بول کہ لب آزاد ہیں تیرے۔۔فرزانہ افضل

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے۔۔فرزانہ افضل/ہم دوسروں کو ان کی کارکردگی کا کریڈٹ کیوں نہیں دیتے۔ یا کسی دوسرے کے آئیڈیا اور محنت کے کریڈٹ کا تاج کسی اور کے سر پر کیوں پہنا دیتے ہیں۔ چند روز قبل صحافیوں کی ایک تربیتی ورکشاپ میں شرکت کا اتفاق ہوا۔ جس میں شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد نے شرکت کی۔ اس ٹریننگ سیشن میں ایک معروف صحافی اور کالم نگار کے لیکچر سے ہم سب نے بہت استفادہ حاصل کیا۔ اور شرکاء کے ساتھ بہت مفید گفتگو رہی۔ تنظیموں کے حوالے سے بہت عرصے سے ایک بات میرے مشاہدے میں ہے کہ کسی بھی تنظیم کا سربراہ اپنے اراکین کے آئیڈیاز اور ان کی کارکردگی کا سہرا اپنے سر پر سجا لیتا ہے، اپنی ٹیم کو ساتھ لے کر چلنے کی بجائے یا تو ان سے دو قدم آگے چلتا ہے یا پھر ان کو ہمیشہ اپنے پیچھے کھڑا رکھتا ہے۔ جب بھی کوئی تنظیم کام کرتی ہے گو کہ وہ سب کی مشترکہ محنت ہوتی ہے مگر اس محنت میں سب کا حصّہ برابر کا نہیں ہوتا۔ اس تربیتی ورکشاپ کے انعقاد کا اچھوتا اور منفرد خیال بھی انہی  لیکچرار کا تھا۔ اور اس پہلی ورکشاپ کی کامیابی اور اس میں شرکاء کی کثیر تعداد بھی انہی کے دم سے تھی۔ مگر لوگ اس قدر بے انصاف کیوں ہیں کہ دل کھول کر تو دور کی بات ، جھوٹے منہ ہی سہی اس ورکشاپ کے اختتام پر سربراہ ان کی خدمات کو سراہتے اور شکریہ ادا کرتے ۔ مگر افسوس کہ اقربا پروری تو ہر جگہ موجود ہے۔ اس شام رویوں کے اعتبار سے میرا ذاتی تجربہ بھی کچھ اتنا خوشگوار نہیں رہا۔ مجھے بات کرنے کا موقع بہت کم دیا گیا جب بھی میں نے کچھ کہنا چاہا مجھے نظر انداز کیا گیا۔ اور جب سیشن کے آخری حصے میں ، میں نے زبردستی کچھ کہنے کا موقع حاصل کیا تو میری بات کے دوران شوروغل شروع کردیا گیا ، صرف چند لوگوں نے میری بات توجہ سے سنی ۔ اگر خواتین صحافیوں کو بھی مرد صحافیوں کے درمیان اپنا مقام بنانے کے لئے زبان بندی اور امتیازی سلوک کا سامنا ہے تو سوچتی ہوں ایک عام عورت دفتر میں یا نوکری پر ، سماجی پروگراموں میں ، اور دیگر شعبوں میں اپنا مقام کیسے بناتی ہوگی ۔ گروپ فوٹو کے دوران خاصی بدنظمی ہوئی۔ کانفرنس ہال میں فرنیچر کے باعث اتنی جگہ نہ تھی کہ پورا گروپ ایک ساتھ کھڑے ہو کر تصویر بنوا سکتا۔ لہٰذا انتظامیہ کے سربراہ نے فوری طور پر اعلان کیا کہ ایک گروپ فوٹو خواتین کا علیحدہ سے ہو ، دوسرا گروپ فوٹو حضرات کا۔ یہ سن کر میرے ذہن کی ہارڈ ڈرائیو ڈسک میں ہندوستانی فلم امر اکبر اینتھونی کا مقبول گانا بجنے لگا “پردہ ہے پردہ پردے کے پیچھے پردہ نشیں ہے”۔ میڈیا اور صحافت جو دنیا کا نقشہ بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں ، ان سے اس امتیازی تفریق کا مظاہرہ ہماری موجودگی میں ممکن نہ تھا۔ ہم نے فوراً احتجاج کیا کہ یہ افتراق مت کریں ، ایسا تھا تو شروع سے ہی درمیان میں پردہ لٹکا دیا ہوتا۔ میری اس بات کے جواب میں مجھے شدید غصیلی نظروں کا سامنا کرنا پڑا۔ یوں تو ہم کہتے ہیں خواتین پروگرام میں شرکت نہیں کرتیں لیکن اگر چند گنی چنی خواتین آ ہی جاتی ہیں تو ان کے لیے علیحدہ سیٹیں اور علیحدہ فوٹوگرافی  کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ فوٹو کے لئے اچھی خاصی افراتفری مچ گئی۔ میں نے اس بارے میں تجویز دینے کی کوشش کی مگر اس کو بُری طرح سے رد کر دیا گیا۔ میرے ایک چھوٹے سے مذاق پر سربراہ صاحب نے مجھے سب کے سامنے انتہائی توہین آمیز الفاظ استعمال کرتے ہوئے بری طرح جھڑک دیا  ۔
یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری

میں وہاں پر کسی سے رشتہ دار  کی حیثیت سے نہیں، ایک مہمان کالم نگار  کی حیثیت سے گئی  تھی۔ جو لوگ اپنے گھر کی خواتین کی عزت نہیں کر سکتے وہ دوسری خواتین کی کیا تکریم کریں گے۔ سیانے کہتے ہیں جب کسی مرد کی شخصیت کے بارے میں جاننا ہو تو سب سے پہلے یہ معلوم کریں کہ اس کی فیملی سے اسکا رویہ کیسا ہے ۔ کسی بھی اچھے کام کی ابتدا ء آپ کے اپنے گھر سے ہوتی ہے۔ اپنی فیملی کی خواتین کیلئے شدید تنگ نظری اور دوسری خواتین کے لیے فراخدلی کا مظاہرہ ، کیا ہی کہنے۔ دوسری خواتین کو آگے بڑھنے میں ضرور مدد کیجئے مگر اس سے پہلے اپنی گھر کی خواتین کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں مت ڈالیے۔ اکیسویں صدی میں جیتے ہوئے بھی ہمار ے ہاں اکثر  مردوں کی سوچ آج بھی زمانہ قدیم کی ہے۔ اس ترقی یافتہ دور میں عورتیں مَردوں سے کم نہیں بلکہ بیشتر شعبہ جات میں مردوں کو اپنی تعلیم ، قابلیت اور ذہانت سے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ خیر بات یہاں مقابلے بازی کی ہرگز نہیں ، صرف خواتین کی صلاحیتوں کو تسلیم کرنے کی ہے۔ عورت خاص طور پر جو اپنے خاندان کی ہو، اس کی قدر و منزلت نہیں کی جاتی، نہ ہی کبھی اس کی صلاحیتوں اور قابلیت کا اعتراف اور عزت کی جاتی ہے جب کہ دوسری خواتین کے سامنے ترقی پسند رویہ دکھایا جاتا ہے اور ان کی بے جا خوشامد کی جاتی ہے ۔ مانچسٹر کی کمیونٹی میں کئی  سال سے یہ بات دیکھ رہی ہوں کہ عوامی تقریبات میں بیشتر مرد حضرات اپنی بیویوں اور بہنوں بیٹیوں کو ہمراہ نہیں لاتے جبکہ دوسری خواتین سے ٹھٹھے بازی میں خوب لطف اندوز ہوتے نظر آتے ہیں۔ اور تو اور جن خواتین کے ساتھ “مخصوص” تعلقات ہوں ، انہیں ہمراہ لا کر ان کی قربت میں بیٹھنا فخر محسوس کرتے ہیں۔ منافقانہ رویہ ترک کر دیجیے۔ اپنے اندر اعلیٰ ظرفی پیدا کیجئے، حق داروں کو ان کا حق دیجئے۔ کسی کی محنت کا اعتراف نہ کرنا اس کا حق مارنے کے مترادف ہے، اور کسی کے اچھے اور منفرد کام کا کریڈٹ اس سے چھین کر کسی اور کو دے دینا ڈاکہ زنی اور مالِ  غنیمت کی تقسیم کے برابر ہے۔ خدارا دنیا کی نظر میں اونچا بننے کی جدوجہد سے پہلے اپنے اندر کے انسان کو سنواریے۔ کسی بھی قسم کی تربیتی ورکشاپ دینے سے پہلے اپنی ذات کی تربیت کیجئے۔ اپنے رویوں کو درست کیجئے۔ حسن ِ سلوک اور متوازن رویہ اپنایے ۔ خواتین کو پروگراموں میں رونق بڑھانے کے لئے صرف شو پیس کے طور پر مت مدعو کیجئے۔ انہیں بے حیثیت کر کے اور نہ بولنے کا موقع دے کر عضو معطل مت بنائیے ۔ خواتین کو بھی اپنے حقوق اور عزت کے حصول کے لیے بہادری اور جرات مندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
مجھ کو اس قحط کے موسم سے بچا ربِ سخن
جب کوئی اہلِ ہُنر عرضِ ہُنر کو ترسے

کچھ لوگ انگریزی کا جملہ “بی ہیو یورسیلف”( Behave yourself ) دوسروں کو دبکانے کے لئے بڑی آسانی سے منہ کھول کر استعمال کر لیتے ہیں مگر ایسا کرتے ہوئے کبھی سوچتے ہیں کہ ہم خود بی ہیو( behave ) کر رہے ہیں یا نہیں۔ ذرا سوچیے اپنے رویے سے دوسروں کو تکلیف دے کر کیا آپ سکون کی نیند سو پاتے ہیں۔؟

Advertisements
julia rana solicitors

بول کہ  لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply