گہری نیند اور موت۔۔ڈاکٹر صغریٰ صدف

موت نیند کا ٹریلر ہے۔ اسپتال والے اگررگوں میں زہر کی طرح سرایت کر جانے والی باریک سوئیاں لگا کر بوند بوند لہو نہ نکالیں تو اگلے جہان کی جھلک دکھائی دینے لگے۔ پچھلے کئی دن سے PKLI اسپتال میں ہوں۔ لوگ کہتے ہیں کہ شکر ہے پاکستان جیسے ملک میں ایک ایسا اسپتال بھی ہے جہاں غریبوں کا بالکل فری اور استطاعت رکھنے والوں کی کُھل کر کَھل اتاری جاتی ہے مگر تواضع دونوں کی ایک سی ہوتی ہے۔ بیماری کی تشخیص کے لیے روزانہ اتنے ٹیسٹ ہو رہے ہیں جتنے طالب علمی کے پورے دور میں بھی نہ ہوئے ہوں گے۔ بیماری میرے لیے اذیت اور ڈاکٹروں کے لیے آزمائش بنی ہوئی ہے۔ اس کشمکش میں ہاتھوں، بازوئوں کی بار بار چھلنی ہو چکی وینز (رگیں) بین کرتی اور ہاتھ جوڑتی ہیں مگر ان کی طرف کس کی توجہ ہے۔
ڈر ہے گوشت، سوئیوں اور لہو کی ہاتھا پائی میرے مضمحل جسم کا ڈھانچہ ایزل پر نہ اُتار دے۔ ابھی ابھی لکھی بے پناہ اور بے رغبت نثری نظم دیکھیں:
نیند اور موت
یوں محسوس ہوتا ہے جیسے گہری نیند کے توانا سُفنے کی گرفت میں ہوں
کیونکہ جو کچھ میری آنکھیں دیکھتی اور دل جھیلتا ہے
وہ سچ تو نہیں ہو سکتا
خوشی، سرور، موسیقی، شاعری، رقص اور محبت کے ہجرِ مسلسل سے گزرتی حیات کے گلشن
پر آسیب کا سایہ ہے
یہاں بارش نہیں برستی
ساون کے موسم میں کانٹوں کی بوچھاڑ ہوتی ہے
عام دنوں میں آندھی چلتی ہے اور دلدل لوگوں کو کسی سے ملنے نہیں دیتی
گھروں میں محصور ہیں سب کہ
خوف کے سائرن کی سوئی اک لمحہ نہیں رکتی، بجتی رہتی ہے
شاید انھیں یہ ذائقے مسرور کرتے ہیں
اس بے رحم فضا کی ایما پر دل کی جوان اُمنگیں بیمار نہ ہوں تو کیا ہو
ہم نے خود کو خود مسمار نہیں کیا تھا
ہوا میں ٹنگے اَن دیکھے
شکنجے ہمیں گھیر لے گئے
جنہیں ہمارے چہرے کی سرخی اور زائد شوخی سے بہت بَیر تھا
انہوں نے دوبارہ تعمیر نہ کرنے کی قسم لی اور ہم نے ٹافی کی طرح نِگل لی
مگر جسم کا عالیشان مکان کھوکھلا ہوا تو
ہم جنہیں ارادے اور دانش پر بہت مان تھا بے خبری میں ہانکے گئے
آنکھیں بند کئے اس دُنیا کے ہمراہ چلے
جس نے راستے کا سارا بوجھ ہمارے کندھوں سے اٹھوایا
جہاں تھک کر گِر گئے
قافلہ ہمیں روند کر آگے بڑھ گیا
دل اور روح کی کوئی نہیں سنتا اس مادی تابوت خانے میں
ہم نے بھی دِل اور روح کو طلاق لکھ کے سنہری لفافے میں رکھی
اور ٹمٹماتے چراغ کے پاس چھوڑ کر نکل گئے
نہ جانے کیسے دو ہرجائی نظریں پیچھا کرتی رہیں
مگر ہم سب ترک کر کے موت کی وادی کی جانب رواں تھے
نیند گہری ہوتی جاتی تھی
حیات رخصت پر جانے والی تھی جب
دو انگلیوں کے لمس اور تِیر جیسی آنکھوں نے
دل دروازوں کو چھلنی کر کے اپنے نام کی خوشبو نکالی
وہ خوشبو پرائی نہ تھی
زندگی اپنے ہونے کا جواز ڈھونڈھ لیتی ہے
ہرجائی سانسوں کی آنچ سے میری
پژمردہ آرزوئیں،
موت کی گہری نیند سے جاگنے کو ہیں
آتش فشاں پگھل چکا ہے
کسی نے محبت کے جادوئی ہاتھ سے چھُو کر
کُندن کر دیا ہے بدن کو میرے
مانوس سا اَمرت میرے جسم سے موت کی جھاڑی پر ٹنگی زندگی کو اُتارنے لگا ہے
اس جادوئی امرت نے بنجر جسم کی نَس نَس میں
کلیوں کی جو پنیری بیجی
وہ پھولوں میں ڈھلنے لگی ہے
پھولوں سے رنگ برنگ شعلے پھوٹتے ہیں
جیسے شبرات پر پٹاخے
میں جاگنے والی ہوں
رنگ اور خوشبو اوڑھ کر
میرے پاؤں میں رقص کی سرمستی تھرکنے لگی ہے
مجھے اَدھ کھلی آنکھوں سے
چاہت کا دیوتا دکھائی دینے لگا ہے
جس کے کاندھے پر بڑا سا مشکیزہ ہے
جو محبت کی برکت سے میری بنجر دھرتی کو جَل تھل کر دے گا
جہاں سے گزرنے کو ترستی ہے اب بھی ہوا
برف کی چادر بھی سمٹنے لگی ہے
زندگی
میری جانب دیکھ کر
مسکائی ہے
دیکھو کیا پیام لائی ہے
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply