کِیپ لرننگ(Keep Learning)۔۔جاوید چوہدری

ہمارے ہاسٹل میں دو سو لڑکے تھے، ہم میں سے کچھ ریاضی کے ساتھ ایف ایس سی کر رہے تھے، کچھ بائیالوجی کے ساتھ، کچھ اکنامکس پڑھ رہے تھے اور کچھ سمپل ایف اے کر رہے تھے، ہم سب اکٹھے رہتے تھے لیکن ہماری سرگرمیوں میں بہت فرق تھا۔

ہم میں سے کچھ لوگ اسپورٹس کرتے تھے، وہ دوڑ لگاتے تھے، والی بال، کرکٹ یا ہاکی کھیلتے تھے یا بیڈمنٹن کے کھلاڑی تھے، ہم میں سے کچھ گانا گاتے تھے، کچھ اداکاری، مصوری اور شاعری کرتے تھے اور کچھ ایسے بھی تھے جو کچھ بھی نہیں کرتے تھے، ہم میں سے بعض بے انتہا محنتی تھے، وہ کوہلو کے بیل کی طرح دن رات پڑھتے رہتے تھے، کچھ ایوریج تھے، تھوڑا پڑھ لیا اور تھوڑا گھوم پھر لیا اور کچھ میرے جیسے تھے بلا کے سست، بے زار اور زیرو انٹرسٹڈ، یہ صرف ایک کام کرتے تھے، یہ کوئی کام نہیں کرتے تھے، یہ پڑھتے تھے، اسپورٹس کرتے تھے اور نہ ہی کس ادبی سرگرمی میں حصہ لیتے تھے۔

یہ بس جانوروں جیسی زندگی گزارتے تھے، سوئے، اٹھے، کھانا کھایا، گپیں لگائیں، فلمیں دیکھیں، سگریٹ پیے اور والدین سے کتابوں، کپڑوں، میس اور کبھی فیس کے نام پر پیسے اینٹھ لیے، میں آج پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے وہ ہاسٹل ایک پوری کیس اسٹڈی محسوس ہوتا ہے، وہ ایک نرسری تھی جس میں مختلف قسم کی پنیریاں لگ رہی تھیں اور وہ پنیریاں آگے چل کر پھل پھول کر فصلیں بن گئیں۔ آپ نے یہ فقرہ ہزار بار سنا ہو گا “جو بوئو گے وہی کاٹوگے” میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے یہ فقرہ ادھورا محسوس ہوتا ہے، ہم جس طرح ایک بیج بو کر ہزار دانے یا ڈنڈل کاٹتے ہیں بالکل اسی طرح ہمیں زندگی میں ایک غلط یا صحیح فیصلے کا پھل بھی ہزار مرتبہ کاٹنا پڑتا ہے۔

ایک بیج بو کر ایک بیج کاٹنا ہو تو یہ ہرگز ہرگز کوئی برا سودا نہیں ہوگا، زندگی بھی کیوں کہ کھیت کی طرح ہوتی ہے لہٰذا یہاں ایک بو کر ہزار اور بعض اوقات ہزار ہزار مرتبہ کاٹنا پڑتا ہے، وہ ہاسٹل بھی ایک ایسی ہی نرسری تھا، اس میں مختلف قسم کی پنیریاں لگیں اور پھر وہ پنیریاں فصل بن کر لہرانے لگیں اور اس کھیت کو ہزاروں مرتبہ کاٹا گیا۔

زندگی کا سفر جاری رہا، ہم میں سے جو ریاضی پڑھ رہے تھے وہ انجینئر بن گئے، بائیالوجی کے طالب علم ڈاکٹر، بی فارمسٹ اور پروفیسر بن گئے، آرٹس مضامین کے طالب علم بھی اپنے اپنے شعبوں میں ایڈجسٹ ہوتے چلے گئے، ان میں سے کچھ وکیل بن گئے، کچھ جج ہو گئے اور کچھ مقابلے کا امتحان دے کر سول سرونٹ ہو گئے، ہم میں سے جس کو محنت کی عادت تھی وہ اپنے شعبے میں زیادہ کام یاب ہو گیا، جو جگاڑیے تھے وہ ملک سے باہر چلے گئے، کاروبار میں آ گئے یا سیاست میں چلے گئے اور جو زیرو انٹرسٹڈ لوگ تھے وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے، وہ مجرم بھی بنے، ان کے گھر بھی ٹوٹے، وہ بار بار دیوالیہ بھی ہوئے، وہ جوانی میں جلد بیمار بھی ہوئے اور وہ زندگی میں گرتے اور تڑپتے بھی رہے۔

میں بھی ان میں سے ایک تھا لیکن مجھ پر اﷲ نے کرم کر دیا، میں گرتا پڑتا ایم اے تک پہنچ گیا اور اﷲ تعالیٰ نے مجھے ایک دن محنت کا نروان دے دیا، اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا “کاکا زمین پر سروائیو کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے محنت، بس لگے رہو تم منزل پر پہنچ ہی جائو گے” میں نے سرتوڑ محنت شروع کی تو پتا چلا محنت کے ساتھ تکنیک بھی ضروری ہوتی ہے، آپ جب تک تکنیک کے ساتھ کام نہیں کرتے آپ اس وقت تک پراگریس نہیں کرتے۔

اب اگلا سوال تھا تکنیک تک کیسے پہنچا جائے؟ پتا چلا یہ لرننگ کے بغیر ممکن نہیں، آپ جب تک اپنے اندر لرننگ کی صلاحیت پیدا نہیں کرتے، آپ اس وقت تک تکنیک تک نہیں پہنچتے، اب سوال یہ تھا لرننگ کیسے ہوتی ہے؟ پتا چلایہ ٹریننگ کی بائی پراڈکٹ ہوتی ہے، یہ (ٹریننگ) لرننگ کا تیسرا اور آخری درجہ ہوتا ہے، پہلی منزل ٹاکنگ ہوتی ہے، لوگ آپ کو بتاتے ہیں، دوسری منزل ٹیچنگ ہوتی ہے، لوگ آپ کو صرف وہ بتاتے ہیں جس کی آپ کو ضرورت ہوتی ہے اور آپ پھر اس کے بعد تیسری منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔

آپ نے جو سیکھا آپ اس پر عمل شروع کر دیتے ہیں اور یہ ٹریننگ کہلاتی ہے لہٰذا آپ جب تک ٹریننگ نہیں لیتے آپ لرن نہیں کرتے اور آپ جب تک لرن نہیں کرتے آپ کو اس وقت تک تکنیک نہیں آتی اور آپ کو جب تک تکنیک نہیں آتی آپ اس وقت تک زیادہ کام یاب نہیں ہو سکتے، گدھا محنت کے ذریعے اچھا گدھا ضرور بن جاتا ہے لیکن اگر وہ گھوڑا بننا چاہتا ہے تو پھر اسے گھوڑوں کی تکنیکس سیکھنی ہوں گی، اس وقت اس کا ڈی این اے بدلنے لگے گا، گلی کے کتے اور پالتو کتے میں بھی یہی فرق ہوتا ہے، ہم پالتو کتے کو اپنے ساتھ گھر میں رکھتے ہیں، کیوں؟ اس لیے کہ یہ ہمارے ساتھ رہنے کی تکنیکس سیکھ جاتا ہے جب کہ گلی کا کتا ٹریننگ کی کمی کی وجہ سے گلیوں میں رل کر مر جاتا ہے۔

مجھے جب یہ نقطہ سمجھ آیا تو میں ٹریننگز کے پیچھے پڑ گیا، مجھے جو نہیں آتا تھا میں اس کا کورس کر لیتا تھا، اس کی ٹیوشن رکھ لیتا تھا یا پھر کسی ایکسپرٹ کے ساتھ روزانہ بیٹھ جاتا تھا اور یوں وہ سیکھ لیتا تھا، آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو میں نے دیوان غالب پڑھنے کے لیے باقاعدہ ٹیوشن رکھی تھی، میں روز حافظ صاحب کے پاس جاتا تھا اور ان سے روزانہ ایک غزل پڑھتا اور سمجھتا تھا بالکل اسی طرح میں نے الکیمسٹ بھی ٹیوشن رکھ کر پڑھا۔

میں نے اسی طرح جب سیلف ہیلپ یا لائف کوچنگ کے شعبے میں آنے کا فیصلہ کیا تو میں امریکا اور انگلینڈ سے بڑے ٹرینرز کے کورس خرید کر لاتا تھا، وہ کیسٹوں کا دور تھا، جم رون ہو، کرس گارڈنر ہو، جیک کین فیلڈ ہو یا پھر برین ٹریسی ہو، ان سب کی تقریریں اور کورس کیسٹوں میں ملتے تھے، میں یہ کیسٹیں خریدتا تھا اور سارا سارا دن سنتا رہتا تھا، گاڑی میں بھی یہ کیسٹیں چلتی رہتی تھیں، زندگی نے موقع دیا اور مجھے جب پریکٹیکلی کورسز کے وسائل دستیاب ہوئے تو میں نے اس سہولت کا بھی جی بھر کر فائدہ اٹھایا، آج دنیا بدل چکی ہے، اب کسی بھی کورس کے لیے گھر اور ملک سے باہر جانے کی ضرورت نہیں۔

آپ نیو کلیئر ٹیکنالوجی تک آن لائین سیکھ سکتے ہیں لہٰذا میں جی بھر کر اس موقع کا فائدہ بھی اٹھاتا ہوں۔ میرے پرانے دوست، کلاس فیلوز اور ہاسٹل میٹس میرے سیکھنے کے اس جنون پر حیران ہوتے ہیں، یہ سمجھنے سے قاصر ہیں اسکول، کالج اور یونیورسٹی کا نالائق اور نکما ترین شخص عملی زندگی میں کیسے آگے بڑھ گیا؟ یہ جب بھی ملتے ہیں، یہ پوچھتے ہیں “یار بغلول تم نے کیا کیا تھا، تم کیسے بدل گئے، تمہیں مٹیریل (Material) اور میٹرنل (Maternal) کا فرق پتا نہیں ہوتا تھا، حبیب بینک کو جیب بینک پڑھتے تھے اور یونیورسٹی میں بھی سر پر تیل لگاتے تھے، تم نے اپنے آپ کو کیسے بدل لیا؟ “۔

میں ہنس کر جواب دیتا ہوں “یہ سب اﷲ کا کرم ہے، اس نے میراہاتھ پکڑا اور مجھے بتایا دنیا کا ہر راز انسانی دماغ میں ہے، انسان دماغ سے انجینئر، دماغ سے ڈاکٹر، دماغ سے فوجی، دماغ سے بیوروکریٹ، دماغ سے بینکر، دماغ سے بزنس مین اور دماغ سے بھکاری ہوتا ہے، انسان کا دماغ ہارڈ ویئر ہے، تم اس میں جو بھی سافٹ ویئر اپ لوڈ کر دو گے یہ تمہیں و یسا بنا دے گا” یہ قہقہہ لگا کر کہتے ہیں، یار بغلول تم ایک بار پھر بغلول پن کی بات کر رہے ہو” میں ان سے عرض کرتا ہوں “فرض کریں آپ انجینئر ہیں اورآپ ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں تو آپ کیا کریں گے؟

آپ ظاہر ہے ڈاکٹری پڑھیں گے، گویا آپ انجینئرنگ کا سافٹ ویئر نکال کر وہاں ڈاکٹری کا سافٹ ویئر اپ لوڈ کر دیں گے اور آپ چند برسوں میں پل بنانے کے بجائے مریضوں کا علاج یا سرجری کر رہے ہوں گے، آپ اگر اس کے بعد یہ سوچتے ہیں مجھے بزنس کرنا چاہیے تو آپ کیا کریں گے؟ آپ ڈاکٹری کے سافٹ ویئر کو بزنس کے سافٹ ویئر سے “ری پلیس” کر دیں گے اور یوں آپ چند برسوں میں بزنس مین بن جائیں گے اور آپ اب اگرا سپورٹس مین بننا چاہتے ہیں تو آپ اپنے مائینڈ میں اسپورٹس کی ایپلی کیشن اپ لوڈ کریں گے اور آپ کے لیے اسپورٹس، ویل نیس اور فٹ نس بھی آسان ہو جائے گی۔

چناں چہ انسان کا سب سے بڑا اثاثہ اس کا ذہن، اس کا دماغ ہے، یہ اگر کام کر رہا ہے اور آپ اگر نالائق ہیں تو اپنی نالائقی کے سافٹ ویئر کو ذہانت کے سافٹ ویئر سے تبدیل کر دیں، سست ہیں تو سستی کو نکال کر محنت کا سافٹ ویئر فٹ کر لیں اور آپ اگر بیمار ہیں تو اﷲ کا نام لیں اور اپنے دماغ میں صحت کا سافٹ ویئر اپ لوڈ کر دیں، آپ کی پوری شخصیت بدل جائے گی، انسان کا دماغ ایک عجیب دنیا ہے، ہم اس میں اسلام ڈالتے ہیں تو یہ مسلمان ہو جاتا ہے، عیسائیت ڈالتے ہیں تو یہ عیسائی، یہودیت ڈالتے ہیں تو یہ یہودی، بودھ ازم ڈالتے ہیں تو یہ بودھ اور ہم اگر اسے سنی بنا لیتے ہیں تو یہ سنی اور اگر اسے شیعہ بناتے ہیں تو یہ شیعہ بن جاتا ہے، یہ سب سافٹ ویئرز ہیں اور یہ سافٹ ویئرز ہماری شخصیت بناتے اور بگاڑتے ہیں “۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرے دوست مجھ سے اتفاق نہیں کرتے لیکن میں آپ کو ایک نسخہ کیمیا بتا دیتا ہوں، لرننگ از ارننگ، آپ جو سیکھیں گے وہ کاٹیں گے، وہی کمائیں گے، یہ لرننگ ہے جو اگلی سیٹ پر بیٹھے شخص کو ڈرائیور اور پچھلی سیٹ والے کو سیٹھ بناتی ہے لہٰذا کیِپ لرننگ، دنیا کی کوئی رکاوٹ آپ کا راستہ نہیں روک سکے گی اور یہ میری زندگی کا سب سے بڑا سبق ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply