صدارتی نظام- مرحبا، مرحبا۔۔سعید چیمہ

صدارتی نظام- مرحبا، مرحبا۔۔سعید چیمہ/ان دِنوں مولانا وحید الدین خاں صاحب خوب یاد آتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر مولانا خوب گرہ لگاتے تھے۔ یہ شوشا  پہلی بار نہیں چھوڑا جا رہا کہ ساری خرابیوں کی جڑ موجودہ پارلیمانی نظام ہے۔ اس نظام کی بدولت ملک صحرا بن چکا ہے۔ جیسے ہی اس نظام سے چھٹکارا پا کر صدارتی نظام لایا جائے گا، ملک صحرا سے چمنستان بن جائے گا۔ ذرا  دیر کو رُکیے، آزادی سے پہلے کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔ مسلم لیگی رہنماؤں کا نعرہ تھا کہ انگریز کے چلے جانے کے بعد ہندو مسلمانوں کے لیے اَن گِنت مسائل پیدا کرے گا۔ ان مسائل سے بچنے کی واحد صورت یہی ہے کہ مسلم شناخت کے لیے ایک الگ خطہ حاصل کیا جائے۔ جیسے ہی خطہ حاصل ہو گا، مسائل پیدا ہونے سے پہلے ہی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں گے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ آزادی سے مسائل کم ہونے کے بجائے اور بڑھ گئے۔

ضرورت اس بات کی تھی ان مسائل کو ختم کرنے کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے جاتے۔ مگر نہیں، ہم نے خود کو ایک لایعنی بحث میں اُلجھا لیا۔ پہلے نعرہ تھا کہ ایک خطہ حاصل کرنے سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ اب یہ نعرہ لگایا کہ اسلامی طرزِ حکومت سے مسائل حل ہوں گے۔ اسی نعرے کی آبیاری سید ابولاعلیٰ صاحب مودودی نے کی۔ اسی طرح کا نعرہ مصر میں اخوان المسلمون نے بھی لگایا۔ نتیجہ تاریخ کے اوراق میں درج ہے کہ نعرے نے مصر اور پاکستان کے مسلم معاشرے کو مزید تقسیم کر دیا۔ پہلے ہندو اور مسلم تقسیم ہوئے تھے اور اب مسلمان تقسیم در تقسیم ہو گئے۔ تقسیم کا   یہ سلسلہ آج تک چلا آ رہا ہے۔ کچھ مارشل لاء کے حامی تو کوئی صدارتی نظام کے خواہش مند، ایک طبقہ پارلیمانی نظام کا گرویدہ تو دوسرا اسلامی نظام حکومت کا شیدائی۔

سوال پھر وہی کہ کیا نظام تبدیل کرنے سے مسائل حل ہو جائیں گے۔؟ معلوم تاریخ کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ نظام کی تبدیلی سے کبھی مسائل ختم ہوئے نہ ہوں گے۔ مسائل ختم کرنے کے لیے طرزِ فکر تبدیل کرنا ہو گا۔ جو کہ حکمران کبھی نہیں چاہتے کہ تبدیل ہو۔ ہینڈسم وزیر اعظم کو ہی لے لیجیئے، سب کچھ کہیں گے، کریں گے مگر اس کام سے کوسوں دور بھاگیں گے جس سے قوم کی تربیت کی جا سکے۔ صوفی ازم پر ریسرچ کے لیے یونیورسٹیاں بنائیں گے، لائبریریاں کھولیں گے، اتھارٹیز بنائیں گے، ایک جیسا سلیبس بنائیں گے۔ مگر تعلیم کی شرح بہتر بنانے کے لیے کچھ نہیں کریں گے۔ سائنسی علوم میں جدت لانے کے لیے فنڈز ختم ہو جائیں گے۔ کثیر  تعداد میں والدین بچوں کو صرف اس لیے سکول نہیں بھیج پاتے کہ وہ تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کر سکتے اور بچوں کو مزدوری کرنے کے لیے بھیج دیتے ہیں کہ شام کو سو دو سو روپے آ جائیں ۔

ہنگامی بنیادوں پر اس بات کی ضرورت تھی کہ ایسے بچوں کے تعلمی اخراجات اٹھائے جاتے اور ان کا ماہانہ وظیفہ مقرر کیا جاتا جو ان کے والدین کو ملتا کہ گھر کے اخراجات آسانی سے پورے ہو سکیں اور بچے بنا کسی مشکل کے تعلیم جاری رکھ سکیں۔ مگر ہینڈسم وزیر اعظم کے لیے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ اصل مسئلہ اپوزیشن کو ہر صورت پسِ زنداں بھیجنا ہے۔ اصل مسائل کی طرف توجہ مرکوز کرنے کے بجائے دو تین ماہ بعد ایک شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ سوشل میڈیا پر گھمسان کا رن پڑے۔ اب کی بار بھی شدید بحث ہے کہ صدارتی نظام لایا جائے۔ دلیل یہی ہے پارلیمانی نظام مسائل حل کرنے میں ناکام رہا ہے، اس لیے صدارتی نطام سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

پارلیمانی نظام کے تسلسل کو ابھی پندرہ سال بھی مکمل نہیں ہوئے۔ اور ان پندرہ سالوں میں بھی کوئی وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہ کر سکا۔ پھر بھی یہی دلیل کہ پارلیمانی نظام ناکام ہو گیا۔ کم ازکم نصف صدی تک پارلیمانی نظام کو تسلسل تو دیجیئے، پھر دلیل بھی لے آئیے گا کہ پارلیمانی نظام ناکام ہو گیا۔ اور اس تسلسل میں نہ نظر آنے والے ہاتھ بھی مداخلت سے باز رہیں۔ کوئی بھی نظام کدو کی بیل نہیں ہوتا کہ آج بیج بویا اور تین ماہ بعد کدو توڑنے شروع کر دئیے۔ مگر یہ بات ان بزرجمہروں کو کون سمجھائے۔ یہ تو چاہتے ہیں کہ آٹا گندھے، توا گرم ہو اور روٹی تیار ہو جائے۔ ابھی تو صدارتی نظام کی بحث شروع ہوئی ہے، معلوم نہیں کب ختم ہو گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

حیرت کی بات تو یہ ہے سینئر صحافی بھی یہ راگ الاپ رہے ہیں کہ سسٹم کو اب جانا چاہیئے۔ چلتے چلتے ازراہِ تفنن یہ سن لیجیئے کہ سبھی صحافی پیدائشی طور پر سینئر ہوتے ہیں۔ بلکہ پیدا ہوتے ہی  ان کی پیشانی پر جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے کہ سینئر صحافی۔ معلوم نہیں کون سے اداروں سے تعلیم پا کر آئے ہیں یہ لوگ۔ تاریخی حقائق سے اس قدر لا تعلقی۔ کسی مہاپرش کا قول ہے، تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق بہیں سیکھتا۔ ابھی سے ہی یہ احساس جاگزیں ہو رہا ہے کہ ہنڈسم وزیراعظم اور اس کی سیاسی فوج یہ راگ الاپے گی کہ ہم صرف پارلیمانی نظام کی وجہ سے ناکام ہوئے ہیں۔ ہمارے پاس اختیارات ہی نہیں تھے۔ اور ہم اس قدر بھولے بادشاہ ہیں کہ یقین کر لیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply