برطانیہ کے آمریت کی طرف بڑھتے قدم-بے گھر اقلیت پر جارحانہ کارروائی

(نامہ نگار :فرزانہ افضل)برطانیہ کے آمریت کی طرف بڑھتے قدم-بے گھرخانہ بدوش  اقلیت پر جارحانہ کارروائی ۔حکومت کے پولیس جرم سزا اور کورٹ بل میں چونکا دینے والے جابرانہ اقدامات کی شمولیت، جن کا مقصد موثر اور جائز احتجاج کو جرم قرار دینا ہے۔ گو کہ میڈیا نے اس مسئلہ کی کوریج کی ہے مگر وہ انتہائی ناکافی ہے۔ لیبر پارٹی کو آخرکار اس معاملے کی سنجیدگی کا کسی حد تک اندازہ ہو چکا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ ڈیلی میل اخبار کی چاپلوسی کرنا بند کر دے اور اگلے ہفتے ہاؤس آف لارڈز میں حکومت کی ظالمانہ ترامیم کے خلاف ووٹ دے۔

اس خوفناک بل کی پریشان کن شق ہے کہ تجاوز حدود کو سول سے ایک مجرمانہ جرم میں بدل کر پولیس کو جپسی، روما اور ٹریولرز ( جی آر ٹی) افراد کو گرفتار کرنے اور ان کے گھروں کو ضبط کرنے کا اختیار دیتی ہے، اگر وہ ایسی جگہ پڑاؤ کریں جو ان کے لیے مختص نہیں کی گئی۔ اس وجہ سے مجوزہ قانون کے تحت اس گروپ کے کسی بھی بالغ رکن کو تین ماہ کے عرصے تک کی قید ہو سکتی ہے ۔
حکومت کا اس بات سے باخبر ہونے کے باوجود کہ جی آر ٹی یعنی خانہ بدوش افراد کے لیے مجوزہ مقامات اور رکنے کی جگہیں انکی ضروریات پوری کرنے کے لیے مناسب نہیں ہیں، کمزور اقلیت پر ایک سوچا سمجھا حملہ ہے۔ اگر ان تمام عناصر کو یکجا کیا جائے، یعنی احتجاج کی روک تھام، اقلیت پر ظلم، صریحاً بدعنوانی، بے نقاب جھوٹ، پارلیمنٹ کو نظر انداز کرنا اور نیشنلٹی اور بارڈر بل میں نئے اختیارات، سب مل کر حکومت کو اپنی من مانی کر کے لوگوں کی شہریت چھین لینے کے قابل بناتے ہیں۔ یہ اقدامات بیسویں صدی کی یورپی تاریخ سے خطرناک حد تک مماثلت رکھتے ہیں مگر ان کی جڑیں برطانیہ کی عجیب وغریب سفاکیت میں بھی پائی جاتی ہیں۔ خانہ بدوشوں پر ہونے والے مظالم کی تاریخ 1349 آڈئینس آف لیبررز سے جا ملتی ہے، جس کے تحت یہ فیصلہ دیا گیا تھا کہ جو لوگ آوارہ گرد سمجھے جاتے ہیں ان کو کوڑے مارے جائیں یا گرم استری سے نشان زدہ کیا جائے۔ سولہویں صدی میں قوانین پاس ہوئے کے بد معاش اور آوارہ گرد اور دوسرے لاوارث لوگوں کے کانوں کو آدھا کاٹا جا سکتا ہیں یا ایک گرم سوئی سے ان کے کانوں میں سوراخ کیے جا سکتے ہیں۔ اگر وہ پھر بھی اپنے قبیلے یا گرجہ( Parish ) میں واپس جانے میں ناکام رہے ( قطع نظر ان کا کوئی گرجہ تھا بھی یا نہیں) تو انہیں پھانسی دی جا سکتی ہے۔

1554 کے ایک قانون کے مطابق اپنے آپ کو خانہ بدوش کہنے والوں کو بھی واجب القتل قرار دیا جا سکتا تھا ۔ قبل از جمہوریت کے چند سفاکانہ قوانین آج بھی انگلینڈ اور ویلز میں نافذالعمل ہیں۔ 1824 ویگرینسی ایکٹ  کے تحت پولیس آج بھی باہر سونے والوں کو “بدمعاش اور آوارہ گرد’ کے زمرے میں لاتی ہے۔ سن 2020 میں 573 افراد پر اس قانون کے تحت چارہ جوئی کی گئی۔

پارلیمنٹ کے کچھ اراکین نے اس قدیم قانون کو منسوخ کرنے کے لئے پولیس بل کو استعمال کرنے کی کوشش کی مگر گزشتہ برس نومبر میں حکومت نے ان ترامیم کو منسوخ کر دیا۔ مگر اب بے گھر افراد خود کو اس سے بھی بدتر حالت میں پاتے ہیں۔ کچھ کونسلیں جو حکومت کے ان الجھے ہوئے قوانین کی پیروی کرنا چاہتی ہیں، تصدیق شدہ بے گھر باہر سونے والوں کے لیے ہاؤسنگ سپورٹ فراہم کریں گی۔ انہوں نے بے گھر افراد کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سڑکوں پر سونا شروع کر دیں تاکہ انہیں آؤٹ ریچ ٹیموں کے ذریعے اٹھایا جا سکےجو ان کے لئے رہائش تلاش کرنے کی کوشش کریں گی۔ مگر درحقیقت ایسا ہونے سے پہلے ہی گرفتار کر لے گی جس کے بعد ان پر ویگرینسی( آوارہ گردی) ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ اگر وہ خالی عمارتوں میں گھر بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو بھی ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جا سکتی ہے۔ اب نئے بل کے تحت جی آر ٹی افراد کی گاڑیاں (جو دراصل ان کے گھر ہیں) تجاوز حدود کے شبے میں ضبط ہو سکتی ہیں۔ اور جب ان کے گھروں کو ضبط کرلیا جائے گا تو ان کے بچے لامحالہ سوشل کیئر میں دیۓ جائیں گے۔ یہ پولیس بل اس اقلیت کو ان کے گھروں، ذریعہ معاش، شناخت، حتٰی کہ انکے خاندانوں سے بھی محروم کر دے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

دی گارڈین

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply