کینسر (96) ۔ پرفیکشن/وہارا امباکر

کینسر کے خلاف پیشرفت کرنے کا تیسرا اور سب سے پیچیدہ راستہ کینسر کو بحیثیت مجموعی دیکھنے کا ہے۔
کینسر کے خلیات کے رویے کی ایک تنگ کرنے والی مثال ان کا لافانی ہو جانا ہے۔ اس کو کسی ایک جین یا ایک پاتھ وے کی مدد سے نہیں سمجھا جا سکتا۔ کینسر کے تیز بڑھنے یا رُک جانے کے سگنل کو نظرانداز کر دینے یا ٹیومر انجیوجینسس  جیسے رویوں کو غلط طور پر فعال یا غیرفعال پاتھ وے کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے لیکن سائنسدان اس بات کی وضاحت کرنے سے قاصر ہیں کہ کینسر کیسے لافانی زندگی حاصل کر لیتا ہے۔ نارمل خلیے جب بڑھتے ہیں تو تقسیم در تقسیم ہوتے ہوئے اپنی حد تک جا پہنچتے ہیں۔ آخر وہ کیا وجہ ہے جس سے یہ تقسیم ان تھک طریقے سے نسل در نسل مسلسل جاری رہتی ہے؟
اس کا ایک متنازعہ جواب یہ ہے کہ کینسر کا لافانی ہونا بھی نارمل فزیولوجی سے ہی ادھار لیا گیا عمل ہے۔ انسانی جینن اور سٹیم سیل کے خلیات کی چھوٹی سی تعداد یہ صلاحیت رکھتی ہے۔ سٹیم سیل دوبارہ نیا ہو جانے کا ذخیرہ ہیں۔ مثال کے طور پر، پورا انسانی خون ایک سٹیم سیل سے بن جانے کی صلاحیت رکھتا ہے (یہ ہیماٹوپوئیٹک سٹیم سیل کہلاتا ہے)۔ اور یہ عام طور پر ہڈی کے گودے کی گہرائی میں رہتا ہے۔ عام حالات میں ایسے تھوڑے سے سٹیم سیل ایکٹو رہتاے ہے جبکہ باقی سوئے پڑے رہتے ہیں۔ لیکن اگر خون کی کمی اچانک ہو جائے۔ جیسا کہ کسی چوٹ میں یا کیموتھراپی میں تو یہ جاگ کر بہت تیزی سے تقسیم ہونے لگتے ہیں۔ ان سے ہزارہا خلیات بننے لگتے ہیں۔ چند ہفتوں میں یہ پورے جسم میں موجود انسانی خون کو بنا لینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اور اپنا کام کر کے، کسی نامعلوم مکینزم کے ذریعے، یہ واپس سو جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ محققین کا خیال ہے کہ ایسا ہی کچھ عمل ہے جو کینسر میں مسلسل ہوتا ہے۔ یا کم از کم لیوکیمیا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ کینسر سٹیم سیل کینسر کا ذخیرہ ہیں اور اس کے خلیات کو تازہ رکھتے ہیں۔ اور اسے مسلسل پھلتا پھولتا رکھتے ہیں۔ جب کیموتھراپی کینسر کے زیادہ تر خلیات کو ختم کر دیتی ہے تو باقی بچے سٹیم سیل کی چھوٹی سی آبادی، جو موت کے خلاف بھی مدافعت رکھتی ہے، واپس پھل پھول کر کینسر کو تازہ کر دیتی ہے۔ اور یہ وجہ ہے کہ کینسر بظاہر ٹھیک ہو جانے کے بعد بھی واپس نمودار ہو جاتا ہے۔ کینسر سٹیم سیل انہیں جین اور پاتھ وے کو فعال کرتے ہیں جو نارمل سٹیم سیل استعمال کرتے ہیں۔ صرف یہ کہ نارمل سٹیم سیل کے برعکس یہ واپس فزیولوجیکل نیند کا شکار نہیں ہوتے۔
کینسر ہمیشہ دوبارہ تازہ ہو جانے والے عضو کی نقل کر رہا ہوتا ہے۔ یہ جاندار کی تعمیرِ نو کرنے کی مہم ہے۔
کینسر کی لافانی ہو جانے کی یہ جستجو ہماری اپنی ہی ایسی جستجو کی عکاس ہے۔ اور یہ جستجو ہمارے جینین میں دفن ہے۔ کسی روز، اگر کینسر کامیاب ہو گیا تو یہ ایسی مخلوق بنا دے گا جو اپنے میزبان سے زیادہ پرفیکٹ ہو گی۔ اس میں لافانی ہونے اور ہمیشہ پھلنے پھولنے کی صلاحیت ہو گی۔ ویسے ہی صلاحیت جو ہمیشہ سے انسانوں کا خواب رہی ہے۔ نصف صدی قبل وفات پا جانے والی خاتون کے مسلسل تازہ ہونے والے لیوکیمیا کے خلیات ایسے ہی پرفیکشن پا چکے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کو منطقی انتہا پر لے جایا جائے تو کینسر کے خلیے کی مسلسل کاپی کرنے، کرپٹ ہونے اور نارمل فزیولوجی کو بدل دینے کی صلاحیت ایک مشکل سوال پیدا کرتی ہے۔ “نارمل” کیا ہے؟ اور کیا ہم خود اسی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں؟
اور دوسری طرف، جس طرح ہم دوسری بیماریوں پر قابو پاتے جا رہے ہیں کچھ اقوام میں کینسر کا شکار ہونے والوں کی شرح ہر چار میں سے ایک شخص سے بڑھ کر ہر تین میں سے ایک اور پھر ہر دو میں سے ایک تک جا پہنچی ہے۔ تو پھر کیا بالآخر کینسر کا شکار ہو جانا ہی ایک نیا نارمل ہو جائے گا؟ ایک یقینی مرض؟ تو پھر کیا ایک شخص کے لئے سوال: “کیا کینسر ہو گا” سے بدل کر “کب کینسر ہو گا” میں بدل جائے گا؟
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply