اسلامی صدارتی نظام کی خبریں ۔۔ڈاکٹر ابرار ماجد

آجکل اسلامی صدارتی نظام کی خبریں گردش کررہی ہیں، جن کو کوئی خواب، کوئی ضرورت، تو کوئی افواہوں کا درجہ دے رہا ہے۔ جس کےبارے درباری دانشوروں نے اپنے عقلی مربے بھی بیچنا شروع کر دئیے ہیں۔ تاریخ کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو ان افواہوں میں عموماً پچاس فیصد سچ ہوتا ہے اور اس بار حالات کا اندازہ لگانے اور راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جارہی ہوتی ہے۔ کہیں نہ کہیں خواہش تو موجود ہے، اور نہیں بھی تو یک طرفہ منگنی کے طور پر تو لیاجاسکتا ہے۔

اب اس کوشش کا باقی پچاس فیصد اس بات پر مبنی ہےکہ اس پراجیکٹ کو لانچ کرنے کے لئے عوامی پزیرائی کا درجہ کیا ہے یا اس پر سرمایہ کاری اور بیرونی ہمدردیاں کہاں تک حاصل ہوپاتی ہیں وگرنہ یک طرفہ تیاری مکمل بھی ہوسکتی ہے اور تاریخ میں حالات سے متقاضی نظریہ ضرورت کی مثالیں اور خدشات بھی موجود ہیں۔ بعض حلقوں کی طرف سے تو ناکامیوں پر پردہ ڈالنےکی ذمہ داری نظام پر ڈالنے کی کوشش ہے اور بعض کے قریب طاقت کو یکجا کرنے اور مزید با اثر بنانے کی روائتی کوشش کہا جارہا ہے جو تاریخ کے آئینے میں بعید از قیاس بھی نہیں۔

اور اگراسے ایک مخلص کوشش بھی سمجھا جائے تو بغیر عوامی رائے اور سیاسی جماعتوں کی حمائت کے ٹھونسنے کی کوشش اچھی مثال نہیں ہوگی، ویسے تواس کوشش کی صدا کئی سالوں سے سنی جارہی ہے جو اس کی مشکوکیت کی ایک دلیل بھی ہے کیونکہ جب ملک کا سیاسی نظام ترقی کی طرف گامزن ہو ایسے میں اس طرح کیخواہشات یا حالات کا تاثر دینا اخلاص کی نفی کرتا ہے۔ اس سے مراد میرا ماضی کی خواہشوں کی طرف اشارہ ہے۔ باقی رہی بات کہ یہ اسلامی صدارتی نظام کتنا کامیاب ہوگا یہ سب خیالی اورعلمی باتیں ہیں اور یہاں نظام کامیابی کے لئے لائے ہی کب جاتے ہیں۔

یہ سرزمیں محض نظاموں کی تجربہ گاہ ہے۔ صدارتی اور پارلیمانی دونوں نظاموں کی دنیا میں کامیابمثالیں موجود ہیں اور دونوں ہی جمہوریت کے ماڈلز ہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ انکو صحیح جمہوری بنیادوں پر چلنے دیا جائے۔ جمہوریت کا کوئی بھی نمونہ ہو اس میں سول بالادستی کے عنصر کا ہونا ضروری ہے۔ مگر چونکہ یہاں جمہوریت آسیب زدہ ہے لہذایہاں پر نظام کی روح رواں کی خوشنودی ضروری ہے نہ کہ عوامی بالادستی۔

عوامی بالادستی کے حصول کے لئے عوام کے اندرشعور، اخلاق اور ملکیت و اہمیت کے احساس کا ہونا ضروری ہے جس کا فی الوقت فقدانہ ہے جس کی وجہ سے یہ جمہوریت کامیاب نہیں ہو پارہی اور درباری دانشوروں کے مربے بِکھرہے ہیں۔ لیکن یہاں ایک بات میں واضح کرنا چاہوں گا کہ سابقہ نام نہاد صدارتیادوار میں ہمارے ملکی کا نقصان ہوا ہے اوروہ بھی پارلیمانی نظاموں کا سہارا ہی لیتے رہے ہیں۔ اور بالآخر پارلیمانی نظام کوہی غنیمت جانا گیا۔

پاکستان میں سیاسی بات کرنے اور سمجھنے کے لئےمعرفت اور منطق کی زبان کو جاننا ضروری ہے۔ لہذا جو اس فن کو جانتے ہیں وہ تو بات کو بخوبی سمجھ رہے ہونگے۔ بوقت ضرورت بعض اسلام کے پرستاروں اور دوسرے سیاسی مہروں کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں جس کا سیاسی ٹرائیل پچھلے دنوں ایک راولپنڈی میں ہو بھی چکا ہے۔ اور اسے اسلامی رنگ دینے کی وجہ دینی ٹھیکداروں اور ایمان کے کھوجیوں کی خدائی فوج کی ہمدردیاں حاصل کرنا بھی ہے جو عوام کی جذباتی نبض کو خوب سمجھتے ہیں۔

ایسی ہی ایک فوج تیار ہے جس کے آزمائشی تجربے پچھلے سالوں میں وقفوں وقفوں سے دکھائی بھی دے رہے ہیں اور جن کے موثر ہونے کااندازہ ان کی اداؤں سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کتنے جوش و جذبہ کے ساتھ نہتے نکلتےہیں اور ان سے سرکاری ادارے بھی خائف خائف نظر آتے ہیں بلکہ سرکار بھی بے بس لگنےلگتی ہے۔ کئی دفعہ تو انہوں نے پولیس کی بھی دوڑیں لگوا دیں اور پولیس کو جان کیقربانیاں بھی دینی پڑیں۔

سرمایہ داری اور ہمدردیوں کے لئے نظریاتی وجوہتو مدہم ہوچکی ہیں مگر جغرافیائی اہمیت سے انکار ممکن نہیں اور اس کے لئے ماحول بھی سازگار ہے لیکن اعتماد کا فقدان ہے کیونکہ ھمارے موجودہ با اختیار کردار ان لوگوں کے آلہ کار ہیں جو پاکستان کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے جس کی دلیل پاکستان کی موجودہ معاشی تباہی اوراس کے ساتھ جڑے ہوئے انکشافات ہیں۔ تبدیلی کے نام پر اس صدی کا سب سے بڑا پرینک کیا گیا۔

بلا بحث و مباحثہ جنہوں نے بھی سرمایہ داری کی ہوئی ہے ان کے بہت سارے مقاصد ابھی باقی ہیں اور ان کی طرف سے مزاحمت اور حمایت میں چھوٹے چھوٹے پیکیجز اب بھی آرہے ہیں اور اگر انہوں نے کوئی سرگرمی یا جھکاؤ دوسری طرف دیکھا تو وہ وقتی طور پر مزید مالی فوائد بھی دے سکتے ہیں تاکہ ان کو مقاصد کی تکمیل تک مزیددرکار وقت میسر رہے اور عوام میں بد دلی اور مایوسی کا ماحول پیدا نہ ہو پائے۔

نواز شریف کی حکومت اچھی خاصی چل رہی تھی اورپاکستان کافی حد تک درپیش مشکلات اور خطرات سے باہر آچکا تھا۔ اس وقت کے اورموجودہ کے معاشی حالات کا موازنہ کرنے سے سیاسی ماہریں کے ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ یہ سارا ڈھونگ پاکستان کو معاشی طور پر تباہ کرنے کے لئے رچایا گیا تھا۔ ممکن ہے کہ جمہوریت کی روح رواں طاقت نے یہ اندازہ لگایا ہو کہ اب پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوگیا ہے اس لئے سنبھالناکوئی مشکل نہیں رہا اور باہر سے آنے والی نوازشات کو پاکستان کے ساتھ بھلائی سمجھ یا دیکھ کر خوش فہمی میں ہی مبتلاء ہوگئے ہوں لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف کو پاکستان کی ترقی اور جمہوری سوچ رکھنے کی پاداش میں معزولی کی سزا دی گئی ہے۔

جغرافیائی لحاظ سے فائدے حاصل کرنے کے لئے ہمیں چائینہ کے ساتھ معاہدات کو بحال اور مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے جس کے لئے ہمیں اپنی خارجی پالیسیوں کو واضح اور شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔ اور مکمل اعتماد حاصل کرنے کی ضرورت ہے، جس کے لئے چائینہ پر منحصر ہے کہ وہ اپنا اعتماد قائم کرنے کےلئے کیا شرائظ رکھتا ہے اور کون کون سے کرداروں کو شامل کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔

تو اندرونی تبدیلی کا مکمل انحصار اس کی منشاء پر ہے اور اسی کے مطابق پاکستان میں سیاسی تبدیلی ہوگی۔ جو چائینہ طرز کا حکومتی سیٹ اپ لانے کی کوشش بھی ہوسکتا ہے، جسے اسلامی صدارتی نظام کا نام دینے کی کوشش کی جارہی ہو۔ ایسی بھی کسی صورت میں نظام میں بہتری یا تبدیلی موجودہ آئینی طریقہ کار کے مطابق اور اندر رہ کر ہی ہونی چاہیے اس سے ہٹ کر کسی کوشش کو بھی ملکو قوم کے لئے حب یا وفاداری نہیں کہا جاسکتا۔

ہمیں مفادات اور خواہشات کو ایک طرف رکھتے ہوئے حقائق کو سمجھنا چاہیے کہ آئین کے دئیے ہوئے اختیارات اس ریاست دھرتی کے مستفیض شدہ وسائل سے ہی ممکن ہیں اور ان کا مقصد ذمہ داریوں کو احسن طریقے سےآئینی حدود میں رہ کر پورا کرنے کے فرائض کے ساتھ نتھی ہے۔ جسے اپنے مفادات یاخواہشات کے لئے استعمال کرنا کسی طرح سے بھی قابل جواز نہیں۔ چائینہ کو پچھلے آٹھ نو سالوں میں پاکستان کےاندرونی سیاسی حالات اور با اثر کرداروں کا بھی اندازہ ہوگیا ہوگا لہذا وہ اب موثر، قابل عمل اور یقینی معاہدوں کے قیام کی پوزیشن میں ہوگا۔

اس وقت عالمی حالات حاضرہ کے اندر ہمارا قدرتی الائینس بھی چائینہ کے ساتھ ہی بنتا ہے جس کی وجہ نہ صرف جغرافیائی حالات ہیں بلکہچائینہ ہمارا پرانا دوست ملک ہے۔ ویسے بھی اس وقت دنیا میں اس کا تعارف پرامن اور قابل اعتماد طاقت کے طور پر سامنے آرہا ہے۔ جس کے ساتھ ہمارا دل کئی دہائیوں سے دھڑکتا ہے، مگر ہم نے ہاتھ امریکہ سے ملائے رکھا۔ اور چائینہ کے ساتھتعلقات سے امریکہ کے ساتھ تعلقات پر بھی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ امریکہ اور چائینہکا آپس میں اقتصادی مقابلہ ہی نہیں شراکت داری بھی ہے اور دونوں ایک دوسرے کے ہم پلہ ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لہذا ہم اگر حکمت عملی سے چلیں تو دونوں کے ساتھ ہمارے بیک وقت اچھےتعلقات بحال رہ سکتے ہیں۔ ہمارے اندرونی موجودہ اور ماضی کے سیاسی حالات کا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ عوامی رائے سے لے کرچائینہ اور عالمی ہمدردیوں تک نواز شریف کا پلڑہ بھاری ہے لہذا نہ چاہتے ہوئے بھی، جمہوریت کی روح رواں کو اس طرف نرم گوشہ اختیار کرنا پڑے گا۔ لیکن اس میں ان کوکچھ تحفظات اور خدشات آڑے آرہے ہونگے جن کی بہتری کے لئے وقت تو درکار ہوگا۔ اور میرا ذاتی خیال ہے کہ وہ ایک دفعہ غیر جانبدرانہ اور شفاف الیکشن کی راہ ہی ہموار کریں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply