شہزاد اکبر کااستعفیٰ۔۔آصف محمود

معلوم یہ ہوتا ہے کہ قوم سے خطاب میں جناب وزیر اعظم نے جو زلزلہ بپا کرنے کی کوشش کی اس زلزلے کا پہلا منطقی نتیجہ بیرسٹر شہزاد اکبر کے استعفے کی شکل میں سامنے آ گیا ہے۔ خبر پڑھی تو میر صاحب یاد آ گئے: عشق کیا، ناکام رہا، آخر کو کام تمام کیا۔ میر صاحب کی طرح مشیر صاحب نے بھی احتساب کیا اور آخر میں کام تمام کر دیا۔

تحریک انصاف کی کابینہ ہمارے گائوں دھریمہ کے دربار کے لنگر جیسی ہے۔ بچپن کے وہ دن آج بھی یاد ہیں جب سرِ شام نقارے پر چوٹ پڑتی تھی کہ ” بھنڈارا” تیار ہے اور نقاروں کے اس پار دال بٹ رہی ہے۔ کابینہ مبارکہ میں غیر منتخب لوگوں اور دیگر جماعتوں سے تشریف لانے والے بھی اقتدار کے ایسے ہی لنگر خانے کے مہمانان گرامی ہیں۔ کابینہ میں پارٹی کے اپنے چہرے ہیں ہی کتنے؟ شاید 29 فیصد۔ اکثریت تو بھنڈارے کی شیدائی ہے۔ بیرسٹر شہزاد اکبر کا معاملہ البتہ مختلف لگتا تھا۔ ایک نیک نامی ان کے ہمراہ تھی۔

ان سے تعارف ان زمانوں میں ہوا جب ڈرون حملوں کے خلاف انہوں نے بھر پور آواز اٹھائی۔ انہی دنوں ڈرون حملوں پر انٹر نیشنل لاء کے تناظر میں میری اردو اور انگریزی زبانوں میں دو کتابیں انٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز نے شائع کی تھیں۔ اسلام آباد میں مظاہرے بھی ہونے لگے تھے۔ ان ہی مظاہروں میں بیرسٹر شہزاد اکبر سے ملاقات ہوئی۔ ڈرون حملوں کے خلاف کریم خان کی مدعیت میں ایک مقدمہ دائر کیا گیاتھا جس کے نتیجے میں اسلام آباد میں مقیم سی آئی اے کے سٹیشن چیف کو پاکستان چھوڑنا پڑا تھا۔ کریم خان کے وکیل شہزاد اکبر تھے۔

خیال تھا کہ احتساب کا مشیر اگر عمران خان نے شہزاد اکبر کو بنایا ہے تو یہ ایک اچھا انتخاب ثابت ہوں گے۔ لیکن افسوس کہ تحریک انصاف سے لپٹی ساڑھے بیالیس درجن خوش فہمیوں کی طرح اس خوش فہمی کا بھی کام تمام ہو چکا۔ آخری تجزیے میں اب یہ فیصلہ کرنا مشکل ثابت ہو رہا ہے کہ احتساب کے عمل کو چار چاند اور آٹھ دس ستارے لگانے میں سیف الرحمن کا نام زیادہ جگمگا رہا ہے یا بیرسٹر شہزاد اکبر کا۔ ہو سکتا ہے مورخ جب لکھنے بیٹھے تو مجبور ہو جائے کہ دونوں کی خدمات کو سنہرے حروف سے لکھ کراپنے ہی گلے میں ڈال کر لٹک جائے۔

وزیر اعظم کا حالیہ خطاب ہر گز ان کے، معاف کیجیے گا، ان کے منصب کے شایان شان نہیں تھا۔ یہ لہجہ اور یہ اسلوب گفتگو تو کسی طلباء تنظیم کے تنک مزاج انتہائی مقامی قسم کے رہنما کو تو شاید جچ جائے لیکن وزیر اعظم کے منصب کے تقاضے اس سے بڑے ہیں۔ وزیر اعظم اگر اقتدار کے تین سال بعد بھی اپنی خوبیوں کی بجائے مخالفین کی خامیوں پر معاملہ کرنا چاہے تو یہ انتہائی تکلیف دہ صورت حال ہو جاتی ہے۔ عمران خان کے ناقدین عرصے سے کہہ رہے کہ اس پارٹی کے مزاج میں ہیجان اور احتجاج ہے۔ یہ احتجاج تو کر سکتی ہے اور ہر وقت کر سکتی ہے لیکن تعمیر کا بھاری پتھر اٹھانا اس کے بس کی بات نہیں۔ عمران خان نے اپنے حالیہ خطاب میں زبان قال سے اس اعتراض پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔

ہم پچاس کی دہائی میں نہیں رہ رہے، یہ ایک جدید دور ہے۔ اب لوگ باخبر ہی نہیں سیاسی طور پر سیانے بھی ہو چکے ہیں۔ یہ جاننے کے لیے اب کسی کو کسی سینئر تجزیہ کار کے پونے پانچ کلومیٹر لمبے اور سوا سات من وزنی تجزیے کی ضرورت نہیں کہ سڑکوں پر آ کر مزید خطرے ناک، ہو جانے کی آزاد نظم کس محبوب کو سنائی جا رہی تھی۔ جس ملک میں وزیر اعظم کا اسلوب گفتگو یہ ہو اس ملک میں پھر روز رات کو اہل دانش آنکھوں سے راول جھیل بہاتے ہیں کہ ہائے ہائے ہائے معلوم نہیں ہم انتہا پسند کیوں ہو گئے۔ مذہبی انتہا پسندی کا آزار اپنی جگہ لیکن سچ یہ ہے کہ سیاسی اور سماجی انتہا پسندی کی ہلاکت خیزی کا دائرہ کار زیادہ وسیع ہے اور ہم اس وقت اسی دلدل میں اتر چکے ہیں۔

لوگوں کو تحمل مزاج، ہمدرد اور نستعلیق اہل اقتدار کی ضرورت ہے لیکن اہل اقتدار جب بولتے ہیں ایک آتش فشاں ان کے ہمراہ ہوتا ہے۔ حکومت کنپٹی پر پستول رکھ کر معاشرے کو متنبہ کرنے کا نام نہیں کہ میں حکومت سے نکلا تو زیادہ خطرناک ہو جائوں گا۔ یہ دلاوری، حکمت، بصیرت اور درد مندی کا نام ہے۔ رجز تب اچھے لگتے ہیں جب میدان سجا ہو۔ جب ملک کی زمام کار آپ کو سونپ دی جائے تو پھر رجز پڑھنے کا نہیں، کچھ کر دکھانے اور لوگوں کے دکھوں کا مرہم بننے کا وقت ہو تا ہے۔ یہ راز کی وہ بات ہے جو تحریک انصاف نے نہ سمجھنے کی ضد پکڑی ہوئی ہے۔

تحریک انصاف کا نامہ اعمال، تضادات کا دیوان بن چکا ہے۔ اب بوجھ بڑھتا جا رہا ہے اور اینٹیں کھسکنا شروع ہو گئی ہیں۔ ایک روز خطاب ہوتا ہے اور خطرے ناک، کا مطلع سنایا جاتا ہے اور اگلے ہی دن مشیر احتساب کا استعفی آ جاتا ہے۔ مقطع سے پہلے ہی غزل اپنے پورے ترنم کے ساتھ واضح ہے۔ اسی زمین پر ایک خطاب اور کر کے دیکھ لیا جائے تو مشاعرے کے ترنم اور سو ز میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ ہر ہفتے اگر ایسا ہی ایک خطاب فرما دیا جائے تو استعفوں کی ریل پیل ہو سکتی ہے اور خوشحالی کے ایک عالم میں ایک عدد وفاقی وزارت برائے استعفی جات بھی قائم کی جا سکتی ہے۔ جو نہ صرف قومی ترقی اور خوش حالی کا ایک ثبوت ہو گی بلکہ انسانی تاریخ میں یہ کام پہلی بار ہو رہا ہوگا۔ لوگ وزارت کے پاس سے گزریں گے تو رشک اور مسرت سے پکار اٹھیں گے: پہلی بار صاحب، پہلی بار۔ واہ صاحب واہ۔

احتساب کا دعوی تھا لیکن تین سالوں میں کتنا احتساب ہو سکا؟ لوٹی دولت واپس لانی تھی، کتنی لائی جا سکی؟ پہلے ہی روز اربوں ڈالر آئی ایم ایف کے منہ پر مارنے تھے لیکن آئی ایم ایف نے منہ ہی شرم سے چھپا لیا اس لیے یہ کام بھی نہ کیا جا سکا۔ اداروں کی تعمیر کرنا تھی، لیکن نہ ہو سکی۔ اداروں کو اعتماد دینا تھا اور سیاسی اثر و رسوخ سے پاک کرنا تھا لیکن یہاں اب عالم یہ ہے کہ حساب رکھنا بھی مشکل ہو گیا ہے کہ کس کس محکمے کے کس کس افسر کاکتنے مہینوں بعد کہاں سے کہاں اور کن کن وجوہات کی بنیاد پر تبادلہ ہوتا رہا۔

Advertisements
julia rana solicitors

کارکردگی تو اب ہے نہیں، اب قربانی کے بکروں کی تلاش ہے۔ پارلیمانی نظام ہی اچھا نہیں ہوتا، عمران کیا کریں۔ وزراء اچھے نہیں، عمران کیا کریں۔ ٹیم ہی اچھی نہیں ملی، اکیلا عمران کیا کرے۔ شہزاد اکبر ہی ٹھیک کارکردگی نہیں دکھا سکے تو عمران خان اکیلے کیا کریں۔ نیب ہی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکی تو عمران خان کیا کریں۔ اسی طرح مشاعرے میں غزل کہتے جائیے آخر میں اکیلا عمران خان ہی سرخرو ملے گا باقی ساری قوم ہی نا اہل، کرپٹ اور وغیرہ وغیرہ قرار پائے گی۔ عمران خان بھی کیا کریں انہیں تو اپوزیشن بھی اچھی نہیں ملی۔ پارلیمان میں شور بہت کرتی ہے۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply