ہنگل کی ہجرتیں۔۔انور اقبال

جولائی کا مہینہ ہے مون سون کا آغاز ہوچکا ہے۔ دوپہر کا وقت ہے، ارد گرد پہاڑیوں کی پیاسی چوٹیاں اور ڈھلوانیں پچھلی رات کی بارش کے پانی سے تر ہو چکی ہیں۔ اس چھوٹے سے پہاڑی قصبے کے دیودار کی لکڑی سے بنی واحد كلیسا کی عمارت جو سینٹ میتھیوز کہلاتی ہے۔ اس کو سن 1904 میں ایک برطانوی کرنل ہوپ نے ڈیزائن کر کے تعمیر کروایا تھا۔ کلیسا کی وہ عمارت بارش کے پانی سے دُھل کر چمک رہی ہے۔ اس وقت بھی سورج اور بادلوں کی آنکھ مچولی جاری ہے۔ كلیسا کی عمارت کے اطراف چیڑ کے لمبے سر سبز درخت اور عقب میں پہاڑی ڈھلوان پر چیڑ کے درختوں کا ایک وسیع و عریض گھنا جنگل نہایت ہی حسین منظر پیش کر رہا ہے۔

كلیسا کے داخلی دروازے کے سائبان کے نیچے دیوار سے ٹیک لگائے ایک دس سالہ لڑکا بیٹھا ہے۔ اچانک بادل گھر کر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ لگتا ہے سورج اور بادلوں کی آنکھ مچولی کے کھیل میں بادل غالب آگئے ہیں۔ سارے منظر پر سُرمئی رنگ چھا جاتا ہے۔ ایسے میں وہ لڑکا اپنی بانسری پر ایک مقبول پہاڑی دُھن چھیڑ دیتا ہے۔ سامنے راستے پر چلنے والے پہاڑی مرد و زن اس لڑکے کے چاروں طرف جمع ہو جاتے ہیں۔ اس اثنا میں بارش کی ننھی ننھی چمکدار موتی جیسی بوندیں كلیسا کی ڈھلوان چھت پر جلترنگ بجانے لگتی ہیں۔

لڑکے کی بانسری کی مدهر تان اور یہ جلترنگ مل کر اس چھوٹے سے مجمعے پر ایک سرمدی کیف طاری کر دیتے ہیں۔ جوش نے رقص کو اعضا کی شاعری کہا تھا پر موسیقی تو بے زبان ہوتی ہے لیکن اس کی صوتی لہریں ایک سال کے بچے سے لے کر 100 سال کا بوڑھا تک سمجھتا ہے اور سر دهنتا ہے۔ یہ آج سے نوے سال پہلے 1930 کی دہائی کے آغاز میں ہندوستان کے شمال مغربی پہاڑی مقام “نتهيا گلی” کا ایک منظر ہے۔ یہ لڑکا اپنے والد کے ساتھ چھٹیاں گزارنے پشاور سے یہاں آیا ہے۔ اس دس سالہ لڑکے کا نام “اوتار کشن ہنگل” ہے۔ “نتهیيا گلی” اس وقت متحده ہندوستان کے صوبہ سرحد کا ایک چھوٹا سا ہل اسٹیشن ہوا کرتا تھا اور آج یہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کا ایک مقبول سیاحتی مقام ہے۔

اوتار کشن ہنگل کا تعلق کشمیری پنڈت خاندان سے تھا۔ ان کے آبا و اجداد کوئی تین سو سال پہلے کشمیر سے ہجرت کر کے ریاست اودھ کی راجدهانی لکھنؤ میں آن بسے تھے۔ اس کشمیر سے جس کے بارے میں مغل شہنشاہ جہانگیر نے کہا تھا
“اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است”

ہجرت شاید بنی نوع انسان کا مقدر ہے۔ یہ زندگی کا سب سے كربناک پہلو ہوتا ہے۔ اپنی زمین، اپنے وطن اور اپنے گھر بار کو الوداع کہنا اور عزیز و اقارب سے جدا ہونا انتہائی دشوار اور مشکل ترین لمحہ ہوتا ہے لیکن انسانی زندگی میں پیش آنے والے مسائل کے پیش نظر انسان یہ سب کچھ مجبوراً کرتا ہے۔ زندہ رہنے کی آس میں اپنے حقیقی وطن کو نم آنکھوں کے ساتھ الوداع کہہ کر وہ کسی نئے ٹھکانے کی تلاش میں سرگرداں ہو جاتا ہے اور جہاں کہیں جگہ ملتی ہے وہیں بودوباش اختیار کر لیتا ہے۔ ہجرت کا یہ سلسلہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔ ہر دور میں انسانوں نے مختلف وجوہات کے سبب ہجرت کر کے دوسری جگہ رہائش اختیار کی ہے۔ آج بھی ہجرت دنیا کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔

ریاست اودھ تو آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے ہی قصہ پارینہ ہو چکی تھی لیکن شہرِ لکھنئو آج بھی ہندوستان کے صوبے یو پی کا دارالحکومت ہے۔ گمان غالب یہ ہے کہ اُس بچے کے پُرکھے لکھنئو میں داخل ہوتے وقت کشمیر کے روائیتی لباس “پهیرن” میں ملبوس ہوں گے۔ پهیرن صدیوں سے لے کر آج تک کشمیری مرد و زن میں يكساں مقبول ہے۔ پهیرن کو دیکھ کر ہی انسانی ذہن میں کشمیر کی ٹھنڈی اور پُرسکون فضایں قوسِ قزه بکھیرنے لگتی ہیں۔ لیکن آج کی اس بے رحم دنیا نے جو سیاسی، طبقاتی اور سماجی طور پر تقسیم در تقسیم کا شکار ہے اس لباس کو دہشت گردی کی علامت قرار دے دیا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا سربراه بھی اپنی تقریروں میں اس لباس کا مذاق اڑاتا ہے اور ڈیڑھ ارب انسانوں کو اس لباس سے ڈراتا ہے۔ حالانکہ یہ لباس پندہرویں صدی سے بھی پہلے سے کشمیر کی محبت بھری ثقافت کا حصہ رہا ہے۔

“اوتار کشن ہنگل” چھٹیاں ختم ہونے پر نتهیا گلی سے پشاور واپس لوٹ جاتا ہے۔ اوتار کشن ہنگل کون ہے؟ اگر آپ نے ستر کی دہائی میں بالی وڈ میں بننے والی لازوال فلم “شعلے” دیکھی ہے تو اس کا ایک مقبول مکالمہ “اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی” بھی یاد ہو گا۔ اوتار کشن ہنگل نے فلم “شعلے” میں مسجد کے امام صاحب کا کردار نبھایا تھا اور ان کا یہ مکالمہ اب اردو زبان میں محاورے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔

اوتار کشن ہنگل یکم فروری 1914 کو متحدہ ہندوستان کے شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ سیالکوٹ شہر اب پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک شہر ہے۔ سیالکوٹ میں اوتار کشن ہنگال کے نانا رہتے تھے۔ پرائمری اسکول کی ایک یا دو جماعت اوتار نے سیالکوٹ میں پڑھیں اور اس کے بعد یہ اپنے والد کے پاس پشاور چلے گئے۔ اپنی سوانح عمری میں اوتار کشن ہنگال لکھتے ہیں کہ
“کوئی ڈیڑھ سو سال پہلے میرے دادا جن کا نام پنڈت دیا کش ہنگل تھا لکھنئو سے پشاور آگئے اور یہاں اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے پر فائز ہو گئے۔ میرے دادا جب پشاور شہر میں پہلی دفعہ داخل ہوئے تو وہ لکھنوی کرتہ پاجامہ اور دوپلی ٹوپی زیب تن کیے ہوئے تھے۔ میرے پاس اس لباس میں ملبوس ان کی ایک تصویر بھی ہے”
ہجرت نہ صرف انسان کا حلیہ اور چال ڈھال تبدیل کرتی ہے بلکہ اس کی زبان بھی تبدیل کر دیتی ہے۔
حُسنِ اتفاق ہے کہ ہنگل نے مسلمانوں اور سکھوں کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی اور ان کی تربیت گھر کے ہندوانہ ماحول میں ہوئی۔ اس کے نتیجے میں لڑکپن سے ہی مختلف مذاہب اور رسم و رواج کے بارے میں ان کے ذہن کو بالغ نظری حاصل ہو گئی اور وہ ہندوستان کے ان تین بڑے مذاہب کی حدود و قیود سے بھی واقف ہو گئے۔

ہنگل کے والد پنڈت ہری کشن ایک سرکاری ملازم تھے لیکن وہ تھیٹر اور موسیقی کے رسیا تھے۔ وہ جب کبھی تھیٹر جاتے تو اپنے بیٹے ہنگل کو بھی ساتھ لے جاتے۔ اس طرح ہنگل کم عمری میں ہی تھیٹر سے واقفیت کی بنا پر اس کے اسرارورموز سے آگاہ ہوئے اور بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ ان کے اندر تھیٹر دیکھنے کا شوق بھی بڑھتا چلا گیا۔ بچپن میں تھیٹر دیکھنے کے علاوہ پشاور میں ہی انہوں نے بانسری بجانا اور تصویر کشی کرنا بھی سیکھ لیا تھا۔

1930 میں ہنگل نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا اور وہ 16 سال کے ہو گئے۔ سن 1930 اور 1931 ہندوستان کی تاریخ کے ہنگامہ خیز سال تھے۔ خاص طور پر 23 اپریل 1930 کا دن تو پشاور میں ایک خونچکاں داستان رقم کر گیا۔ اس دن خدائی خدمت گاروں کے رہنما خان عبدالغفار خان کو انگریز سرکار نے گرفتار کر لیا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ سول نافرمانی کی تحریک کے سلسلے میں کانگریس کے کارکنوں اور خدائی خدمت گاروں نے پشاور کے قصہ خوانی بازار میں ایک جلسے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ خان عبدالغفار خان اس جلسے سے خطاب کرنے کے لیے اپنے گاؤں اتمان زئی سے پشاور جا رہے تھے کہ راستے میں ہی گرفتار کر لیے گئے۔ اس اثناء میں جلسہ گاہ میں ہزاروں کارکنان جمع ہو چکے تھے۔ جب گرفتاری کی خبر جلسہ گاہ تک پہنچی تو جلسے کے حاضرین و کارکنان نے مشتعل ہو کر احتجاج شروع کر دیا اور پولیس پر پتھراؤ بھی کیا گیا۔

جواباً نہ صرف موقع پر موجود پولیس نے مظاہرین پر گولیاں برسانا شروع کر دیں بلکہ مقامی انتظامیہ نے فوج کو طلب کر لیا۔ احتجاج اور پتھراؤ کرنے والے مشتعل مظاہرین کی صف میں ہنگل بھی شامل تھے۔ اس ہنگامے میں سینکڑوں افراد مارے گئے۔ ہنگامے کے بعد جب ہنگال گھر پہنچے تو ان کے کپڑوں پر بھی جا بجا انسانی خون کے نشانات موجود تھے۔ گھر پر ان کی دادی اور والد صاحب بہت ناراض ہوئے۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ بھی تھی کہ ہنگل کے والد سرکاری ملازم تھے اور اُس زمانے میں سرکاری ملازم یا اس کے گھر کا کوئی فرد اگر سیاسی معاملات یا حکومت مخالف سرگرمیوں میں ملوث پایا جاتا تھا تو اس کو سرکاری ملازمت سے برطرف کر دیا جاتا تھا۔ لیکن ہنگل نے اپنے والد صاحب کی ناراضگی کو کوئی اہمیت نہ دی بلکہ وہ یکسوئی سے کانگریس اور خدائی خدمت گاروں کی انگریز سامراج مخالف سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔ ان کا جھکاؤ بائیں بازو کی انقلابی سیاست کی طرف تھا۔ اسی دوران ہنگل نے بڑی مشکل سے تھرڈ ڈویژن میں میٹرک کا امتحان پاس کر لیا۔ ان کو مزید تعلیم حاصل کرنے کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ ان کی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے ہنگل کے والد نے کوشش کی کہ وہ سرکاری ملازمت اختیار کر لیں۔ لیکن انہوں نے انگریز سرکار کا نوکر بننے سے صاف انکار کر دیا۔

23 مارچ 1931 کو ہندوستان میں ایک اور تاریخی واقعہ رونما ہوا جب انگریز سرکار نے بھگت سنگھ کو پھانسی دے دی۔ بھگت سنگھ ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے ہیرو تھے۔ ہنگل نے اس دن کا ذکر اپنی سوانح عمری میں کچھ اس طرح کیا ہے کہ” پشاور میں 23 مارچ 1931 کو ہی بھگت سنگھ کے لیے ایک تعزیتی جلسہ گاہ منعقد کیا گیا جس کی صدارت سردار عبدالرب نشتر نے کی جو اُس وقت آل انڈیا نیشنل کانگریس کے ایک رہنما تھے۔ نشتر بعدازاں آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہو گئے تھے۔ قیامِ پاکستان کے وقت یہ قائداعظم کی تشکیل کردہ پہلی مرکزی کابینہ میں وزیرِ مواصلات بنا دیے گئے تھے”۔ ہنگل چونکہ سرکاری نوکری کرنے کے لیے تیار نہ تھے اس لیے انہوں نے کپڑے کے “کٹر ماسٹر” کی تربیت حاصل کر لی اور پشاور میں ٹیلرنگ کی دکان کھول لی۔ ان کی یہ دکان انقلابیوں کے لیے ایک چھوٹے سے !ورکر مرکز” کے طور پر بھی استعمال ہوتی تھی۔ اپنی دکان میں ٹیلرنگ کے کام کے ساتھ ساتھ ہنگل پشاور میں ہونے والے اسٹیج ڈراموں میں بھی کام کرنے لگے۔

1935 میں پشاور میں ریڈیو اسٹیشن کا قیام عمل میں آیا۔ کہتے ہیں کہ اُس وقت کے صوبہ سرحد کہ کانگریسی لیڈر عبدالقیوم خان 1930 میں لندن میں منعقد ہونے والی گول میز کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے برطانیہ تشریف لے گئے تو وہاں پر ریڈیو ایجاد کرنے والے سائنس دان مارکونی سے بھی ملے۔ انہوں نے مارکونی سے درخواست کی کہ میرے علاقے کے میں ریڈیو اسٹیشن قائم کرنے کے لیے ایک ٹرانسمیٹر عطیہ کر دیا جائے تو جب 1935 میں مارکونی کی جانب سے یہ تحفہ پشاور پہنچا تو پشاور کا ریڈیو اسٹیشن قائم ہوا۔ ہنگل نے پشاور ریڈیو اسٹیشن سے گانوں کے پروگرام اور ڈراموں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ 1940 میں ہنگل کے والد سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہو گئے اور انہوں نے پشاور چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ ہنگل کی اگلی منزل کراچی تھی۔ کراچی میں ان کا استقبال ان کے برادرِ نسبتی نے کیا جس کی بیوی مسلمان تھی۔ ہنگل کے مطابق 1941 کے زمانے میں بھی کراچی ایک ماڈرن شہر تھا اور یہاں کے لوگوں کی عادت و اطوار مغربی انداز کی سی تھیں۔

ہنگل نے اپنی زندگی میں پہلی بار ٹراموں کو چلتے ہوئے کراچی میں ہی دیکھا۔ ابتداء میں ہنگل نے الفنسٹن اسٹریٹ (موجودہ زیب النساء اسٹریٹ) پر اپنی ذاتی ٹیلر شاپ کھول لی اور پھر انہوں نے اس شہر میں رہتے ہوئے ایک میوزک اور ڈرامہ کلب کی بھی بنیاد رکھی جو بہت جلد ہی شہر کا ایک مقبول کلب بن گیا جہاں بڑے غلام علی، چھوٹے غلام علی اور عاشق علی خان جیسے استاد گائیک بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے تشریف لائے تھے۔ البتہ ہنگل کا ذاتی کاروبار کامیاب نہ ہو سکا اور وہ اپنی ٹیلرنگ شاپ بند کرنے پر مجبور ہو گئے۔ جلد ہی آپ کو کپڑے اور ٹیلرنگ کی ایک مشہور دکان “ایسار داس اینڈ سنز” میں چیف کٹر ماسٹر کی ملازمت مل گئی۔ یہ دکان بھی الفنسٹن اسٹریٹ پر ہی واقع تھی۔ پشاور کے قیام کے دوران ہی وہ آل انڈیا نیشنل کانگریس کے پُرجوش کارکن بن گئے تھے لیکن کراچی آمد کے بعد سن 1941 میں انہوں نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا میں شمولیت اختیار کر لی۔ ہنگل نے محسوس کیا کہ شاپس اینڈ اسٹیبلشمنٹ ایکٹ کے باوجود ٹیلرنگ شاپس پر کام کرنے والے ملازمین کو ان کے حقوق نہیں دیے جا رہے اور ان کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ ہنگل نے اس صورتحال کے پیشِ نظر اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کراچی ٹیلرنگ ورکرز یونین قائم کر لی اور متفقہ طور پر اس کے صدر بھی منتخب ہو گئے۔ ان تمام سرگرمیوں کا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ ہنگل اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن ان کے دل و دماغ میں بغاوت اور انقلاب کا جو شعلہ بھڑک رہا تھا اس کی آنچ میں کوئی کمی نہیں آئی۔

18فروری 1946 کا دن بھی متحده ہندوستان کی جدوجہد آزادی کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے۔ اس دن بمبئی میں 1100 نیوی کے کارکنوں نے ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ نیوی کے ملازمین اچھا کھانا نہ ملنے، انگریز افسروں کے خراب رویے کے خلاف شروع کی جانے والی ہڑتال فوراََ ہی بغاوت میں تبدیل ہو گئی۔ کراچی، گجرات، کلکتہ، مدراس، احمد آباد، جبل پور، آسام اور دہلی میں بھی موجود جہازیوں اور فوجیوں نے بغاوت کا اعلان کر دیا۔ کراچی میں بغاوت کچلنے کی کاروائی کے دوران چھ جہازی مارے گئے اور تیس کے قریب زخمی ہو گئے۔ اگلے دن کراچی میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی مقامی شاخ نے ہڑتال کا اعلان کر دیا جس کی صدارت “اے کے ہنگل” کر رہے تھے۔ اُس وقت ہنگل کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی کراچی شاخ کے سیکرٹری جنرل تھے۔

اُس دن کراچی کی بندر روڈ جو اب “ایم۔اے جناح روڈ” کہلاتی ہے پر واقع “عید گاہ میدان” میں دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تیس ہزار سے زیادہ عوام اکھٹا ہو گئے۔ اس جگہ وہ ہڑتالی جہازی بھی جلوس کی شکل میں پہنچ گئے جنہوں نے منوڑا جزیرے پر لنگر انداز نیوی کے دو جہاز ایچ ایم ایس ہندوستان اور بہادر پر قبضہ کر لیا تھا۔ احتجاجی مظاہرین پر پولیس نے فائرنگ کر دی چونکہ ہنگل اس ہجوم کی قیادت کر رہے تھے اس لیے وہ بھی پولیس فائرنگ کی زد میں آگئے۔ اس وقت ہندوستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ اور کانگریس کے مخالفانہ رویے اور مزید جانی نقصان سے بچنے کے لیے یہ ہڑتال 22 فروری کو ختم کر دی گئی۔

1946 کا زمانہ ایک ایسا زمانہ تھا جب متحده ہندوستان آنے والا ہر ہوائی جہاز کراچی ایئرپورٹ پر ایندھن لینے کے لیے لازمی ٹہرتا تھا۔ عام طور پر ہوائی جہاز کے ٹہرنے کا دورانیہ تین سے چار گھنٹے پر مشتمل ہوتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ہوائی اڈوں پر کسی قسم کے سیکیورٹی خطرات نہیں ہوتے تھے اور ٹرانزٹ مسافروں سے اُن کے مقامی دوست احباب باآسانی ایئرپورٹ ٹرمینل پر ملاقات کر سکتے تھے۔

اس سہولت کا فائده اٹھاتے ہوئے ، ہنگل کراچی ایئرپورٹ پر کئی بین الاقوامی کمیونسٹ پارٹی کے عہدے داروں سے ملاقات کرتے رہے جس میں برطانیہ کی کمیونسٹ پارٹی کے وائس چیئرمین Rajni Palme Dutt، ساؤتھ افریقہ کے کمیونسٹ رہنما Dr Daadu اور Dr Panicker بھی شامل تھے۔ 1947 کا سال وہ پرآشوب دور ہے جب ہندوستان تقسیم ہو گیا۔ بارہ اگست 1947 کو ہنگل سے ملنے اُس کا ایک پرانا دوست آیا اور ہنگل کو بتایا کہ حکومتِ سندھ نے کراچی میں مجھے ایک عارضی ریڈیو اسٹیشن قائم کرنے کا کام سونپا ہے، میرے پاس صرف اڑتالیس گھنٹے ہیں۔ کیونکہ 14 اگست کو پاکستان کی یومِ آزادی پر ریڈیو اسٹیشن کو اپنی نشریات کا آغاز کرنا ہے۔ اس حوالے سے ہنگل سے اُس نے ایک ڈرامہ تیار کرنے کی درخواست کی۔ ہنگل نے اُس کی درخواست قبول کرتے ہوئے ایک ڈرامہ تیار کیا جو 14 اگست 1947 کو اُس عارضی ریڈیو اسٹیشن سے نشر ہوا۔

تقسیم کے ہنگاموں کے پیشِ نظر ہنگل کی سوچ میں بھی کافی تبدیلی آئی اور انہوں نے اپنے ابتدائی جوانی کے شوق “تھیٹر” کی جانب توجہ مركوز کرنی شروع کر دی۔ ان کا خیال تھا کہ سیاسی شعور اور روحانی قدروں کو ترویج دینے کے لیے تھیٹر ایک اچھا Medium بن سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے غیر منقسم ہندوستان میں ایک تنظیم Indian People’s Theater Association (IPTA) کے نام سے کام کر رہی تھی۔ دسمبر 1947 میں اس تنظیم کا سالانہ اجلاس احمد آباد میں ہو رہا تھا۔ یہ بڑا افراتفری کا زمانہ تھا۔ دو نئی مملکتوں (بھارت- پاکستان) کے درمیان کسی بھی قسم کا کوئی پرمٹ، پاسپورٹ یا سفری دستاویز رائج نہیں ہوئیں تھیں۔ اس لیے ہنگل نے اپنا چھوٹا سا سفری بیگ اٹھایا اور احمد آباد پہنچ گئے۔ وہاں پر ان کی ملاقات بلراج ساہنی، ڈاکٹر راجہ راؤ، کے۔اے۔عباس اور دینا پھاٹک جیسے ترقی پسند افراد سے ہوئی۔ ہنگل، احمد آباد کی اس کانفرنس سے فارغ ہو کر جب کراچی واپس آرہے تھے تو ان کا ذہن IPTA کی طرز پر PPTA “پاکستان پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن” قائم کرنے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ افسوس کہ اُن کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔

ہنگل جب کراچی کے لیے بذریعہ بحری جہاز ممبئی سے نکل رہے تھے تو انہیں اخبار کی سرخی سے پتہ چلا کہ کراچی میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے ہیں جس میں ان کا رہائشی علاقہ بھی شامل ہے۔ وہ جب بحری جہاز میں سوار ہوئے تو پورا جہاز پنجابی سپاہیوں سے بھرا ہوا تھا جو سنگاپور سے کراچی جانے کے لیے اس پر موجود تھے۔ وہ سب کے سب متحدہ ہندوستان کی فوج کے مسلمان سپاہی تھے جنہوں نے ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستان کو اپنے وطن کے طور پر منتخب کیا تھا۔ فوجی سپاہیوں سے بھرے ہوئے اُس جہاز میں ہنگل کے علاوہ سب ہی مسلمان تھے۔ اگرچہ کمیونسٹ خیالات کی بنا پر ان کے لیے یہ چیزیں کوئی معنی نہیں رکھتیں تھیں لیکن تقسیم کی وجہ سے ہر سُو مذہبی منافرت کی آگ پھیل چکی تھی۔ یہ سپاہی پنجاب میں رہنے والے اپنے رشتے داروں کی ہلاکتوں کے بارے میں پہلے ہی سُن چکے تھے اور جذبات میں آکر کوئی بھی قدم اٹھا سکتے تھے۔ اس لیے جہاز کے کپتان نے موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے ہنگل کو تاکید کی کہ وہ اپنے آپ کو بیمار ظاہر کریں اور جہاز میں بنائے گئے ہسپتال کے بستر پر دورانِ سفر لیٹے رہیں اور کسی سے کوئی بھی بات نہ کریں۔

انہوں نے ایسا ہی کیا۔ کراچی کی بندرگاہ پر پہنچ کر ہنگل کمیونسٹ پارٹی کے دفتر کی جانب چل پڑے۔ راستے میں ایک پارٹی ورکر سے اُن کی ملاقات ہو گئی جس نے خوش خبری سنائی کہ ان کا خاندان محفوظ ہے۔ یہ سُن کر انہوں نے اپنا ارادہ بدل لیا اور گھر کی جانب روانہ ہو گئے۔ گھر کے راستے کے درمیان ہی ان کا قائم کردہ میوزیکل کلب بھی واقع تھا۔ انہوں نے دیکھا کہ میوزیکل کلب کا مرکزی دروازہ کھلا ہوا ہے۔ کلب کے اندر کا منظر دیکھ کر وہ ششدر رہ گئے۔ وہ جگہ پہچاننے میں ہی نہیں آرہی تھی۔ اندر کچھ مہاجر خاندانوں نے پناہ لی ہوئی تھی. موسیقی کے تمام آلات اور فرنیچر غائب تھا۔ صرف ایک تصویر لٹکی رہ گئی تھی جس میں ہنگل کا مسکراتا ہوا چہرہ نظر آرہا تھا۔ یہ سب کچھ اُن کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ وہ کسی سے کوئی بات کیے بغیر الٹے پاؤں واپس باہر نکل گئے اور بوجھل قدموں سے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔ گھر پہنچ کر اپنے بیوی بچوں سے ملنے کے بعد ان کے اضطراب میں کمی آئی۔ جلد ہی مقامی حکومت کی مدد سے کراچی کے حالات معمول پر آگئے۔
ہندوستان کے بٹوارے کے بعد “کمیونسٹ پارٹی” بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اور “کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان” وجود میں آئی جس کے پہلے سیکرٹری جنرل مشہور دانشور و ترقی پسند رہنما سجاد ظہیر بنائے گئے۔ تحریکِ آزادی کے ابتدائی دنوں میں “کمیونسٹ پارٹی” پاکستان کی حمایت کر رہی تھی لیکن 1947 میں دو مملکتوں کے قیام کے بعد پارٹی نے اپنا نکتہ نظر بدل لیا اور یہ نظریہ دیا کہ یہ دونوں مُلک آزاد نہیں ہوئے بلکہ مقامی استعماری قوتوں کے قبضے میں آگئے ہیں اور یہاں پر ایک اصل انقلاب لانے کی ضرورت ہے۔ پارٹی کے اس نئے نظریے سے نوزائیدہ مملکت پاکستان کے حکمراں نہایت خائف ہو گئے اور حکومت نے کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو بے دریغ گرفتار کرنا شروع کر دیا۔ ہنگل کو بھی چار دوسرے ساتھیوں سمیت گرفتار کر کے کراچی سینٹرل جیل میں قید کر دیا گیا اور پھر کچھ مدت بعد انہیں صوبہ سندھ کے دوسرے شہر حیدر آباد کی جیل میں بھیج دیا گیا۔ حیدرآباد جیل میں ان کی ملاقات “خدائی خدمت گار” کے رہنما “خان عبدالغفار خان” کے بڑے بیٹے “غنی خان” سے ہوئی۔ غنی خان نے ان سے کہا کہ تم پاکستان میں کیوں رہ رہے ہو۔ یہاں تمہارا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ تم ہندوستان چلے جاؤ۔ حکومتِ پاکستان تمہیں فوراً  رہا کر دے گی۔ لیکن ہنگل نے دلی طور پر پاکستان کو ہی اپنا وطن تسلیم کر لیا تھا۔ انہوں نے بڑے جذباتی انداز میں غنی خان کو جواب دیا کہ آپ اور آپ کی پارٹی کا بھی یہاں کوئی مستقبل نہیں ہے تو آپ یہاں پر کیوں رُکے ہوئے ہیں۔ اس بات پر غنی خان نے انہیں گوش گزار کیا کہ حالات کچھ بھی ہوں مگر میں اپنے پٹھان بھائیوں کو نہیں چھوڑ سکتا لیکن اب تمہارا یہاں کون ہے۔ غنی خان سے یہ ان کی پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ حیدرآباد کی جیل میں قید کی کچھ مدت کاٹنے کے بعد ان کو واپس کراچی سینٹرل جیل میں بھیج دیا گیا اور یہاں ایک ایک کر کے سیاسی قیدی رہا کیے جانے لگے۔ صرف ہنگل اور سوبھوگیان چندانی کو قید سے رہائی نہ مل سکی۔ ہنگل اور سوبھوگیان چندانی نے مشترکہ طور پر اپنی رہائی کی درخواست سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو بھیجی۔ ان دونوں کے وکیل شیخ ایاز تھے جو اُس وقت بچیس برس کے تھے۔ آنے والے وقتوں میں شیخ ایاز سندھی زبان کے مشہور انقلابی شاعر و ادیب کی حیثیت سے ابھرے۔ انہوں نے اردو زبان میں بھی لکھا اور سندھ یونیورسٹی جامشورو کے وائس چانسلر بھی رہے۔ ہنگل اور سوبھو گیان کے مقدمے کی سماعت کے بعد شیخ ایاز نے ہنگل کو مشورہ دیا کہ آپ کے لیے یہی بہتر ہے کہ آپ مستقل طور پر بمبئی سکونت اختیار کر لیں۔ سوبھو کی رائے بھی یہی تھی۔ ہنگل نے ان کی ہدایت اور رائے کے مطابق اعلیٰ حکام کو بمبئی جانے کی درخواست دے دی۔ چند ہی دنوں بعد ان کو کراچی کے ایڈمنسٹریٹر کے سامنے پیش کیا گیا اور انہیں پاکستان چھوڑنے کے لیے صرف بارہ گھنٹے کی مہلت دی گئی۔ ہنگل نے اگلی صبح ہی رختِ سفر باندھ لیا اور بحری جہاز کے ذریعے نومبر 1949 میں دیوالی کے تہوار کے دنوں میں وہ اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ بمبئی پہنچ گئے۔

ہندوستان میں بھی کمیونسٹ پارٹی کے حالات اچھے نہیں تھے اور سرکردہ رہنماؤں کو گرفتار کیا جا چکا تھا۔ کمیونسٹ پارٹی زیرِ زمین رہ کر ہی کام کر رہی تھی۔ ہنگل نے کمیونسٹ پارٹی کی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا اور وہ IPTA کے پلیٹ فارم پر بھی سرگرم عمل ہو گئے بلکہ تھیٹر کی سرگرمیاں ان کی زندگی کے لیے معاشی سہارا بن گئیں۔ دوسرا معاشی سہارا ان کو بمبئی کی ایک مشہور ٹیلرنگ دکان میں کٹر ماسٹر کے طور پر بھی کام مل گیا اور پھر قلیل عرصے کے دوران ہی انہوں نے بمبئی کی پہلی “ٹیلرنگ ورکرز یونین” کی بنیاد بھی ڈال دی۔ ان ہی دنوں ہندوستان میں “گوا” کو آزاد کروانے کی تحریک چل پڑی جو ابھی تک پُرتگیزیوں کے قبضے میں تھا۔ اس سلسلے میں مقامی حکومت سے بغیر اجازت لیے بمبئی میں ایک جلوس نکالا جا رہا تھا۔ پولیس نے جلوس کے شرکاء کو منتشر ہونے کا حکم دیا جس سے صورتحال بگڑ گئی اور پولیس نے گولی چلا دی۔ ہنگل بھی گولی لگنے سے زخمی ہو گئے۔ خوش قسمتی سے ان کو فوری طور پر ہسپتال پہنچا دیا گیا اور بروقت علاج ہونے کی وجہ سے ان کی جان بچ گئی۔ ہنگل تیسری دفعہ موت کے منہ سے باہر آئے تھے۔ پہلی دفعہ قصہ خوانی بازار پشاور میں، دوسری دفعہ عید گاہ میدان کراچی میں اور تیسری دفعہ بمبئی میں۔
ہنگل کی اگلی منزل اب فلمی دنیا تھی۔

1965 کا سال ان کے لیے فلمی دنیا میں داخل ہونے کا سال ثابت ہوا۔ حالانکہ فلموں میں کام کرنے کا فیصلہ اور کوشش انہوں نے بہت دیر سے کی تھی لیکن بہت جلد اس میدان میں بھی انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔ ان کے ادا کیے ہوئے کچھ کردار فلم بینوں کے دلوں پر ہمیشہ کے لیے انمٹ نقوش چھوڑ گئے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ لگ بھگ دو سو پچیس ہندی فلموں میں مختلف کردار ادا کرنے والے ہنگل روانی سے ہندی لکھنا اور پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ کیونکہ ان کے طالب علمی کا زمانہ موجودہ پاکستان میں گزرا تھا۔ اس لیے ان کے فلمی کرداروں کا اسکرپٹ خاص طور پر “اردو” کے “رسم الخط” میں لکھا جاتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہنگل نے فلموں میں جتنے بھی کردار ادا کیے وہ سب منفرد تھے لیکن ان کو لازوال شہرت فلم “شعلے” کے “امام صاحب رحیم چاچا” کے کردار سے ملی۔ فلم “شعلے” میں ادا کردہ ان کا مکالمہ “اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی” ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک ضرب المثل بن گیا۔
پاکستان سے بے دخل کیے جانے والے ہنگل نے ہندوستان پہنچ کر وہیں کی شہریت اختیار کر لی تھی۔ اب یہی ان کا وطن تھا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ فن سے متعلق مختلف شعبوں میں بے انتہا محنت کر کے کارہائے نمایاں انجام دینے کے باوجود نوّے کی دہائی میں جب انہیں پاکستان سے بے دخل ہوئے چالیس برس سے زائد کا عرصہ بیت چکا تھا تو شیو سینا کے متعصب رہنما بال ٹھاکرے نے پاکستانی قونصلیٹ میں یومِ آزادی کی تقریب میں شریک ہونے کی پاداش میں انہیں نہ صرف غدار قرار دے دیا    بلکہ ان کے اوپر روزگار کے مواقعے بھی بند کر دیے گئے تھے۔
انہوں نے بال ٹھاکرے کی طرف سے الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ
“میں اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑ کر کراچی سے بھارت آیا تھا لیکن پھر بھی مجھے پاکستانی بنا دیا گیا”۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply