بچوں پر جنسی تشدد کا ذمہ دار کون؟

بچوں پر جنسی تشدد کا ذمہ دار کون؟
اسما مغل
چھ برس پہلے ایسی ہی سردیو ں کی ایک شام تھی یونیورسٹی کے لان میں بیٹھے یخ بستہ ہواؤں کے زور سے گرنے والے پتّے ہمارے آس پاس بکھرے تھے، وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ایک پتاّ اٹھاتا اور توڑ مروڑ کر دور پھینک دیتا پھر دوسرا پتّا پھر تیسرا۔۔ہلکے نارنجی سورج کی میٹھی دھوپ اس کے چہرے پر کرب کے تاثرات مزید واضح کر رہی تھی۔ڈھکے چُھپے انداز میں اپنا درد بیان کرتے اس کے الفاظ کوئی پگھلا سیسہ تھے ۔میرے کانو ں کے ساتھ سوچ بھی دہک اُٹھی تھی ۔غصے،نفرت اور پھر بے بسی کے گہرے احساس سے۔۔یہ نوجوان بچپن میں چھ سال اپنے کسی رشتہ دار کے گھر کرائے پر رہنے والی بیوہ خاتون کے ہاتھو ں زیادتی کا نشانہ بنتا رہا تھا۔
گھر والوں نے آنٹی کے اکیلے پن کے خیال سے پڑھائی کی غرض سے آئے پھوپھو کے گیارہ سالہ بیٹے کا بیڈ آنٹی کے کمرے میں لگادیا اور پھر آنٹی کا اکیلا پن واقعی دور ہو گیا لیکن بچہ اپنی معصومیت کھو بیٹھا۔خوف اور دہشت کے سائے میں پروان چڑھنے والا یہ بچہ اپنے ہم عمر بچوں سے کترانے لگا۔آنے والے وقت سے بے خبر اب وہ اس سنگین گناہ میں حصّے دار تھا۔طوفان گزر گیا لیکن تباہی کے اثرات ابھی بھی باقی ہیں ذہن اور سوچ پر۔اس کا لفظ لفظ اذیت کے احساس سے دوچارکررہا تھا۔وہ مجھ سے نظر نہ ملا سکا۔بات ختم ہو چکی تھی میں کچھ بول نہ سکی اور خاموشی سے اس کے پاس سے اُٹھ آئی لیکن وہ کشمکش،دل و دماغ میں چِھڑی اک جنگ۔۔آج بھی جب کسی بچی بچے سے اس قبیح فعل کی خبر نظر سے گزرتی ہے تو دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے کون لوگ ہیں یہ آخر۔۔ان کی تربیت،نا آسودگیاں،حسرتیں کیسے زہرِ قاتل بن کر دوسروں کی رگوں میں اترجاتی ہیں۔
ناسور کی مانند پھیلا یہ کوڑھ جس پر بات کرنے سے لکھنے سے بھی لوگ کتراتے ہیں بس ٹی وی پر نشر ہو تی خبر دیکھی دو پل دُکھ کا اظہار کیا اور پھر چینل تبدیل۔کاش ایک ہی بٹن دبانے سے سوچ کی غلاظت بھی پاکی میں تبدیل کی جاسکتی۔فطرت سے انحراف انسان کو ہمیشہ ناقابلِ تلافی نقصان سے دوچار کرتا ہے ۔اس قبیح فعل کے نتیجے میں ہونے والی معصوم جانوں کی اموات کااندازہ کون کرے گا؟2016ء میں ایک انٹر نیشنل میگزین کی رپورٹ کے مطابق 53% فیصد بچے زیادتی کا شکار تھے۔دو دہائی پہلے تک کبھی کبھار ہی یہ لرزا دینے والی خبر سماعتوں پر بجلی گراتی تھی لیکن اب تو آئے روز ٹی وی پر بیٹھی نیوز کاسٹر ایک معمول کے انداز میں یہ خبر پڑھتی ہے۔بچی کے ماں باپ کے منہ میں باقاعدہ مائک ٹھونستے ہوئے انتہائی بے دردی سے ایسے ایسے سوالات پوچھے جاتے ہیں کہ کلیجہ چھلنی ہو جائے۔پھر ایک اینکر پرسن اپنے پروگرام میں کسی این جی او کی کرتا دھرتا بٹھا کر اسلام اور مولوی کی مٹی پلید کرتا ہے اور حکومت کی نااہلی کو کوسنے کے بعد اللہ اللہ خیر صلاّ۔
انسانی سوچ میں منفی تبدیلی اچانک ہی رونما نہیں ہوتی بلکہ رہن سہن،ماحول،گفتگو،تیزی سے تبدیل ہوتی ثقافت،انٹرنیٹ،سوشل نیٹ ورکس،حقیقت اور فطرت سے پہلو تہی اور والدین خود کہیں نا کہیں بچے کے ساتھ ہونے والی اس زیادتی کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
ایک ریسرچ کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک بچہ اٹھارہ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے جنسی تشدد کا شکار ہو جاتا ہے۔والدین اپنے بچوں کو آگاہی سے محروم رکھتے ہیں یہ خاموشی بچوں کے مسائل میں اضافہ کا باعث بن رہی ہے۔ آخر والدین کے کردار کو زیرِ بحث کیوں نہیں لایا جاتا؟کیا والدین اس بات کے ذمہ دار نہیں کہ اس بات کا خیال رکھیں کہ ان کے بچے گلیوں بازاروں میں اکیلے گھومنے پھرنے نہ نکلیں۔میں جب بھی گھر سے باہر جاتی ہوں بہت سے بچے بھری دوپہر اور شام میں گلیوں میں بیٹھے اور کچھ کھیلتے دکھائی دیتے ہیں اور پھر یہی بچے ان ظالموں کا آسان ہدف بنتے ہیں۔اگر بچے کو جسمانی یا ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جائے اسے فحاشی پر مبنی مواد دکھایا جائے اس کے جسم کو ہاتھ لگایا جائے یہ سب استحصال کے زمرے میں آتا ہے۔جنسی تشدد صرف متوسط طبقے کا مسئلہ نہیں بلکہ بچہ چاہے غریب کا ہو یا امیر کا ،غفلت کی ذمہ داری والدین اور گھر کے ماحول دونوں پر عائد ہوتی ہے۔ہمارے معاشرے میں جنسی مسائل پر گفتگو کو شجرِ ممنوعہ بنا دیا گیا ہے حتیٰ کہ قرآن اور حدیث سے بھی مدد نہیں لی جاتی۔علماء سے بھی ایسی بات کرنے سے یہ کہہ کر گریز کیا جاتا ہے کہ “شرم آتی ہے”۔الٹا سیدھا لٹریچر پڑھ کر خود اپنی اخلاقیات کا جنازہ نکالنا منظور ہے لیکن کسی صاحبِ علم سے سوال کرنا نہیں۔اللہ انسان کے حال پر رحم کرے جسے آپ اپنے حال پر رحم نہیں آتا۔
موضوع تلخ ہے،بات طویل اور الفاظ کم۔ان شا اللہ (بشرطِ زندگی)اس مضمون کا دوسرا حصہ “بچوں پر جنسی تشدد سے بچاؤ کے لیئے احتیاطی تدابیر”کے حوالے سے ہوگا۔

Facebook Comments

اسما مغل
خیالوں کے سمندر سے چُن کر نکالے گئے یہ کچھ الفاظ ہی میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply