نفسیاتی بلاتکار۔۔تنویر سجیل

عنوان دیکھ کر چونک گئے نا؟

کہ یہ کیساعجیب سا عنوان ہے  اور جانے کس قسم   کی تحریر اس عنوان کے سائے تلے دبی ہو  گی ۔مگر یقین کیجئے اس سے بہتر عنوان اس مضمون کے لیے شاید اور کوئی نہ ہو گا۔کیونکہ کچھ معاملات ایسے ہیں جن کو جتنا بھی بدبودار نام دے لیں مگر ان کی سرانڈ  جاتی ہی نہیں۔ ان کی بھڑاس میں ایسے دم گھٹتا ہے کہ جیون کی سانس مشکل ہو جاتی ہے اور دل چاہتا ہے کہ اس گھٹن کا کوئی حل کیا جائے اور اگر جان کا نذرانہ پیش کرنے سے جان چھوٹ سکتی ہے تو اس سے  سستا سودا کیا ہو گا ۔

بلاتکار کے لفظ سے تو سب ہی واقف ہوں گے کہ یہ ایک ایسا گھناؤنا فعل ہے کہ کوئی بھی فرد اس جبر کو سہنے کی ہمت نہیں کر  سکتا ،اس فعل سے ہونے والی آبروریزی کو کو ئی بھی گلے نہیں لگانا چاہتا اور نہ ہی کوئی ہنسی خوشی  یا مجبوری میں کسی کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ  ہاں میں تیار ہوں ،ڈھا لیجیے  ظلم  اور کر لیجیے اپنی ہوس کو شانت  کہ اسی میں  ہی میری بھلائی ہے۔

ہر کوئی اس فعل سے بچنے اور  محفوط رہنے کی بھرپور کوشش کرتا اور کبھی  بھی کسی کو اس فعل کی اجازت  نہیں دے سکتا  اور نہ ہی کسی میں اتنی ہمت اور طاقت ہوتی ہے کہ وہ اس فعل کے لیے اپنی رضا مندی سے راضی ہو جائے  مگر پھر بھی بہت سے لوگ اس مکروہ فعل کی  بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور ان کو علم بھی نہیں ہوتا کہ وہ اس جبر کا شکار ہے  اور پھر عمر بھر  اس گھاؤ کی تکلیف میں گھٹ گھٹ کر مرتے رہتے ہیں۔

بلاتکار کا  لفظ عام طور پر صرف جنسی زیادتی ،  بدفعلی  یا تشدد کے نام سے جانا جاتا ہے اگرچہ اس عمل میں بھی چوٹ نفسیاتی، جذباتی  اور سماجی  لحاظ سے بہت گہری ہوتی  مگر پھر بھی بلاتکار کو صرف جنسی  طور پر  کیے گئے ظلم کے ساتھ جوڑا جاتا ہے جس کی پریکٹیکل سطح جسم کی حد تک ہی محدودہوتی ہے ۔ البتہ  نفسیاتی بلاتکار کا مطلب جسم  کی سطح  پر کیے گئے ظلم سے  نہیں ہے ،اس کا مفہوم جسم کے ظلم سے بھی زیادہ گہرا ہے ،یہ وہ ظلم ہے جو انسان کی نفسیات ، جذبات اور ذہن پر کیا جاتا ہے جس کے نشان  اور نشاندہی بہت مشکل سے نظر آتی ہے جس کی تکلیف کی گھٹن سے انسان نہ تو مر پاتا ہے اور نہ جی پاتا ہے بےبسی کی ایسی مورت بن جاتا ہے جس کو زندگی کی دلنشینی بھی اپنی طرف راغب نہیں کر پاتی۔

تشدد یا  زیادتی صرف جنسی نہیں ہوتی یہ جسمانی، نفسیاتی اور جذباتی بھی ہو تی ہے جو کہ جنسی زیادتی کےمقابلے میں کثرت سے پائی جاتی ہے جنسی زیادتی  کے شماریاتی اعداد پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ دنیا کی آبادی کے لحاظ سے اس کا تناسب آٹے میں نمک کے  برابر  ہے جبکہ نفسیاتی زیادتی کا  شمار کریں تو آٹے میں نمک والا معاملہ اُلٹا پڑ جائے ۔ جس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اکثریت نفسیاتی  بلاتکار کا شکار لوگوں کو اس  بات کی خبر ہی نہیں ہو پاتی کہ وہ اس بربریت کے عمل میں سانس لے رہے ہیں  ،ان کی یہ نا واقفیت ، بے خبری یا  اس کو بتا سکنےکی ہمت نہ ہونے کے سبب اعداد و شمار طول پکڑ  لیتے ہیں ۔ نفسیاتی بلاتکاری  سے لاعلمی کا یہ حال ہے کہ کسی کو جب یہ  باور کروایا جائے  کہ اس کا نفسیاتی  یا  جذباتی  سطح پر استحصال ہو رہا ہے،تو جواباً یہ کہہ دیتے ہیں آپ کو ہی کوئی غلط فہمی ہوئی ہے  ورنہ تو ان کو ہر طرح سے بہتر برتاؤ مل رہا ہے ۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلسل کافی عرصے تک نفسیاتی بلاتکار کا شکار رہنے سے ان کی ذہنی حالت اس حد تک بدل چکی ہوتی ہے کہ وہ اپنے اوپر تشدد کرنے والے کو بھی پیار کرنے لگ جاتے ہیں ان کو اپنی تذلیل ، استحصال  اور تکلیف سے لذت ملنی شروع ہو جاتی ہے اور یہ لذت ان کو اپنی  اصل کیفیت کو سمجھنے میں مدد نہیں کرتی  ان کے سوچ سمجھ کے نظام  کو اتنا بگاڑ دیتی ہے کہ ان کےادراک کو کمزور  کر دیتی ہے  اور وہ ہر طرح کے نفسیاتی بالاتکار کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے وکالت پر اُتر آتے ہیں ۔ کیونکہ نفسیاتی بلاتکار کرنے والا فرد اتنا زیرک اور چالاک ہوتا ہے کہ وہ اپنے ظلم کا ایسا جال بنتا ہے کہ اس کے  ذاتی کردار  کو عزت و توقیر سے دیکھا جاتا ہے اور اس کا رتبہ اتنا بلند ہو چکا ہوتا ہے کہ تشدد کا شکار فرد اس کے پھیلائے ہوئے جال کے جادو سے کبھی باہر نہیں نکل پاتا ۔

لا چارگی کی یہ صورت نفسیاتی بلاتکار کرنے والے کا حوصلہ بڑھا دیتی ہے اسے مزید نئے ستم ایجاد  کرنے پر اُکساتی ہے اور پھر ظلم کا یہ دائرہ اتنا وسیع ہو جاتا ہے کہ اس سے چھٹکارے کی کرن ظلم کی دھند میں کہیں گم ہو کر رہ جاتی ہے ۔ ایسے افراد بہت کم ہوتے ہیں  جو اس ظلم کی دھند کے پار دیکھ پائیں  اور ایسی کوئی تدبیر یا کوشش کرنے کی ہمت کر پاتے ہیں کہ یا تو اس ظلم کو روک سکیں یا پھر اس سے کسی طور فرار حاصل کر سکیں ۔

دوسری طرف  ایسے ظلم کو روکنے کے لیے درکار  ہمت ، طاقت اور وسائل سب کو  میسر نہیں ہو پاتے کہ جن کو استعمال کر کے وہ اس بلاتکار ی  مہم سے نجات حاصل کر سکیں ۔ البتہ فرار کی راہ کی صورت میں چھٹکارا حاصل کرنے کی  جسارت زیادہ  ہوتی ہے  کیونکہ فرار حاصل کرنے کے چکر میں فرد یاتو اپنی جان بچا کر اس ظالم کے تعلق  کے  دائرے سے بھاگ نکلتا ہے یا پھر  اپنی جان دے کر یا دوسرے کی جان لے کر ظلم کی اس کہانی کو آخری موڑ دے دیتا ہے ۔

نفسیاتی بلاتکار کا کیا نام رکھیں  ؟  سائیکالوجیکل ابیوز، جذباتی استحصال یا پھر ایسی درندگی جو صرف انسان اک جانور بن کردوسرے انسان سے  کرتا  ہے جس کا مقصد صرف اپنی ذات کی برتری تسلیم کروانا نہیں ہو تا بلکہ گھٹن کی ایسی فضا وقائم کرنا ہوتا ہے  جس میں بلاتکار کا شکار فر داپنے تمام انسانی ،  نفسیاتی، جذباتی حقوق سے دستبرداری  اختیار کر تے ہو ئے نفسیاتی بلاتکا ر کرنے والے کی  انانیت کے پاؤں پر سر رکھ کر زندگی کی بھیک مانگنے کی مسلسل  تگ ودو کرتا رہے اور اس کی وحشی جنونیت کو اپنی خاموشی سے تکریم بخشتا رہے۔

حوانیت کے اس کھیل کے  کرب   کی لکیریں جسم پر دکھائی نہیں دیتی، بلکہ یہ  کھیل بلاتکار کے شکار فرد کی ذہنی حالت کو اتنا بگاڑ دیتا ہے کہ وہ اس زیادتی کو ظلم ہی نہیں سمجھتا  اور ایسا عام طور پر ممکن نہیں  کہ ہر فرد ہی نفسیاتی بلاتکار کرنے والے کو سمجھ سکے اور ان کی نشاندہی کر سکے کیونکہ نفسیاتی بلاتکار کرنے والے کی شخصیت اتنی پیچیدہ ہوتی ہے کہ اس کو سمجھنے کےلیے نفسیات کے علم میں مہارت  درکار ہوتی  ہے جو کہ ہر شخص کے پاس نہیں ہوتی ۔

ایسے افراد جو بچپن میں کسی ظلم و جبر ،  احساس کمتری  یا پھر جذباتی استحصال کا شکار رہےہوں  تو ان کی شخصیت میں ایک ایسا غیر متوازن خلا آجاتا ہے جس کو ختم کرنے کے لیے ان کو نرگسیت کے ایسے دورے پڑتے ہیں کہ وہ کسی بھی فرد خصوصاً فیملی ممبرز کے ساتھ  نفسیاتی تشدد  کا بازار گرم کر کے اپنی ذات کی تسکین کرنا شروع  کر دیتے ہیں ان کے ظلم کے شکار  افراد بھی اکثر وہی لوگ ہوتے ہیں جو بے خبری میں ان کے ظلم کو رضا مندی سے قبول کر لیتے ہیں۔

جن کے پاس ایسی کوئی عقلی دلیل نہیں ہوتی کہ وہ اس بلاتکار کی پہچان کر سکیں اور تقدس میں لپٹی اس شخصیت کے خلاف آواز  بلند کر  کے  خود کو اس ظلم سے رہائی دلا سکیں  کیونکہ نفسیاتی بلاتکار  کرنے والا فرد کوئی اور نہیں  ہوتا  بلکہ وہ گھر کی چار دیواری میں ساتھ رہنے والا  فردہوتا ہے وہ کوئی بھی رشتہ ہو سکتا  ہے جیسا کہ باپ، بھائی ، بیٹا، ماں بہن ، بیوی  ،خاوند  یا سسرالی رشتہ دار ۔ یہ ضروری نہیں کہ مرد ہے تو نفسیاتی بلاتکار کرے گا بلکہ ایک عورت بھی اتنی ہی خطرناک ہو سکتی ہے نفسیاتی استحصال کرنے والا کا ظلم اس کی شخصیت کی نرگسیت میں چھپا ہوتا ہے اور وہ جنس کے امتیاز سے بالا تر ہوتا ہے
زندگی میں  جب کبھی محسوس ہو کہ کوئی آ پ کو انسانی رویوں کے اظہار کی مکمل آزادی نہیں دے رہا  ،  اپنی انا  کی برتری کے لیے  آپ کے جذبات کو مسلسل نظر انداز کر رہا ہے  اور زندگی  کے سکون کے لیے ترساتے ہوئے  اپنی ہی خواہشات کی تکمیل کو اپنا معمول بنا یا  ہوا ہے  تو سمجھ لیجیے کہ آپ نفسیاتی بلاتکار کا شکار ہو رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جس سے رہائی     کے لیے خود سے کوشش کریں ، خاندان کے دوسرے افراد سے مدد لیں  یا پھر کسی ماہرنفسیات سے رجوع کریں تاکہ آپ  اپنی زندگی بھرپور طریقے سے اور مکمل خوشی سے جی سکیں۔

Facebook Comments

Tanvir Sajeel
تنویر سجیل ماہر نفسیات حویلی لکھا (اوکاڑہ)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply