برداشت کرنا بھی مشکل تھی کیونکہ ایک وقت میں انہوں نے چکوال دفن ہونے کی خواہش ظاہر کی تھی پھر شاید آخری ایام میں خواہش بدل لی ہوگی یا بیٹوں کو اس بات کا اندازہ نہ ہوگا کہ انہیں پرکھوں سے کتنا پیار تھا جو ان کے ساتھ دفن ہونا چاہتے تھے۔ پھر شرعی مسٸلہ بھی یہی تھا کہ جلد از جلد اور قریب ترین دفن کیا جاۓ تو شاید اس وجہ سے یہ فیصلہ ہوا ہوگا۔

میرے لئیے ان لمحات میں خود پہ قابو پانا مشکل ہو رہا تھا۔ لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ وہ جب فوت ہوۓ تو جمعہ کا دن تھا نماز جمعہ کے فوراً بعد ان کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی ۔ بیٹے جلدی میں بہت سے لوگوں کو اطلاع تک نہ کر سکے تھے۔ میں بھی انہیں میں سے ایک تھا جسے دیر سے اطلاع موصول ہوئی  تھی۔ پھر جب فیس بک کھولی تو پاکستان کے بڑے دانش ور ان کی وفات پر افسردہ تھے۔ وہ چکوال میں نہیں رہتے تھے لیکن فیس بک کے ذریعے چکوال سے جڑے ہوۓ تھے۔ چکوال کی تاریخ اور ثقافت کو جس انداز میں انہوں نے بیان کیا وہ ان کا ہی خاصہ تھا۔ سرپاک اور ملحقہ مُحلّوں کی کہانیاں ایسے بیان کرتے کہ پڑھنے والا ان کی تحریر کے سحر میں کھو جاتا۔ دادیوں نانیوں کے قصے بھی ایسے بیان کر جاتے کہ پڑھنے والے ان کو داد دئیے بنا نہ رہ سکتے۔ فیس بک پہ ان کی ایک وجہ شہرت بے باک ہونا تھی، وہ ایاز امیر کے دوست تھے اور ”سامانِ شب“ کا اہتمام بھی بھلے وقتوں میں کرتے تھے۔ ایک شب تو پاکستان کے ایک بڑے دانش ور کے ساتھ منائی  تھی جس کا تذکرہ اپنے مخصوص انداز میں لکھتے تو مجھ جیسا قاری زیر لب مسکرا دیتا۔ وہ کچھ ایسی تصاویر بھی شیئرکر جاتے جن پہ لوگ پتہ نہیں کیوں تنقید کرتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چکوال کے کچھ دوست جو ان کو میرے حوالے سے جانتے تھے مجھے فون کر کے اظہار تعزیت کر رہے تھے اور میں دفتر میں اس شام اداس بیٹھا سوچ رہا تھا کہ اب شاید نام کے محمد خان تو ہوں گے لیکن کام کے محمد خان دنیا سے جا چکے ہیں۔ ہم سب کو اکیلا چھوڑ کر منوں مٹی تلے جا سوئے مگر اپنی تحریوں سے خود کو امر کر گئے ہیں۔ غم ان کے جانے کا ہے مگر ان کے کالم، ان کے مضامین، ان کے لکھے افسانے، کہانیاں، نظمیں اور طنز و مزاح سے بھرپور باتیں ان کو ان کے چاہنے والوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رکھیں گی جیسے وہ میرے اور بابر ممتاز بھائی  کے دل میں ذندہ ہیں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply