اسٹیٹ ایجنٹ کا کتھارسس /فصلی بٹیرے۔۔ اعظم معراج

وہ معاشرے کے ٹھکرائے  ہوئے پرندوں کا ایک غول تھا جو مختلف صحرائی،پہاڑی،میدانی،شہری شکاریوں اور اپنے ہم جنسوں کے  ہاتھوں ستائے ہوئے پرندوں پر مشتمل تھا۔یہ سمندر کنارے ایک علاقے میں دھیرے دھیرے اکھٹے ہوتے گئے۔یوں مقامی لوگوں کی صلح جو طبعیت اور دوستانہ قدرتی ایکو سسٹم کا یہ حصہ بنتے چلے گئے ۔ یہ صبر، محنت ،لگن سے اپنا دانہ دنکا چگتے،پہاڑی باز، مکار کوؤں ،معصوم کبوتروں، شہری چڑوں،دانش مند ہنس راج، دلکش بلبل ، بھولے اُلو ،حتیٰ کہ مردار خور گدھوں سمیت سب کوشش کرتے کہ ایک دوسرے کے  رزق پر نظرِ نہ رکھیں،اور ماحولیاتی نظام میں گڑ بڑ کی وجہ بھی نہ بنے ۔

مقامی لوگوں کی بستیوں نے بھی انھیں قبول کرلیا۔ اس طرح انکی عملی و نظری اور فکری تربیت بھی ہوتی رہی۔ یہ مقامی ایکو سسٹم میں یوں ضم ہوئے، کہ یہ اسکی  بقا کے ضامن ہو گئے ۔۔ارد گرد کے رہائشی انھیں اپنی ترقی کی وجہ سمجھتے۔اپنی معاشی،معاشرتی وترقی میں انکے وجود کو لازم ملزوم قرار دیتے ۔۔ ملک بھر میں یہ جگہ ٹھکرائے اور بگڑے ہوئے پرندوں کی تربیت کی نرسری اور خوشحالی کا استعارہ بن گئی ۔۔ ان پرندوں نے بھی چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی اس ایکو سسٹم کی ترویج و ترقی اور بحالی میں اپنا حصہ ڈالا جس کی بدولت اس خوشحالی کے  چرچے ہر سو پھیل گئے ۔۔ جسکی بدولت یہ کیثر النسل خوشحال پرندوں کا ایسا غول بن گیا۔ جس پر ملک بھر کے ہر نسل ،قسم کے پرندے رشک کرنے لگے۔انھوں نے اپنی اس طرز زندگی کی بقا  کے لئے اپنی انجمن بھی بنا لی۔ آہستہ آہستہ ان سدھائے ہوئے پرندوں کے تربیت یافتہ اور بےضرر ہونے کے خوبیوں کے چرچے ملک بھر میں ہونے لگے۔ ان مشہوری کی  بدولت فصلی بٹیرے بھی در آنے لگے۔ پہلے پہل انھوں نے چپ سادھے رکھی، اور اپنی فطری تیزی طراری سے خوب  پوٹے بھرے جس سے وہ ایکو سسٹم تباہ ہونے لگا ۔انجمن نے یہ نوٹس کرنا شروع کیا۔اس مکار گروہ نے پہلے پرندوں کی اس انجمن کے عہدے داروں سے راہ  ورسم بڑھائے۔۔ پھر خود براہ راست اس میں حصہّ لینے لگے۔۔ جب ان کا اثر رسوخ بڑھا تو انھوں نے غول کی شکل میں پکی فصلوں پر حملے شروع کئے۔یہ فصلوں کی تیاری کی نرسریاں تباہ کرتے،مصوم پرندے بھی ان کی راہ چلنے لگے۔ انھیں اپنا گرو و مربی ماننے لگے۔ انکی تیزی طراری و پینتروں پر عاشق ہونے لگے۔ جس سے وہ انجمن ہزاروں پرندوں کے مفادات کی جگہ چند فصلی بٹیروں کے مفادات کی ترجیح ہوگئی۔

جن پرندوں نے ماحول کے زیر اثر اپنی خصلت کو دبا کر خود پر پُرامن،صلح جو کا روپ دھار رکھا تھا۔وہ انکے ہمنوا بن گئے۔۔ یوں یہ چند سو،ہزاروں اور لاکھوں پر اثر انداز ہوکر کروڑوں کی بقا کے ضامن ماحولی نظام/ایکو سسٹم کو تباہ کرنے لگے۔ جس کے اثرات ملکی معیشت اور سماج پر بھی پڑنے لگے اور وہ عدم توازن کا شکار ہونے لگے۔ بڑے شکاری ہانکنے کے لئے انکی خدمات محنتانے کے عوض خریدنے لگے۔انکی تباہ کاریوں کی وجہ سے عام معصوم پرندے معاشرتی امیتازی رویوں کا شکار ہوتے۔ اس علاقے کی خوشحالی کی بدولت بڑے شکاریوں نے بھی وہاں کا رخ کیا یہ انکے آلہ کار بن جاتے یہ چند سو فصلی بٹیرے اکثریت کی نمائندگی کرنے لگے۔ ایک چھوٹا گروہ جب مرضی مصوم لوگوں کو چیخ پُکار پر اکساتا کچھ کوؤں کی شور شرابے کی فطرت سے فائدہ اٹھا کر آسمان سر پر اٹھا لیتا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یوں بڑے شکاریوں کے مفادات پورے کرواتا۔ خوشحال خطہ اجاڑنے کے بعد یہ بڑے شکاریوں سے گٹھ جوڑ اور ساز باز کرکے مصوم پرندوں کو زیادہ دانا دنکے کے لالچ میں دوسرے علاقوں میں بھی لے جاتے جہاں بڑے شکاری انھیں پھانس لیتے بچے کھچوں کو باز اور گدھ چیر پھاڑ کھاتے، یوں دہائیوں کے ارتقائی عمل سے جو قدرتی ماحولی نظام/ ایکو سسٹم وجود میں آیا تھا۔ وہ چند فصلی بٹیروں کی ہوس و زر کی بدولت تباہ ہوگیا۔ ۔۔اور معصوم و الو صفت، لالچی پرندے اپنے چھوٹے لالچ اور منافقانہ طبعیت کی بدولت دیکھتے رہ گئے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply