• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • یوکرائن روس تنازعہ اور مغربی مداخلت۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

یوکرائن روس تنازعہ اور مغربی مداخلت۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

یوکرائن سابقہ سوویت یونین میں شامل اہم علاقہ تھا، دیگر علاقوں کی طرح یہ بھی سوویت یونین ٹوٹنے سےآزاد ہوگیا۔ پچھلے کچھ عرصے سے یوکرائن داخلی طور پر روس نواز اور روس مخالف گروہوں میں تقسیم رہا ہے۔ روسی اثرات یوکرائنی معاشرے پر کافی زیادہ ہیں اور یوکرائن بڑی تیزی سے امریکہ اور یورپ کے قریب ہو رہا ہے۔ اگر ایسا فقط تجارت اور معیشت کے لیے ہوتا تو اتنا مسئلہ نہیں تھا۔ اصل تنازع تب شروع ہوا، جب یوکرائن کے نیٹو کا ممبر بننے کی خبریں آنے لگیں۔ امریکہ اور یورپ یہ چاہتے ہیں کہ یوکرائن نیٹو کا حصہ بن جائے، روس کسی بھی طرح سے اس کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ روسی موقف یہ ہے کہ وہ ریاستیں جو سوویت یونین کا حصہ رہیں، وہ نیٹو کا حصہ بن کر امریکہ اور یورپ کی اتحادی نہیں بن سکتیں۔ روس ان ریاستوں میں امریکی اور یورپی مداخلت کو اپنے گرد گھیرا تنگ کرنے کے مترادف سمجھتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو سابق سوویت ریاستیں ایک طرح کا روس کے اردگرد بفر زون ہیں، جو دفاعی لحاظ سے روس کے لیے بہت اہم ہیں۔ امریکہ اور یورپ روس کی یہی دفاعی لائن توڑنا چاہتے ہیں۔ روس فقط اس بات کی گارنٹی چاہتا ہے کہ یوکرائن نیٹو کا حصہ نہیں بنے گا۔

امریکہ اور یورپ اسے اپنی آزادی کا مسئلہ قرار دیتے ہیں کہ ہم جسے چاہیں نیٹو کا حصہ بنا لیں اور جسے چاہیں اتحادی قرار دیں۔ ویسے بھی پوری دنیا میں سفارتی تعلقات کا مکمل ٹھیکہ امریکہ اور یورپ نے لیا ہوا ہے اور باقی پوری دنیا کو اپنی رائے کا پابند رکھتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کی دہری پالیسی کا اندازہ اسی سے لگا لیں کہ کیا وہ جس حق کو اپنے لیے مانگ رہے ہیں اور بظاہر اس میں کوئی مسئلہ بھی نہیں، کیا وہ اتنے اخلاقی معیارات پر خود رہتے ہوئے دوسروں کو یہ حق دیتے ہیں کہ وہ بھی اپنی مرضی کے اتحاد تشکیل دیں اور اپنی مرضی سے اقوام سے تعلقات بنائیں؟ ہرگز ایسا نہیں ہے۔ امریکہ اور یورپ کو تو چھوڑیں سعودی عرب نے ملائیشیا میں مسلمانوں کے اتحاد کے لیے ہونے والی سمٹ کو ناکام بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا، جس کا مقصد فقط مسلمانوں کے مسائل پر بات کرنا تھا۔ یہ پریشر اتنا بڑھا تھا کہ ہمارے وزیراعظم عمران خان صاحب گھر سے تو ملائیشیا کے لیے نکلے تھے، مگر پہنچ جدہ گئے تھے۔

یہی مسئلہ قازقستان میں بھی ہے، اگرچہ وہاں اور بھی کئی طرح کے مسائل ہیں، مگر ایک اہم مسئلہ یہی ہے۔ امریکہ اور یورپ وہاں کی روس کی اتحادی حکومت کو گرانا چاہتے ہیں اور مغرب کی طرفدار حکومت کے لیے کوشاں ہیں۔ روس کے اردگرد پورے علاقے میں محاذ کئی طرح سے گرم ہے، روس نے بیلا روس کے بارڈر پر بھی ایس 400 دفاعی نظام قائم کیا ہے۔ روس اور بیلا روس نے فوجی مشقیں بھی کی ہیں۔ امریکہ بہادر نے بیلا روس کو فوجی مشقیں کرنے پر پابندیوں کی دھمکی دی ہے۔ امریکہ اور یورپ روس کو الجھائے رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں روس کو اس کے اندرونی مسائل میں ہی مصروف رکھیں، تاکہ وہ دنیا میں مغرب اور امریکہ کی من مانیوں کو چیلنج نہ کرسکے۔

امریکہ نے اپنے سفیر کے ذریعے کچھ تجاویز روس کو دی ہیں اور روسی اقدامات پر اپنے موقف کا اظہار کیا ہے، اسی طرح نیٹو نے بھی روس کو براہ راست الگ سے مخاطب کیا۔ پچھلے چند ہفتے روس اور نیٹو فورسز کے درمیان مذاکرات ہوئے ہیں، مگر سب کے سب ناکام ہوگئے ہیں۔ امریکہ اور یورپ یوکرائن کو قربانی کا بکرا بنا کر اپنے مفادات کے لیے قربان کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے انہیں کئی مقاصد حاصل ہو جائیں گے۔ ایک تو روس غیر ضروری طور پر الجھ جائے گا اور دوسرا ان ممالک کا اسلحہ خوب بکے گا۔ امریکہ کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ہم یوکرائن کی مدد کریں گے اور بہت سی مدد ہم کرچکے ہیں۔ وہ مدد کوئی میڈیکل اور خوراک کی مدد ہرگز نہیں ہے، یہ مدد اسلحہ اور ہتھیاروں کی مدد ہے، جس کے زعم پر یوکرائن اکڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ویسے یہ امریکی دوسروں کو قربانی کا بکرا بنانے میں بڑے ماہر ہیں، ابھی انڈیا اور چین کی لڑائی دیکھ لیں۔ کئی دہائیوں سے چین اور انڈیا امن کے ساتھ رہ رہے تھے، مگر امریکی پالیسی میں شفٹ آیا اور امریکی ہاتھ انڈیا نے اپنے سر پر محسوس کیا اور کچھ مدد وہاں بھی پہنچ گئی، جس کے نتیجے میں انڈیا کی پرامن سرحد پر جنگی ماحول بن گیا، یہاں تک کہ لڑائی ہوا ہی چاہتی تھی اور اس گرما گرمی میں انڈیا کے کئی فوجی جان سے گئے اور جو جگ ہنسائی ہوئی، وہ زمانے نے دیکھی۔ اس سے ایک سبق یہ بھی ملتا ہے کہ دوسروں کے اشارے پر چلنے سے قومیں ذلیل ہی ہوتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

روس یوکرائن کے ساتھ اپنے معاملات خود حل کرنا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں امریکہ اور یورپ کے کسی کردار کی نفی کرتا ہے۔ یہاں تو روس براہ راست خود سامنے ہے، آذربائیجان اور آرمینیا کی جنگ میں دو سابقہ سوویت ریاستیں آمنے سامنے تھیں، روس نے جنگ کی حالت میں بھی امریکہ اور یورپ کی مداخلت کو قبول نہیں کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ آذربائیجان مکمل طور پر امریکی اور یورپی کیمپ کی طرف جا چکا ہے۔ روسی صدر نے جنگ بندی کرائی اور باہمی طور پر اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے روسی فوجی ہی آج بھی آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان کھڑے امن کو یقینی بنا رہے ہیں۔ امید ہے کہ یوکرائن کو بھی جلد عقل آجائے تو یہ جنگی ماحول جلد ختم ہو جائے گا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply