کینسر (88) ۔ اینٹی باڈی سے علاج/وہاراامباکر

جینن ٹیک میں جرمن سائنسدان ایکسل الرچ نے وائنبرگ کی دریافت کردہ نیو اونکوجین دوبارہ دریافت کی تھی، لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کے ساتھ کرنا کیا ہے۔ یہ علم تو تھا کہ اگر کسی چیز کی عدم موجودگی یا کمی ہو (کسی پروٹین یا سگنل کی) تو اسے ٹھیک کیسے کرنا ہے۔ اس کو بیکٹریا کے خلیے میں تیار کیا جا سکتا تھا لیکن اسے ابھی یہ علم نہیں تھا کہ انسانی خلیے میں کسی پروٹین کی فراوانی کو غیرفعال کیسے کیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب الرچ اس دریافت کی کہانی سیمینار میں سنا رہے تھے تو سامعین کے لئے یہ دلچسپ تھا لیکن پنچ لائن موجود نہیں تھی۔ جینن ٹیک ایک ڈرگ کمپنی تھی۔ اس دریافت میں ڈرگ کہاں تھی؟
سننے والود میں یونیورسٹی آف کیلے فورنیا کے ایک اونکولوجسٹ ڈینس سلامون تھے۔ الرج اور سلامون نے تحقیق کے لئے اتحاد کر لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امیون سسٹم میں ایک خاص طرح کی پروٹین ہے جو اینٹی باڈی ہیں۔ یہ دفاعی نظام کی پروٹین ہیں جو اپنے حدف کو پہچان کر اس سے چپکنے کی خاص مہارت رکھتی ہیں۔ اور امیون سسٹم ان کو خاص بیکٹیریا اور وائرس سے چپک کر مارنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ یہ قدرتی جادو کی گولیاں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو امیونولوجسٹ، سيزر ملسٹائن اور جارج کوہلر اینٹی باڈی کو بڑی مقدار میں پیدا کرنے کا طریقہ دریافت کر چکے تھے۔ اور اس کے لئے کینسر کے خلیے کو استعمال کیا گیا تھا۔ (امیون سیل اینٹی باڈی بناتا تھا جبکہ کینسرزدہ ہونے کی وجہ سے اس کی مہارت بے قابو پھیلنے میں تھی اور یوں یہ ایک فیکٹری بن جاتی تھی)۔ ایک خیال تھا کہ اس کے راستے سے کینسر کے علاج تک پہنچا جا سکتا ہے لیکن اس کے لئے سائنسدانوں کو کینسر سیل میں پائے جانے والے منفرد حدف ڈھونڈنے تھے جو کہ آسان نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الرچ کا خیال تھا کہ انہوں نے جو جین تلاش کی ہے، یہ ایسا ٹارگٹ ہو سکتا ہے۔ سلامون نے اس پر ایک اہم تجربہ کیا تھا۔ اور اس جین کی مدد سے چوہوں میں کینسر پیدا کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ جینن ٹیک کے امیونولوجسٹ 1988 میں چوہوں کی ایسی اینٹی باڈی تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے جو اس جین کو غیرفعال کر دیتی تھی۔
الرچ اور سلامون نے اس کی مدد سے کامیابی سے چوہوں میں نتائج حاصل کر لئے۔ ان کے پاس اب خاص حدف والی تھراپی کے تینوں اجزا موجود تھے۔ ایک خاص انکوجین، ایسا کینسر جو اس ایک خاص جین کو فعال کرتا ہے، اور ایسی ڈرگ جو اس کو نشانہ بناتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن جینن ٹیک نے اس تحقیق کو آگے بڑھانے سے انکار کر دیا۔ یہ بہت مہنگی ریسرچ ہوتی اور یہ کمپنی اس کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ اس نے کینسر پراجیکٹ بڑی حد تک بند کر دئے۔ ان کا فوکس سادہ ادویات اور پروگراموں پر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معمولی فنڈنگ کے ساتھ اس پراجیکٹ کو چند سائنسدانوں نے زندہ رکھا اور آگے بڑھاتے رہے۔ پال کارٹر انتیس سالہ برطانوی سائنسدان تھے جنہوں نے 1990 کے موسمِ گرما میں ایسی انسانی اینٹی باڈی تیار کرنے میں کامیابی حاصل کر لی۔ یہ دوا ہرسپٹین تھی۔
مشكلات کے باوجود، محض تین سالوں میں حاصل ہو جانے والی یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دوا کا ٹرائل 1992 میں ہوا۔ اس میں پندرہ خواتین شامل تھیں۔ تمام کا کینسر اس مرحلے پر تھا کہ سٹینڈرڈ ادویات کام نہیں کرتی تھیں۔ ہرسپٹین اور کیموتھراپی کا کورس شروع کیا گیا۔
تین ماہ بعد ایسی خواتین کو چھوڑ دیا گیا جس پر اس کا مثبت اثر نہیں ہوا۔ چھ ماہ بعد ٹرائل میں چھ خواتین باقی رہ گئی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس پروگرام میں شامل باربرا بریڈفیلڈ کا کینسر سرجری کے بعد واپس آیا تھا اور ان کے پندرہ ٹیومر تھے۔ بچنے کی امید نہیں تھی لیکن اٹھارہ ہفتے جاری رہنے والی تھراپی کے بعد مکمل صحت یاب ہوئیں۔ اور چھیاسٹھ سال بریڈفیلڈ آج بھی زندہ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہرسپٹین معجزاتی دوا تو ثابت نہیں ہوئی تھی لیکن یہ کینسر کے خلاف ترکش میں ایک اور ہتھیار تھا۔ اہم بات یہ کہ یہ بلاتخصیص کیموتھراپی کا طریقہ نہیں تھا۔ اینٹی باڈی بنا کر خاص خلیے کو نشانہ باندھ کر کیا جانے والا یہ پہلا علاج تھا۔
اب اس کے باقاعدہ ٹرائل ہو سکتے تھے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply