حب الوطنی کے گرم انڈے ۔۔ اظہر سید

بلوچستان لہو میں ڈوبا ہوا ہے اور یہاں کور کمانڈر رہنے والے ایک ریٹائرڈ جنرل کے اربوں روپیہ کے اثاثوں کی کہانیاں مستقبل کی لوک کہانیوں کا حصہ ہونگی،بالکل اس طرح جیسے مغل سلطنت کے آخری ایام میں جنرل پالکیوں میں بیٹھ کر میدان جنگ میں جایا کرتے تھے ۔ نادر شاہ درانی نے دہلی تباہ کرنے سے پہلے جس مغل فوج کو بڑی جنگ کے بغیر پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا اس کے تمام کمانڈر پالکی سوار تھے ۔
سی پیک بلوچستان میں ہے اور یہاں ایک ایسا جنرل بھی رہا ہے جسکی کروڑوں روپیہ مالیت کی نئی نویلی کار کی جانچ کے دوران ہونے والے حادثہ میں ایک نوجوان فوجی افسر کی جان گئی تھی ۔بلوچ نوجوانوں کو کن پالیسوں نے ریاست سے متنفر کیا اور ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیا ان پالسی سازوں کو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ،بھلے وہ ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان میں رہنا بھی پسند نہ کریں لیکن وہ سکہ بند محب وطن ہیں اور ہتھیار اٹھانے والے بلوچ نوجوان غدار ۔

بلوچستان میں کوئی بلوچ طالبعلم غدار قرار دے کر مار دیا جائے یا ان کے ہاتھوں کوئی وردی والا شہید ہو جائے نقصان دونوں صورتوں میں پاکستان کا ہے ۔اگر بھارتی اور امریکی بلوچ نوجوانوں کو پیسے دے کر غدار بنا سکتے ہیں تو ہم مٹی کے بیٹوں کے تحفظات دور کر کے انہیں حب الوطنی کا وہ لبادہ کیوں نہیں پہنا سکتے جو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پہنا ہے ۔

پیسے پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور سی پیک کے دشمن امریکیوں اور بھارتیوں کے پاس بہت ہیں تو پیسے چینیوں کے پاس بھی بہت ہیں ۔ سی پیک پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کار مودی کے یار کے دور میں ہو رہی تھی اور گودار پورٹ کو ٹھیکہ مسٹر ہنڈرڈ پرسنٹ آصف علی زرداری نے سنگاپور پورٹ سے منسوخ کر کے چینیوں کو دیا تھا تو مودی کے دشمنوں اور کرپشن سے نفرت کرنے والے جنرلوں کے دور میں سی پیک پر کام کیوں بند ہو گیا ہے اور سی پیک اتھارٹی کا سربراہ وہ ریٹائرڈ افسر کیوں تھا جس کے اہل خانہ کے کاروباری مفادات امریکہ میں ہیں ؟ جس دن ریاستی ادارے یہ سوال پوچھنے کی جرات کر لیں گے پاکستان مہذب جمہوری ریاست بننے کی طرف چل پڑے گا ۔

افغانستان کی سوویت یونین کے حملہ کے بعد لگائی جانے والی آگ میں فوج بہت طاقتور ہو گئی اور افسران میں ریٹائرمنٹ کے بعد مغربی ممالک میں منتقل ہونے کا رجحان شروع ہوا ۔ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے مغربی اسلحہ خانوں کا اربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت ہوا ۔ ہر سال دفاعی بجٹ کا ایک حصہ تنخواہوں میں استعمال ہوتا ہے تو زیادہ بڑا حصہ امریکی اور مغربی ممالک کی اسلحہ فیکٹریوں کے ذریعے ان ترقی یافتہ ممالک میں منتقل ہوتا ہے اور پاکستانیوں کے ہاتھ میں صرف بھارتیوں اور افغانیوں سے نفرت آتی ہے ۔ جنوبی ایشیا یورپین یونین کی طرح تجارتی بلاک کیوں نہیں بن پاتا اور مشترکہ کرنسی کی بات کرنے والے سیاستدان غدار کیوں قرار دئے جاتے ہیں یا ریاضی کا پیچیدہ سوال نہیں بلکہ بہت عام فہم سوال ہے بلکہ روزی روٹی کی بات ہے اور مغربی ممالک کی اسلحہ بنانے والی فیکٹریاں اسی غداری کی وجہ سے چلتی ہیں۔

مغربی ممالک آپس میں نہیں لڑتے بلکہ اپنے عوام کو تعلیم صحت اور روزگار کی سہولتیں دینے کیلئے دنیا کے مختلف خطوں میں نفرت کی آگ جلائے رکھتے ہیں اور اپنا اسلحہ فروخت کرتے ہیں ۔
شنگھائی تعاون تنظیم کی ناکامی کے پیچھے مغرب کی سازشیں کم اور خطہ کے ممالک میں داخلہ اور خارجہ پالیسوں کے خود ساختہ مالکان کے زاتی اور ادارہ جاتی مفادات زیادہ ہیں ۔
کس کے منہ میں اتنے دانت ہیں کہ پوچھے افغانستان کی چالیس سالہ پالیسی نے نہ معلوم کتنے خارجہ اور داخلہ پالیسوں کے مالکان کی نسلیں سنوار دیں لیکن عام پاکستانیوں سے ان کا سنہرا مستقبل چھین لیا ۔ افغان پالیسی کی اس سے بڑی ناکامی کیا ہے کہ امریکی واپس چلے گئےہیں اور امریکیوں کی واپسی کے بعد چینیوں ،روسیوں ،ایرانیوں اور بھارتیوں کی دلچسپی ختم ہو گئی ہے ۔ اب نہ سعودی پیچھے ہیں اور نہ مغربی ممالک پاکستان کے ہاتھ کیا آیا ہے ؟

اگر پاکستان مخالف طالبان ریاست کے سامنے نہیں کھڑے ہو سکے تو افغان طالبان کس طرح مضبوط افغان حکومت کے سامنے کھڑے رہ سکتے تھے جب انہیں چینیوں ،روسیوں ،ایرانیوں اور سعودیوں کی حمایت بھی حاصل نہیں تھی ۔

بھارتی پیچھے ہٹے تو تامل باغی سری لنکن ریاست کے سامنے دو ماہ بھی نہ ٹک سکے افغان طالبان کیا بیچتے ہیں جب انہیں سپورٹ کرنے والا خود اپنے ملک میں عوامی حمایت کھو چکا تھا ۔ اس کا صاف صاف مطلب یہ ہے طالبعلموں کو خود امریکیوں نے اپنے پاکستانی دوستوں کی مدد سے کامیاب کرایا ہے ۔اپنا دامن چھڑا لیا اور ہمیں معاشی دلدل میں دھکیل دیا ۔
افغان پالیسی سے پاکستان کو ہونے والے نقصان کے ذمہ دار حکمت سازوں سے پوچھ گچھ کون کرے گا ؟

مقبوضہ کشمیر کے مسئلہ کے حل کا سنہری موقع تاریخ نے واجپائی کے دورہ پاکستان کے دوران دیا تھا اس موقع کو جنہوں نے جان بوجھ کر برباد کیا وہی تو ہیں جو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ اور اس پر دھوپ میں نصف گھنٹہ احتجاج کے زمہ دار ہیں ان زمہ داران سے سوال کون پوچھے گا ۔
آج معیشت برباد ہو چکی ہے ۔ ہر صاحب اولاد پاکستانی اپنے بچوں کے مستقبل کے متعلق مضطرب اور پریشان ہے ۔ اس اضطراب اور پریشانی کے زمہ دار وہی خارجہ اور داخلہ پالیسوں کے خود ساختہ مالکان ہیں جو اپنے بچوں کو بیرون ملک بھیج دیتے ہیں وہاں تعلیم دلواتے ہیں ،کاروبار سیٹ کراتے ہیں اور عام پاکستانی کے بچے کو مولوی خادم حسین ایسوں کا مرید بنا دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے پروفیسر کو قتل کر دے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عدلیہ اور میڈیا ریاست کے ستوں ہیں ۔ عدلیہ اور میڈیا کو پالتو بنانے والے ہی اس ملک کے غدار ہیں اور وہی ہیں جو جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرتے ہیں،عام پاکستانیوں کو گمراہ کرتے ہیں ۔ آئین قانون پر عمل کرنے والے ۔ عدلیہ اور میڈیا کی آزادی کا تحفظ کرنے والے اصل محب وطن ہیں ۔
جس دن اس ملک کو نقصان پہنچانے والوں،افغان اور کشمیر کی ناکام پالیسوں کے ذمہ داران تک ریاستی اداروں کے ہاتھ پہنچیں گے اس دن پاکستان کی ترقی کا عمل بھی شروع ہو جائے گا ۔خدا پاکستان کی حفاظت کرے اور یہ ملک دنیا کا طاقتور جمہوری، صنعتی اور تجارتی ملک بنے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply