• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • بین الاقوامی ماحولیاتی کانفرنس، گلاسگو کی ناکامی میں ریاستوں کا مجرمانہ کردار۔۔ ناصر منصور

بین الاقوامی ماحولیاتی کانفرنس، گلاسگو کی ناکامی میں ریاستوں کا مجرمانہ کردار۔۔ ناصر منصور

کرّہ ارض کو درپیش ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں پر 26 ویں بین الاقوامی ” پارٹی آف کانفرنس ( COP ) ” اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں 31 اکتوبر سے 12 نومبر تک جاری رہ کر اختتام پذیر ہوئی۔ اسے  COP26 کا نام دیا گیا ہے۔

ماحولیاتی مسائل پر یہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی کانفرنس تھی جس میں ایک سو بیس سربراہان مملکت ، جب کہ تیس ہزار سے زائد مندوب اور مبصرین نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں ایک سو اکاون ممالک نے ماحولیاتی تباہی سے نبرآزما ہونے کے لئے نیشنل ڈیٹرمائنڈ کنٹریبیوشن ( این ڈی سی) کی صورت ایکشن پلان پیش کیا۔

ماحولیاتی تبدیلیوں ،اس کے نتیجے آنے والی خطرناک تباہی اور کرہ ارض پر زندگی کے ہی معدوم ہونے پر بڑھتی ہوئی عالم گیر تشویش کا پہلا سنجیدہ اظہار 1992 میں برازیل کے شہر ریو ڈی جینیرو میں ماحولیاتی مسائل پر منعقدہ کانفرنس میں کیا گیا جس میں پیش کئے گئے ڈیکلریشن پر جن ایک سو چوون ممالک نے دست خط کئے ان میں پاکستان بھی شامل تھا۔ اس پر عمل درآمد کا آغاز سنہ 1994 سے ہوا جب یونائٹڈ نیشن کلائمیٹ چینج فریم ورک کنونشن (UNFCCC) کی منظوری دی گئی۔ اس کے لئے فیصلہ سازی ادارے کانفرنس آف پارٹیز (COP)  کا قیام عمل لایا گیا ۔ پاکستان نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور  حکومت میں اس کنونشن کی 1994 میں توثیق کی تھی۔ اس وقت  UNFCCC- COP کے ممبر ممالک کی تعداد 197 ہے جو اس کنونشن کی توثیق کر چکے ہیں۔

یو این ایف سی سی سی  کا بنیادی مقصد گرین ہاؤس گیسز کے اخراج پرکنٹرول،  کرہ ارض کو ماحولیاتی تغیرات کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھنا ہے۔ یہ کنونشن ماحول کو درپیش خطرات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک ایسا طریقہ کار ,  فریم ورک تجویز کرتا ہے جس کے ذریعے ماحولیاتی تبدیلیوں پر بات چیت کی جاسکتی ہے۔ COP  کے نام سے ماحولیات سے متعلق مسائل پر ہر سال بین الاقوامی اجتماع منعقد ہوتا آ رہا ہے۔ پہلا COP ،میں برلن ، جرمنی1995  میں منعقد ہوا تھا۔ جب کہ گلاسگو میں 2021 میں COP26 منعقد ہوا جوکہ ہونا تو 27واں   چاہیے  تھا لیکن کووڈ کی وجہ سے یہ 2020 میں منعقد نہ ہو سکا تھا۔

سی او پی  ( COP) کی تاریخ میں اہم ترین COP3 تھا جو کہ 1997 میں  جاپان کے شہر کییوٹو ( KYOTO ) میں منعقد ہوا جس میں ماحول کو بچانے کے لئے تاریخی اہمیت کے حامل ” کیوٹیو پروٹوکول ” کی منظوری دی گئی جب کہ 2015 میں پیرس میں ہونے والا COP21 بھی اس لحاظ سے اہم تھا کہ اس میں ” پیرس معاہدہ ” کا اعلان کیا گیا جس میں ممبر ممالک نے طے کیا کہ کاربن کا اخراج 1990 میں کاربن کے اخراج کی سطح سے 5 فی صد کم پر رکھا جائے گا۔ پیرس معاہدہ  کا مرکزی مقصد اس صدی میں عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو صنعتی دور سے پہلے کی سطح سے 2 ڈگری سیلسیس سے نیچے رکھ کر ماحولیاتی تبدیلی کے خطرے کے خلاف عالمی ردعمل کو مضبوط بنانا ہے اور درجہ حرارت میں اضافے کو مزید 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود کرنے کی کوششوں کو آگے بڑھانا ہے۔

لیکن گلاسگو میں منعقدہ  COP26 تمام تر شور و غوغا کے کرّہ ارض کو درپیش ماحولیاتی مسائل کے حل کی کوششوں کو ٹھوس انداز میں آگے بڑھانے میں ناکام رہا۔ یورپین یونین سے نکلنے کے بعد برطانیہ نے اس میگا ایونٹ کو اپنی گرتی ہوئی بین الاقوامی ساکھ کی بحالی کے طور استعمال کرنے کی کوشش کی جس کا اظہار ملکہ برطانیہ کی افتتاحی خطاب سے بھی ہوتا  ہے۔ اس بین الاقوامی کانفرنس میں ماحولیاتی مسائل پر ریاستوں کی سنجیدگی سرمایہ اور کارپوریٹ کی منشا اور مرضی سے مشروط رہی۔  COP26 میں کاربن کی پیداوار،  کاربن مارکیٹ اور فنانس اہمیت کے حامل نکات تھے جو مسلسل موضوع بحث رہے۔ لیکن بدقسمتی سے ریاستیں جو کہ “پارٹی آف کانفرنس” ہیں نوع انسانی ، حیواں و حیات کی ہر جہت کی بقا کے لئے ٹھوس لائحہ عمل دینے میں ناکام رہیں۔

کرہ ارض پر بسنے والے اربوں انسانوں کے  حقیقی نمائندے کانفرنس میں منعقدہ سینکڑوں سیشنز کے دوران اور کانفرنس سے باہر لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر “مدر ارتھ” کو بچانے کے لئے عوام کی آواز بنے احتجاج کرتے رہے۔ لیکن ریاستی اہل کار  جو کہ ”  کانفرنس آف پارٹیز ” میں نمائندگی کے حق دار تھے ، سرمایہ اور کارپوریٹ مفادات کے ترجمان بنے منافع بچانے کی سبیل تلاش کرتے رہے۔ اسی لئے ان ریاستی رہنماؤں کی تقاریر کو ماحولیاتی کارکنوں نے الفاظ کا گورکھ دھندہ قرار دیتے انہیں ” بلا بلا بلا ” سے ہی تعبیر کیا۔

کانفرنس میں مختلف حیلے بہانوں سے ماحولیاتی جرائم کی پردہ پوشی کے خلاف 5 نومبر کو پچاس ہزار سے زائد نوجوانوں نے گلاسگو کی سڑکوں پر پرجوش مارچ کیا جس میں دنیا بھر آئے نوجوان نمائندوں نے شرکت کی۔ مارچ کا سلسلہ دوسرے روز یعنی 6 نومبر کو بھی جاری رہا جس میں ایک لاکھ سے زائد سیاسی ، سماجی ، ماحولیاتی ، مزدور تنظیموں نے شرکت کی۔ خون جما دینے والے شدید سرد موسم ، بارش اور تیز خنک ہوا میں لاکھوں افراد کا ماحول سے متعلق ریاستی و کارپوریٹ بیانیہ کو مسترد کرنا ثابت کرتا ہے ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والی قوتوں اور ان کی پشت پناہی کرتی ریاستوں کی شکست یقینی ہے۔

کانفرنس میں ٹریڈ یونینز خصوصاً  انڈسٹریل گلوبل یونین نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے لئے سماجی انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھنے پر زور دیا جب کہ جرمنی کی بائیں بازو کی جماعت ” ڈی لنکے” سے متعلقہ روزا لکسمبرگ فاونڈیشن ( RLS)  کے وفد نے جس میں تمام براعظموں سے نمائندے خصوصا ًعورتیں  شامل تھیں نے ماحولیاتی تبدیلیوں میں عورتوں پر مرتب ہونے والے مضر معاشی ، سیاسی و معاشرتی اثرات پر کانفرنس کے دوران سیشنز کا اہتمام کیا اور کلائمیٹ مارچ میں بینرز کے ساتھ بھرپور حصہ لیا ، بھارتی کسانوں کا جتھا مودی سرکار کے کارپوریٹ دوست اور کسان دشمن اقدامات کے خلاف مارچ میں موجود تھا ، سوڈان کے شہری فوجی آمریت کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، فلسطین کا جھنڈا سارے مارچ میں سب سے اونچا اور نمایاں رہا۔   ایمزون کے جنگلات کو بچانے کے لئے انڈیجنس رائیٹس کے اراکین مارچ میں نمایاں تھے ، سندھ میں پردیسی پرندوں کے شکار کے خلاف آواز اٹھانے والے ناظم جوکھیو کا   قتل بھی کلائمیٹ مارچ کا موضوع رہا ، اس مارچ میں ٹرانس جینڈر کی موجودگی نمایاں نظر آئی۔ لیفٹ ، کمیونسٹ گروپس اپنے سرمایہ دارانہ مخالف بینرز اور نعروں کے ساتھ مارچ کا متحرک حصہ رہے۔ ایک موقع پر تو نوجوان کمیونسٹ گروپ کو سکیورٹی فورسز نے مکمل طور پر گھیرے میں لئے رکھا۔ کلائمیٹ مارچ میں سو سال کے بوڑھے ، وہیل چیئر پر بیٹھے بزرگ اور ایک ماہ کا بچہ گود میں لئے ماں بھی شریک تھی۔

ماحولیاتی مسائل سے متعلق بڑھتے ہوئے عوامی شعور اور طاقت ور بین الاقوامی ماحولیاتی انصاف کے لئے تحریک کے دباؤ کے تحت ریاستوں نے خطرناک ماحولیاتی تغیرات کا مقابلہ کرنے کے لئے مجبورا  اس  اپروچ کو تسلیم کیا گیا جس میں ریاستوں پر ذمہ داری عائد کی گئی کہ انہیں ماحولیاتی بہتری کی لئے کہا کچھ کرنا ہے۔  جسے بعد میں کارپوریٹ سیکٹر کے مفادات کی خاطر اس طرح تبدیل کر دیا کہ اب ریاستیں اپنے طور پر بتائیں گی کہ ماحول کو بہتر بنانے کے ضمن میں وہ کیا کر سکتی ہیں اور یہ تمام وعدے رضاکارانہ نوعیت کے ہوں گے۔

اسی طرح پہلے کہا جارہا تھا کہ کاربن کے اخراج کو “زیرو” کر دیا جائے گا جس کا مطلب توانائی کے لئے کاربن کا استعمال زیرو ہوگا ،  اب “زیرو” کاربن سے ” نیٹ زیرو ” کاربن کی خوف ناک اصطلاح کی جانب مراجعت کے ذریعے ماحولیاتی جرائم جاری رکھنے کا حکم صادر کیا گیا ہے۔ زیرو کاربن اخراج کا مطلب ہے  توانائی کے لئے فوسل فیول کا زیرو استعمال یعنی “زیرو کاربن” جب کہ نیٹ زیرو الفاظ کی جادو گری ہے جس کا سیدھا اور سادہ مطلب وہ توازن ہے جو گرین ہاؤس گیسز کی پیداواری مقدار اور ماحول میں موجود کاربن کو ہٹانے کے درمیان ہو۔ نیٹ زیرو کاربن کارپوریٹ کا ایک خطرناک جال ہے جس میں عوام کو پھانسا جا رہا ہے۔

Zero :

Zero emissions entirely on solar and using zero fossil fuels can label it as energy as “zero-carbon”.

Net Zero :

“GHG produced & GHG emissions taken out of atmosphere is called Net Zehro”

صورت حال یہ ہے کہ ماحول میں کاربن کا سالانہ اخراج ایک اندازے کے مطابق چالیس گیگا ٹن ہے جو کہ طے شدہ حدیث سے  آٹھ سے بارہ گیگا ٹن زیادہ ہے ۔ یہ مقدار درجہ حرارت کو ایک اعشاریہ پانچ ڈگری سیلسیس تک کم کرنے کے پیرس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اگر کاربن اسی مقدار میں ماحول میں موجود رہی تو اگلے تیس برسوں میں درجہ حرارت میں  2⁰c  اضافہ کی سطح عبور کر جائے گا، خدشہ یہ بھی ہے مستقبل میں درجہ حرارت 4 سے 6 ڈگری سیلسیس تک بڑھ سکتا ہے جو سطح سمندر کو انتہائی بلند کرنے کا باعث بنے گا، موسموں میں شدت آئے گی اور سب سے بڑھ کر خوراک کا حصول انتہائی غیر محفوظ ہو جائے گا۔

کاربن کے اخراج کو 15 گیگا ٹن سالانہ کی سطح تک لے جانے ہی سے  2030 تک درجہ حرارت  1.5⁰c کی سطح تک لایا سکتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ کاربن اخراج کو %7.6 سالانہ کم کیا جائے تاکہ 2030 تک درجہ حرارت 1.5 ڈگری تک کم کرنے کا وعدہ ایفا ہو سکے۔

بدقسمتی سے گلاسگو ، اسکاٹ لینڈ میں منعقدہ COP26 گزشتہ طے شدہ اہداف سے پیچھے ہٹتا دکھائی دیتا ہے۔ ترقی یافتہ صنعتی ممالک کی جانب سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ماحول میں آنے والے بگاڑ کی روک تھام  ، توانائی کے متبادل ذرائع کے استعمال ، ماحول کے شکستہ( بروکن) بیلنس کو بحال کرنے اور ماحولیاتی تبدیلیوں سےمتاثرہ ممالک کو 2020 سے سالانہ ایک سو ارب ڈالرز کی مدد فراہم کی جائے گی لیکن اب بلا جواز  اسے 2025 سے مہیا کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔  لیکن اب یہ کہا جا رہا ہے  کہ دیگر شعبوں میں دی جانے والی بین الاقوامی امداد کو بھی اس ایک سو ارب ڈالرز میں شامل سمجھا جائے گا۔

ہمارے جیسے ممالک کے حکمران اس unacceptable امداد  کو بھی accept کرنے کےلئے تیار بیٹھے ہیں تاکہ اس کے ایک بڑے حصے کو بھی خرد برد کر سکیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کووڈ سے بچاؤ کی مد میں ملنے والی بین الاقوامی مدد کے 1.5 بلین ڈالرز کے استعمال میں کس طرح کی سنگین بے ضابطگیوں کا ارتکاب کیا گیا جب کہ زلزلہ کے متاثرین کے لئے عالمی مدد کی لوٹ مار بھی ہمارے ذہنوں میں موجود ہے۔

صنعتی طور پر ترقی یافتہ ریاستیں جو کہ ماحولیاتی بگاڑ کی ذمہ دار ہیں ان کی جانب سے ماحول میں سدھار کے لئے ایک سو ارب ڈالرز سالانہ فی الفور مہیا نہ کرنا کرہ ارض اور اس پر بسنے والے انسانوں اور ماحول کے ساتھ بھیانک مذاق ہی قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اسلحہ اور فوجی اخراجات پر سالانہ 2000 ارب ڈالرز جھونکنے پر ان ریاستوں کو کوئی شرم بھی محسوس نہیں ہوتی ۔ یہی ریاستیں اپنے مجرمانہ فعل کے طور فاسل فیول سیکٹرز کو سالانہ 6000 ارب ڈالرز کی سبسڈی دے کر ماحولیاتی دہشت گردی پھیلانے کا موجب بن رہی ہیں۔ عوام کے ٹیکسوں سے حاصل شدہ دولت ہی سے ان ریاستوں نے عوام کے خلاف ماحولیاتی جنگ چھیڑی ہوئی ہے۔

صنعتی طور ترقی یافتہ G20 کے ممالک کرہ ارض پر پھیلی %70 ماحولیاتی آلودگی کے ذمہ دار ہیں لیکن ان میں سے صرف 15 ممالک نے ماحولیاتی بہتری کے کچھ رضاکارانہ وعدے ضرور ل کئے ہیں لیکن ان وعدوں کی تکمیل کے لئے کوئی حتمی وقت نہیں دیا گیا، یہاں تک کہ نیٹ زیرو کے بارے میں بھی کوئی وعدہ نہیں کیا۔ کئی ایک ترقی یافتہ ممالک نے توانائی کے لئے کوئلہ کے استعمال میں کمی اور دیگر فاسل فیول پر سبسڈی کے خاتمہ کا عندیہ دیا لیکن بھارت اور چین کے اعتراضات کی بنا پر منظور کئے گئے ڈرافٹ میں آخری لمحات میں تبدیلی کرتے ہوئے کوئلہ کے استعمال کے بتدریج خاتمہ ( phase out ) کی بجائے بتدریج کمی ( phase down ) کو شامل کر لیا گیا جس سے کوئلہ  کے استعمال اور نتیجہ کے طور کاربن کے اخراج کے راستے کھول دیے گئے ہیں۔

گلاسگو کانفرنس میں پاکستانی وفد کی موجودگی غیر متحرک اور موج میلہ کرتی نظر آئی ، کانفرنس  ہال میں پاکستانی پویلین روایتی نوکرشاہی کی بے اعتنائی کا منہ بولتا ثبوت بنا ہوا تھا اور سونے پر سہاگا یہ کہ وزیر ماحولیات اور مشیر صاحب کی باہمی رقابت اور رنجش نے پاکستان کی موجودگی کو مزید غیر موثر بنا کر رکھ دیا۔ یہ ایسے ملک کے وفد کا غیر سنجیدہ طرز عمل تھا جو ماحولیاتی تبدیلیوں کے بدترین متاثرہ ممالک کی فہرست میں نمایاں ترین ہے۔ اس ملک کے شمال میں واقع گلیشیر تیزی سے پگھل رہے ہیں ، لینڈ سلائدنگ کی وجہ سے پانی کی قدیم گزر گاہیں مسدود یا پھر تبدیل ہو رہی ہیں،  موسموں کے پیٹرن میں نمایاں اور غیر متوقع تبدیلیاں نظر آ رہی ہیں ، بے وقت بارشیں اور خشک سالی فصلوں کی کاشت اور کٹائی پر برے اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ خوراک کا حصول مسلسل غیر محفوظ ہوا جارہا ہے ، جنگلات کی کٹائی بھی لینڈ سلائیڈنگ کا باعث بن رہی ہے۔ پاکستان کے ساحلی علاقوں میں موجود تمبر کے جنگلات کاٹے جارہے ہیں جو سمندری طوفانوں میں بچانے والی دیوار کا کام دیتے تھے اب یہ جنگل مفقود ہوتے جا رہےہیں اور سمندری طوفان ہر بار نئی تباہی لے کر آتا ہے۔ دریاؤں خصوصا سندھو دریا پر ڈیم بنانے اوع پانی کی مسلسل کمی کی وجہ سے ایک خاص مقدار میں پانی سمندر میں نہیں جا پا رہا۔ اس کے نتیجے میں یوں نہ صرف انڈس ڈیلٹا تباہ ہو چکا ہے بل کہ 3 ملین ہیکٹر کے قریب زرخیز زرعی زمین بھی سمندر برد ہو چکی ہے جس سے لاکھوں انسانوں کا روزگار کے ذرائع سے محروم ہوگئے ہیں ختم اور بستیاں بھی رہنے کے قابل نہیں رہیں جس کے نتیجے میں لاکھوں خاندان اپنے آبائی علاقے کو چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

عمران خان خود کو ماحولیاتی مسائل کے حل کا چیمپین قرار دیتے ہیں اور انہوں نے اعلان کیا ہے کہ کوئلے کے نئے لگائے گئے پلانٹس کو ہائیڈرو الیکٹرک میں بدل دیا جائے گا ، نئے کوئلہ کے پلانٹ نہیں لگائے جائیں گے ،  2030 تک 60 فی صد توانائی ری نیو ایبل ذرائع سے حاصل کی جائے گی ، 30 فی صد نئی گاڑیاں الیکٹرک پر ہونگی( لیکن اسی حکومت نے الیکٹرک گاڑی کی خرید پر مزید ٹیکس عائد کر دیا ہے۔) لیکن یہ سب کچھ کرنے کے لئے پاکستان کو 2030 تک 101 ارب ڈالرز چاہئے ہوں گے جب کہ 2040 میں مزید 60 ارب ڈالرز کی ضرورت پڑے گی۔ اتنی بڑی رقم کہاں سے آئے گی کون دے گا ، نہ چالیس من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی ۔ وہ ملک جو ایک ارب ڈالرز کے قرض کی قسط کے عوض اپنے آپ کو آئی ایم ایف کے حضور گروی رکھنے پر مجبور ہو وہ کیا واقعی اتنی استعداد یا سکت رکھتا ہے کہ اتنے بڑے دعوؤں پر عمل درآمد کر سکے۔

ریاستوں کے حکمران ترقی یافتہ ممالک سے ہوں یا کہ ترقی پذیر ممالک سے وہ باتیں اور دعوے تو بہت ہی متاثر کن کرتے ہیں لیکن آخری تجزیہ میں وہ عمل کے میدان میں بین الاقوامی سرمایہ ہی کے مفادات کا تحفظ کرتے نظر آتے ہیں۔ ماحولیاتی مسائل پر ہونے والی 26 بین الاقوامی کانفرنسز کے نتائج یہی بتا رہے ہیں کہ وہ باتوں اور وعدوں کے سوا کچھ نہیں دے پائیں۔ دسمبر 2021 ہی میں یونائیٹڈ نیشن کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں ماحولیاتی تبدیلیوں کو امن عالم کے لئے خطرہ قرار دینے کی قرار داد کو  روس نے ویٹو اور بھارت نے مخالفت میں ووٹ دیا جب کہ چین غیر حاضر رہا۔

ترقی کے سرمایہ دارانہ راستہ نے جہاں غربت اور جنگوں کو جنم دیا ہے وہیں قدرتی ماحول کو اس حد تک نقصان پہنچایا ہے کہ نوع انسانی ہی نہیں حیات ہی کو خطرہ سے دوچار کر دیا ہے۔ حکومتیں سرمایہ کی زرخرید غلام بن چکی ہیں اسی لئے انسانوں اور حیات کی فکر کرنے کی بجائے کارپوریٹ منافع کے لئے شیلڈ بن گئی ہیں۔ یہ حکومتیں ماحولیاتی تباہی کاریوں کی ذمہ دار ٹرانس نیشنل کمپنیوں کے جرائم کی پردہ پوشی کر رہی ہیں اور ان کی ترجمان بنی ہوئی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کلائمیٹ چینج ( ماحول کی تبدیلی )  بنیادی طور پر سسٹم چینج ( نظام کی تبدیلی) سے جڑا ہوا ہے۔ سرمایہ داری کا ماحولیاتی تباہی سے براہ راست تعلق ہے اس لئے ماحولیاتی تبدیلیوں سے نبردآزما ہونے لے لئے سرمایہ کے تسلط سے بھی نجات ضروری ہے ۔ نسل انسانی کی عظیم اکثریت ہی منظم اور شعوری تحرک سے زندگی اور ماحول کو سرمایہ کے عفریت سے نجات دلا سکتی ہے۔  انصاف پر مبنی ماحولیاتی مراجعت نہیں ہوتی تو وہ فقط باغبانی بن کر رہ جائے گی۔

Facebook Comments

ناصر منصور
محنت کی نجات کے کوشاں ناصر منصور طالبعلمی کے زمانے سے بائیں بازو کی تحریک میں متحرک ایک آدرش وادی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply