• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • افغانستان طالبان اور عالمی سیاست (حصّہ : ہشتم):ڈاکٹر محمد علی جنید

افغانستان طالبان اور عالمی سیاست (حصّہ : ہشتم):ڈاکٹر محمد علی جنید

افغانستان :غازی امان اللہ خان سے نور محمد ترہ کئی تک

افغان علاقہ جات اور  انکی ریاست و سیاست زمانہ قدیم سے قبایلی شھری تمدن اور دیہاتی،خانہ بدوشی تمدن پر مشتمل رہے ہیں،افغان معاشرے میں جتنی بھی اصلاحات ،ترقی،اور جدیدیت کی لھریں تاریخ نے مطالعہ کی ہیں انکا تعلق حکومت کے مراکز یعنی شھری علاقوں اور دارالحکومت سے رہا ہے۔امان اللہ کی جدیدیت و اصلاحات نے انکی بے احتیاطی ،عدم فراست ،تدریج پر عدم توجہ کے سبب ناکامیوں کا منھہ دیکھا  لہذا اسکی مثال کو بھت حد تک  مابعد کے حکمرانوں نے بطور مثال معلوم پڑتا ہے کہ ذہن نشین کر لیا تھا۔ہم دیکھتے ہیں کہ ہر دور کی بیرونی دنیا ،بین الاقوامی سیاست،حربی معاملات اور خارجہ تعلقات نے جو تبدیلیاں بیرونی طور پر اس ریاست میں بروئے کار کی کوشش کیں وہ عارضی نوعیت کی حامل ہوا کرتی تھی،چناچہ امان اللہ سے ظاہر شاہ اسکے مابعد کے سویت نواز حکمرانوں سے کرزئی اور اشرف غنی تک تمام جدیدیت و اصلاحات عارضی مدت کی حامل رہی ہیں،افغانوں کو جہاں موقع ملتا ہے وہ جبلتی مزاجیت کی طرف پلٹ آتے ہیں۔چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب حبیب اللہ بچہ سقہ نے بجبر و بدمعاشی ریاست پر غلبہ پایا تو امان اللہ کا چچا زاد بھائی شھزادہ نادر خان اس دوران فرانس میں افغانستان کا سفیر تھا،اسے جیسے ہی  اسے اپنی رشتہ دار بارک زئی خان کی دوست محمدی شاخ کے سقوط و خاتمہ کا حال معلوم ہوا وہ فرانس سے افغانستان پلٹا اور اتنی افرادی اور حربی قوت حاصل کرلی کہ کچھ ماہ میں حبیب اللہ بچہ سقہ کا خاتمہ کرکے خود تخت پر قابض ہوگیا یہ زمانہ بھی ویسے ۱۹۲۹ کا ہی زمانہ تھا۔

شاید ہم پچھلے صفحات میں ذکر نہیں کرسکے تھے کہ سردار پائیندہ کے بیٹوں میں سے دو بیٹوں کی اولادوں نے تخت شاہی پایا تھا،چناچہ امان اللہ پائیندہ خان کے بیٹے دوست محمد کی نسل سے تعلق رکھتے تھے جبکہ نادر شاہ خان پائیندہ خان کے دوسرے بیٹے سلطان محمد خان کی اولاد سے تعلق رکھتے تھے،اور سلطان محمد کے بیٹے یحیی خان کے سبب اس شاخ کو یحییٰ خیل کہا جاتا تھا۔نادر شاہ نے حبیب اللہ کو شکست دے کر ہلاک کروادیا،پھر اس نے ریاست میں امن و امان کے قیام اور آئینی اصلاحات پر توجہ مرکوز کی چناچہ پہلی دفعہ تحریری آئین نام کی کوئی عبارت افغان ریاست میں متعارف کروائی گئی یہ ۱۹۳۱ کا تحریری آئین ایک شاہی نوعیت کا آئین تھا ۔قانون سازی کے تمام اختیارات بادشاہ،سینٹ اور ایوان زیریں کے سپرد کئے گئے یعنی اس لحاظ سے آئین بہت حد تک امریکی و برطانوی آئین سے متاثر تھا ساتھ فرانسیسی اثرات بھی اس میں موجود رہے تھے،مگر گھوم گھام کر تمام حتمی راستے بادشاہ کی ذات  پر ہی آکر کھلا کرتے تھے۔

یہ ایک ملوکی نوعیت کا ایسا آئین تھا جسکی رو سے بادشاہت کو طریقہ حکمرانی قرار  دیا گیا  تھا اور یہ تسلیم کیا گیا تھا  کہ بادشاہ مسلم حنفی  فقہ سے تعلق رکھتا ہو،یعنی ایک طرح سے یہ آئین موجودہ ایرانی آئین کی رہنمائی کر رہا تھا جسکی رو سے ایران ایک شیعہ اثنا عشری ریاست سمجھی جاتی  ہے،جبکہ انکے برخلاف  پاکستان صرف  ایک مسلم ریاست کہلاتی  ہے جس میں  آئینی رو سے کسی فرقہ واریت کا کوئی ذکر نہیں ملتا ہے،اگر چہ یہاں کا بھی غالب فقہی دبستان فکر احناف کا ہی مانا جاتا ہے،عین اسی طرح انگلستان کے شاہی تاج کے حقدار کے لئے یہ آینی غیر تحریری رسم مروج  ہوچکی ہے کہ وہاں کوئی کیتھولک فرد تاج برطانیہ کا حقدار تسلیم نہیں کیا جاسکتا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ شروع دور سے ہی افغانی فقہ حنفی پر ہی عامل رہے ہیں،انکے مزاج پر حدیث کی جگہ حنفی  فقہی آرا و تشریح کا ہی اول روز سے غلبہ قایم  رہا ہے،شاید اس بحث کی مابعد الطبیعات میں شامل  ایک بات یہ بھی  رہی ہوکہ امام ابو حنیفہؒ کا نسلی اجدی تعلق افغان سرزمیں سے بتایا جاتا ہے،جبھی افغان ملا پر تصوف ،ماتریدی علم کلام اور حنفی فقہی آرا سمر قند کے وسیلہ سے اتنی راسخ رہی ہے ،کہ وہاں   ماضی میں  اگر کوئی  اقلیتی شافعی الطبع فرد اگر نماز میں  رفع الیدین کرتا دکھتا تھا  تو اسکی پٹائی لگادی جاتی تھی،طلبان نے بھی اپنی واپسی کے بعد اپنے مخالفین پر راسخ العقیدہ حنفی فقہی  آرا اور تصوف مخالفت سے عناد و دوری کا الزام عاید کیا تھا۔ چناچہ  غازی امان اللہ کے مابعد کے دور میں دستور شاہی خاندان پر عہدوں ،سیاسی جماعت کی رکنیت پر پابندی عاید کرتا  نظر ّتا تھا،یہ دو ایوانی مقننہ کا حامل آئین تھا۔جسکو شوریٰ کہا جاتا تھا،ایوان بالا کا نام مشیرانو جرگہ(؟) تھا جسکے ۸۷ اراکین ہوا کرتے تھے۔جس میں سے ایک تھائی بادشاہ مقرر کیا کرتا تھا ،اس لحاظ سے یہ ہندوستانی وایسرائے اور اسکی حکومت سے متاثر لگتا ہے۔ایک تھائی تعداد انتیس ولایتوں کے لئے مختص تھی ہر ولایت سے ایک رکن لیا جاتا تھا۔جبکہ بقیہ ایک تھائی صوبائی اسمبلیوں سے منتخب ہوا کرتی  تھی۔چناچہ بادشاہ کی منتخب کردہ تعداد پانچ سال کے لئے،ولایتوں کے نمایندوں کی تعداد چار سال کے لئے اور صوبائی مجالس سے تعلق رکھنے والے تین سال کے لئے ایوان بالا یاجرگہ کے رکن ہوا کرتے تھے۔

(فضل کریم شیخ،بشیر احمد تمنا،اور اسرار بخاری:جدید دنیائے اسلام:ایورنیو بک پیلس:لاہور:صہ:۷۲۵)

واپس جرگہ ایوان زیریں  ایک منتخب کردہ ادارہ ہوا کرتا تھا،جس کے اراکین کی معیاد چار سال ہوا کرتی تھی، اور انتخابات بالغ رائے شماری سے ہوا کرتے تھے(اس بالغ سے کیا مراد ہے،اور جنسی بنیادوں کا یہاں کیا عمل دخل تھا اس بابت کچھ کہنا مشکل ہے)

دستور کی رو سے ایک قومی ادارہ لویہ جرگہ کے نام سے بھی موجود تھا،جس میں ایوان بالا ،ایوان زیریں اور ۲۹ ولایتوں کی مجالس کے صدور پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔یہ ایک مستقل افغان روایات کا آئینہ دار مشاورتی ادارہ تھا،جو ناگہانی امور میں عموما بادشاہ طلب کرسکتا تھا۔تمام ادارے ضرورتاً ماسوا لویا جرگہ کے معطل کئے جاسکتے تھے ۔ لویا جرگہ ایک مستقل عمایدین یا ارباب حل و عقد کی نمایندگی کرتا ادارہ تھا جسے بادشاہ ہنگامی حالات یا بہ وقت ضرورت مشاورت کے لئے طلب کیا کرتا تھا۔

یہ آئین جوہری رو سے بادشاہی خد و خال اور خصوصیات کا حامل  ایک تحریری دستور نامہ تھا اس میں جن اصلاحات کو خاص جگہ دی گئی تھی وہ کچھ یوں تھیں،اختیاراتی علیجدگی یعنی عدلیہ کی عاملہ سے علیجدگی، خفیہ رائے دہی ہر مبنی انتخابات،قانونِ فوجداری کی رو سے ملزم و مجرم کی تفریق کو روا رکھنا ،یعنی جرم ثابت نا ہونے تک ملزم کو مجرم تصور نہیں کیا جاتا تھا،حق اجتماع کو تسلیم کرتے ہوئے سیاسی جماعت سازی کو تسلیم کرلیا گیا تھا،پریس کی آذادی تسلیم کی گئی تھی اور عایلی قوانین کو بھی تسلیم کیا گیا تھا۔

چناچہ  نتیجتاً افغانستان میں سیاسی جماعتوں کا وجود نمودار ہوا جن میں خاص الخاص چین نواز شعلہ جاوید جماعت،پروگریسو ڈیموکریٹک جماعت جسکا ایک رہنما محمد ہاشم میوندوال مابعد افغانستان کا وزیر اعظم بنا،مگر سب سے نمایاں ۱۹۶۵ کو تشکیل پانے والی پپلز ڈیموکریٹک پارٹی تھی،جیسا کہ اس دور میں عالمی سطح پر پپلز پارٹی اور پپلز ڈیموکریٹک جماعت کے نام سے بھانت بھانت کے ایجنڈے ،منشور اور رجحانات کی حامل سیاسی جماعتیں وجود میں آرہی تھیں۔چناچہ پپلز ڈیموکریٹک جماعت کا اول قیم یا جنرل سیکرٹری نور محمد ترہ کئی مقرر ہوا اور جماعت کا اشاعتی ترجمان رسالہ یعنی اسکا آرگن ندائے خلق تھا جس نے اول اشاعتوں میں اپنی جماعت کے نصب العین اور منشور کو شایع کرکے عام کیا مابعد پپلز ڈیموکرٹک کی صفوں میں نظریاتی و انتظامی اختلاف نمودار ہوا تو یہ دو حصوں میں منقسم ہوگئی ،ترکئی والا ڈھڑا خلق کہلایا اور مخالف ڈھڑا پرچم کہلانے لگا۔

چناچہ افغان دستور ۱۹۶۴ کی رو سے جب ۱۹۶۵ کے عام انتخابات منعقد ہوئے تو کوئی جماعت خاص جادو نہیں جگا سکی، پپلز ڈیموکریٹک میں کچھ دم خم موجود تھا وہ اسکے ڈھڑے بازی سے اور کمزور ہوگیا،مگر بحرحال انھونے کچھ جگہوں پر کامیابی حاصل کی چناچہ جو لوگ پرچم کے ڈھڑے سے ببرک کارمل،انیتا راتب زادہ اور نور محمد نور اپنی نشستوں پر کامیاب رہے مگر نور محمد ترہ کئی اور حفیظ اللہ امین کوئی کامیابی حاصل نہیں کرسکے۔اس سبب سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوا اور یہ لھر کالجوں اور جامعات تک پھیل گئی چناچہ جامعہ کابل میں طلبہ کے باہم فسادات پھوٹ پڑے ،چونکہ روس و چین کا افغان سیاسی افکار پر علاقائی قربت اور مغرب مخالفت کے سبب کافی اثر  ونفوذ قایم تھا،ایرانی سرخ انقلابیوں سے وہ کافی کچھ سیکھ چکے تھے چناچہ اشتراکی افکار کی یہ چپقلش سیاسی سطح پر درونِ خانہ جڑیں پکڑنے لگی،جس کے پیچھے افغان قبایلی معاشرت اور فکری صف آرائیاں بھی نمایاں کردار ادا کرہی تھیں۔

حکومت نے دیکھا کہ پپلز ڈیموکریٹک کے خلق نامی ڈھڑے کی جڑیں جامعہ کابل کے ہنگاموں سے جا مل رہی تھیں اور وہ ان ہنگاموں کی سیاسی پشت پناہی کر رہے تھے چناچہ انھونے خلق کے جریدے پر پابندی لگادی۔اسکے مابعد پپلز ڈیمو کریٹک میں باقاعدہ جماعتی دوئیت اور علیجدگی پیدا ہوگئی اور بلاخر مارچ ۱۹۶۸ میں جاکر ببرک کارمل کے ڈھڑے کو پرچم کا اجازت نامہ حاصل ہوگیا تو واضح طور ر اب یہ دو الگ الگ سیاسی متقابل قوتیں تسلیم کی جانے لگیں جن میں اختلاف نظریاتی کم شخصیاتی و علاقائی نوعیت کا زیادہ تھا۔چناچہ دیکھا گیا کہ خلقیوں کی جڑیں دیہی علاقوں میں زیادہ تھیں تو پرچم کا اثر و نفوذ شھری علاقوں میں زیادہ غالب ہونے لگا تھا۔

چناچہ پاکستانی انتخابات ۱۹۷۰ سے سال قبل اور سقوط ڈھاکہ سے دو سال قبل افغانستان میں ۱۹۶۹ کے دوسرے انتخابات میں جس سال پاکستان میں صدر ایوب خان کی حکومت کی جگہ یحییٰ خان برسر اقتدار آئے تھے ان ا۱۹۶۹ کے انتخابات میں خلق کے رہنما حفیظ اللہ امین پرچم کے ببرک کارمل کے ساتھ کامیاب قرار پائے ،مگر ۱۹۶۹ کے انتخابات میں اشتراکی مجموعی ووٹوں کو ان  کی باہمی شخصیاتی تصادمات نے کافی نقصان پہنچایا تھا چناچہ کل اشتراکی ووٹوں میں کمی واقع ہوئی۔

اس دوران ہم بادشاہ کی طرف پلٹتے ہیں ہم نے اوپر ذکر کیا تھا کہ غازی امان اللہ کے بعد انکا چچا زاد نادر خان تخت پر قابض ہوگیا تھا اس نے بغاوت کرنے والے حبیب اللہ بچہ سقہ کا خاتمہ کرکے اقتدار پایا تھا ، اور اس کو زیادہ عرصہ اقتدار جاری رکھنا  نصیب نہیں ہوا تھا، چناچہ ۱۹۳۳ میں اسے کابل کے طالب علم نے قتل کردیا تھا یہ امیر حبیب کے بعد غالباً دوسرا شاہی قتل تھا۔اسکے بعد اسکا بیٹا  ظاہر شاہ افغانستان کا نیا بادشاہ مقرر ہوا،جس نے چالیس سال(۱۹۳۳ تا ۱۹۷۳) افغانستان کے آخری بادشاہ کے طور پر مختلیف وزیر اعظموں کے ذریعہ حکومت کی تھی ،اسی ظاہر شاہ کی بادشاہت کے دوران ۱۹۴۷ کو پاکستان و بھارت معرض وجود میں آئے اور افغانستان مسلم ممالک میں پاکستان کا سب سے بڑا مخالف ملک ثابت ہوا تھا ،انکی رو سے ڈیورنڈ لاین یا ۱۹۱۹ کے معاہدہ راولپنڈی کی رو سے جو سرحدی خلیج افغان پشتون سرحد کے نام پر امیر حبیب اللہ نے انگریزوں سے معاہدے کے ذریعہ تسلیم کی تھی وہ ناجایز تقسیم بندی  تھی اور نومولود پاکستانی ریاست کو وہ تمام شمال مغربی سرحدی علاقے جو سرحد کے ساتھ پاکستان کے موجودہ صوبہ خیبر پختون خواں اور بلوچستان میں شامل ہیں کو افغانستان کو لوٹانے چاہئے ،حد یہ کہ افغانستان نے ناصرف شروع شروع میں پاکستان کی اقوام متحدہ میں بھارت کے کی حمایت میں  مخالفت کی بلکہ اسے تسلیم کرنے سے بھی انکار کردیا،یہ مخاصمت شروع روز سے پاکستان اور افغانستان کے درمیاں علاقوں اور سرحدوں کے سبب قایم دایم چلی آرہی  ہے حد یہ کہ اشرف غنی نے اپنی رخصتی سے قبل کہا تھا کہ اسے توقع ہے افغان طالبان پاکستانی ریاست کے جانب سے لگائی جنے والی سرحدی باڑ کو لگانے کی مخافت کرینگے اور مابعد حال میں یہ  دیکھا گیا کہ افغان طالبان نے کئی جگہ سرحد پر باڑ کاٹ ڈالی اور پاکستانی پرچم بھی گرادایا،جسے پاکستانی ریاست امن و بھائی چارے کے نام پر کڑوا گھونٹ سمجھ کر خاموشی  سے پی گئی ہے۔

چناچہ جن افغان وزیر اعظموں نے پاکستان مخالفت میں خاص نام کمایا ان میں سردار داود جو ظاہر شاہ کا رشتہ دار تھا نمایاں ہے،اس نے پاکستان کے ساتھ ساتھ ظاہر شاہ کو بھی چونا لگا کر نام کمایا اور یوں افغانستان سے بادشاہت کا اختتام ہوگیا۔

سردار داود خان کے اشتراکی بلاک سے خاص تعلقات استوار تھے اور اسکی زبان اکثر پاکستان کے خلاف زہر اگلتی رہتی تھی،چناچہ موصوف کھلے عام  پاکستان پر بھارت کو ترجیح دینے لگے تھے،اور پاکستان مخالف اقدامات اٹھانے لگے  تھے یوں افغانوں کو بڑی معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ،سرحد کے دونوں جانب تجارت میں کمی  واقع ہونے سے افغان علاقے خسارے کا شکار ہونے لگے،سمندری بندرگاہ کی عدم موجودگی نے وہاں اشیا کی قلت پیدا کی،زراعت کی قلت اس پر مستزاد ،مویشیوں کی سرحد پار منتقلی میں کمی نے آمدنی مزید گھٹا دی  تھی،لہذا جب معاملات مزید ابتر کردئے گئے  تو ۱۹۶۳ کو سردار داود کو استعفی دینا پڑا مگر اس نے نچلا بیٹھنا پسند نہیں کیا تھا،اور پاکستان کے قوم پرست عناصر کی مدد کرنے لگا،اس دوران بھارت کی حمایت اور سرحد پار مدد نے پاکستان میں بد امنی پھیلانے میں نمایاں کردار ادا کیا،یہی وہی عرصہ تھا جب ایوب خان کا آخری  دور چلا رہا تھا،پاکستان ۱۹۶۵ کی جنگ ۱۹۶۶ ے تاسقند معاہدے سے مذاکرات کی میز پر ہار چکا تھا، مشرقی پاکستان میں بغاوت کے جراثیم پروان چڑھنے لگے تھے،مکتی باہنی اور عوامی لیگ نے بنگلہ دیش میں پاکستانی حکمرانوں کی کم فہمی ، عدم تدبر  و فراست کے سبب مقبولیت حاصل کرنی شروع کردی تھی۔سردار  داود  زیر زمیں کام کررہا تھا چناچہ اس نے دس سال بعد ۱۷ جوالائی ۱۹۷۳ کو افغانستان میں ایک فوجی انقلاب کی مدد سے ظاہر شاہ کی حکومت کا خاتمہ کردیا اور ۱۹۷۸ تک بطور صدر وہاں حکومت کرنے لگا اور  مجبوراً ظاہر شاہ کو اٹلی میں جلا وطنی اختیار کرنی پڑی۔۲۷ مابعد ہم دیکھتے ہیں کہ  اپریل ۱۹۷۸ کو سردار داود کو ایک بغاوت کے ذریعہ قتل کردیا گیا اور پپلز ڈیموکریٹک کے خلق ڈھڑے کا رہنما نور محمد ترہ کئی صدر بن بیٹھا۔ دیکھا گیا ہے کہ ترہ کئی ہوں یا ببرک کارمل دونوں روس کے حمایت یافتہ تھے ،سردار داود کے خلاف دونوں ایک ہوچکے تھے۔اس دور سے افغانستان میں براہ راست سرد جنگ اب ایک عملی حربی گرم جنگ میں بدلنے والی تھی،اور اس تبدیلی نے بلآخر افغان تاریخ کو ایک نئے موڑ پر لاکھڑا کیا  تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply