کسان اَن داتا ہے یا بھکاری۔۔ علی انوار بنگڑ

سردی کی شدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا اور اِس سردی میں پپو کو قطار میں لگے ہوئے تقریباً تین گھنٹے بیت چکے تھے۔ پورے شہر میں کھاد کی د کانیں کھنگالنے کے بعد اسے ایک د کان ملی تھی۔ یہاں اسے کچھ آثار نظر آۓ تھے کہ یہاں ایک آدھ کھاد کا تھیلا مل جائے گا۔ د کان کے باہر کھاد لینے والوں کی قطار لگی ہوئی تھی۔ کھاد ڈیلر مقررہ نرخ سے زائد قیمت میں کھاد فروخت کر رہا تھا۔ بیچ بیچ میں وہ کھاد نہ ہونے کا بہانہ بنا کر کھاد کی فروخت روک دیتا تھا۔ پھر کسانوں کے منت ترلے کے بعد وہ پچاس سو روپے قیمت بڑھا کر فروخت دوبارہ سے شروع کروا دیتا۔

ہلکی ہلکی بوندا باندی کی وجہ سے اس کے کپڑے بھیگ چکے تھے۔ قطار میں کھڑا وہ سوچوں میں غرق تھا کہ اس بار بھی فصل خراب ہوئی تو کیا ہوگا؟ قرض خواہ روز دروازہ توڑتے ہیں۔ اب تو گھر سے باہر نکلنے میں بھی ڈر لگتا ہے کہ کہیں کسی قرض خواہ سے سامنا ہی نہ ہو جائے۔ بیٹی کی شادی کی عمر گزرتی جارہی ہے، لیکن کوئی سبب نہیں بن رہا جس سے اس کے ہاتھ پیلے کردو۔ باپ کی بیماری دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور اس کی ادویات  کے خرچ کے لیے قرض پر قرض اٹھانا پڑ رہا تھا۔ کبھی کبھی جب وہ باپ کو کھانستے دیکھتا تو اس کے دماغ میں خیال آتا کہ باپ فوت ہو گیا تو ایک خرچہ کم ہوجاۓ گا اور پھر سر جھٹک کر خود کو لعن طعن کرنے لگ جاتا۔

ایک بار دینو کے لڑکے نے اسے موبائل فون سے ایک ویڈیو دکھائی تھی جس میں ایک بندہ بتا رہا تھا کہ کیسے ایک ایکڑ سے آپ آٹھ سے دس لاکھ کماسکتے ہیں۔ ساتھ وہ کسانوں کو لعن طعن کررہا تھا۔ ہمارا کسان کام چور ہے۔ وہ خود ترقی نہیں کرنا چاہتا ہے۔ لیکن بہت سے ایسے سوالات جو اس کے ذہن میں آۓ تھے، ویڈیو والا بتانے سے قاصر تھا۔ سوشل میڈیا کے سٹارز اور ماہرین زراعت مشورہ دیتے ہیں کہ جب کوئی فصل زیادہ ہوجائے جیسے ٹماٹر تو اس کے پراڈکٹس جیسے کیچپ وغیرہ بنا کر بیچو۔ وہ یہ ساری باتیں سن کر سوچا کرتا تھا کہ ہمارے پاس اس حوالے سے کیا معلومات اور سکلز ہیں؟ کیا کوئی فورم ہے جو چھوٹے کسانوں کو یہ مہارتیں سکھاتے ہیں۔ کیا ان کو یہ مہارتیں سکھائی گئی ہیں؟ یا اس حوالے سے حکومتی ادارے کوئی کورس کروا رہے ہیں یا سبسڈی وغیرہ دے رہے ہیں؟ اور آخر میں سب سے اہم یہ تیار شدہ پراڈکٹس بیچنی  کہاں ہیں؟ میں اونے پونے پراڈکٹ بنا لیتا ہوں لیکن مجھ سے لے گا کون؟ کہاں جا کر بیچوں گا میں یہ سب؟ میں یہ پراڈکٹ بنا لیتا ہوں لیکن انٹرنیشنل برینڈ کے مقابلے کی پیکنگ کے لیے سرمایہ کہاں سے لاؤں ؟ سرمایہ کے دکھ میں تو اونے پونے فصل بیچ رہا ہوں؟ چلو جی پیکنگ بھی ہوگی تو میری پراڈکٹ اب خریدے گا کون؟ اس کی گارنٹی بھی نہیں ہے کہ میری پراڈکٹ بکے گی۔ کسان کو پراڈکٹ بنانے کا یا نئی فصلیں لگانے کے  مشورے تو دیے جاتے ہیں لیکن ان سوالات کے جوابات نہیں دیے جاتے ہیں۔ دوسرا جو لوگ قلت کے دنوں پھرتیاں دکھا کر باہر سے مال منگوا رہے ہوتے ہیں وہ زیادہ پیداوار کے وقت ہماری فصل باہر کیوں نہیں بھیجتے ہیں یا پھر ہمیں فائنل پراڈکٹ بنانے کے لیے سرمایہ کیوں نہیں دیتے ہیں اور ان کے لیے زرعی علاقوں میں مارکیٹس کیوں نہیں بناتے یہاں کسان اپنی نئی پراڈکٹ یا نئی فصل بیچ سکے؟

کسان پوری زندگی ڈر کے ساۓ میں زندگی گزارتا ہے۔ پورے چھ مہینے یا سال ایک فصل پر محنت کرتا ہے۔ مہنگی کھاد، بیج، ڈیزل اور زرعی ادویات وغیرہ کا استعمال کرتا ہے۔ لیکن جب فصل پک کر تیار ہوتی ہے تو منڈی میں نرخ کم کردیے جاتے ہیں کیا یہ اس کے ساتھ زیادتی نہیں ہے۔ کبھی کبھار موسم خراب ہونے کی وجہ سے فصل خراب ہوجاتی ہے۔ اس فصل کے خراب ہونے سے اس کے پورے کنبے کے جو چھوٹے چھوٹے خواب اس فصل کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں وہ ٹوٹ جاتے ہیں لیکن پھر بھی وہ نئی امنگ کے ساتھ اگلی فصل لگانے میں لگ جاتا ہیں۔ کسان ان کے لیے بھی اناج پیدا کرتے ہیں جو لوگ انہیں حقارت سے دیکھتے ہیں لیکن اس نے کبھی یہ نہیں کہا میرا پیدا کردہ اناج کو فلاں فلاں نہیں کھاۓ گا۔ بڑی بڑی صنعتوں کا خام مال ان کھیتوں سے جاتا ہے لیکن کھیتوں میں کام کرنے والوں کے مسائل پر بات کرنے کو کوئی تیار نہیں۔

جب بھی کوئی شہر سے عزیز ملنے آتا ہے تو وہ زیادہ تر کسان کے پیشے کو ہی لتاڑتا ہے کہ کسان زمین بیچ کر شہر کیوں نہیں چلا جاتا۔ وہ سارا ملبہ یہ کہہ کر ہمارے سر پر ڈال جاتا ہے کہ تم لوگ خود جدید کھیتی کی طرف نہیں آتے۔ نہ کوئی نئی فصل لگاتے ہو۔ میرا دل کرتا ہے ان سے پوچھو دو ایکڑ والے کے پاس کتنے وسائل ہوتے ہیں؟ جو اپنے فارم پر جدید کھیتی کرے۔ نئی فصل لگا بھی لے تو پھر بیچنے کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھاۓ۔ ایک نئی فصل کو بیچنے کے لیے اسے بڑے شہر کی منڈی تک رسائی ہونا لازمی ہے اور وہ کیسے ٹرانسپورٹ کا خرچہ برداشت کر سکتا ہے جسے کھانے کے لالے پڑے رہتے ہیں۔ جس سال ہٹ کر فصل لگا بھی لے اور اس وجہ سے اگر گندم جیسی اجناس کی پیداوار میں کمی آجائے تو پورے ملک میں وبال پڑ جاتا ہے کہ ایک زرعی ملک میں گندم ناپید ہوگئی ہے۔ ایک دس پندرہ منٹ کی ویڈیو میں لاکھوں بنانے کی سکیمیں تو بتائی جاتی ہیں۔ لیکن جن مسائل کا ہمیں سامنا ہے ان کا حل کوئی نہیں بتاتا۔ کبھی کھاد پر دو تین سو کی سبسڈی لینے کے لیے وہ قطاروں میں لگے ہوتے ہیں، تو کبھی اپنی گندم کو حکومتی نرخ پر بیچنے کے لیے قطاروں میں لگنا پڑتا ہے۔ موسم سرما کی یخ بستہ راتوں کو وہ اپنی فصلوں کو پانی لگا رہے ہوتے ہیں۔ فصل کو کوئی بیماری یا کیڑا لگتا ہے تو ان کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں۔ زرعی اسپرے کے لڑنے کی وجہ سے وہ کئی بار بے ہوش ہوجاتے ہیں، بعض تو جان سے چلے جاتے ہیں یا عمر بھر کے لیے کوئی نہ کوئی روگ پال لیتے ہیں۔ لیکن پھر بھی اپنے کھیت سے منہ نہیں موڑتے ہیں۔ سورج کی کرنیں پھوٹنے سے پہلے ان کے دن کا آغاز ہوجاتا ہے اور پورا دن کھیتوں میں کام کرتے گزر جاتا ہے۔ لیکن جو کسان پورے ملک کے لیے غلہ پیدا کررہے ہیں۔ ان کسانوں کے حقوق پر بات کرنے کے لیے کسی پالیسی ساز کے پاس وقت نہیں ہے۔ ان کے مسائل کسی سیاسی جماعت کے لیے اہم نہیں ہیں۔ اگر کوئی بھول کر پانچ سالوں میں ایک بار نام لے گا بھی تو صرف اپنا ووٹ پکا کرنے کے لیے۔ کسی بڑے مگرمچھ کو اس کے دو کھیت پسند آجائے تو وہ ناجائز حربے استعمال کرکے ہتھیا لیتا ہے اور وہ پوری زندگی اپنی ملکیت ثابت کرتے قبر میں پہنچ جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہاں کھڑے کھڑے اسے گھنٹوں بیت چکے تھے اور وہ اپنی سوچوں میں ہی غرق تھا۔ کبھی اپنی سوچوں کے بھنور میں اپنی بے بسی کا رونا روتا۔ اور کبھی بہتر مستقبل کے خواب بنتا۔ اسے وہاں کھڑے کھڑے اپنی بے بسی پر غصہ آرہا تھا۔ پورے دن کی ذلالت کے بعد جب وہ ایک تھیلا کھاد کا لے کر گھرجارہا تھا تو وہ ایک فیصلہ کرچکا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے، اپنی اولاد کو کھیتی باڑی کی طرف نہیں آنے دے گا۔ گاؤں کے قریب بننے والی کالونی کو اپنے کھیت بیچ کر بیٹے کو شہر میں کھاد کی دوکان ڈال کر دے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply