برف کاتابوت۔۔آغرؔ ندیم سحر

برف کاتابوت۔۔آغرؔ ندیم سحر/  میں اس وقت جب یہ کالم لکھنے میں مصروف ہوں’مری حادثے کو تیس گھنٹے گزر چکے ہیں مگر ابھی تک جھیکا گلی سمیت کئی علاقوں میں آپریشن شروع نہیں ہو سکا’ مری میں جو کچھ ہوا’وہ بیان سے باہر ہے،اتنے بڑے حادثے کی ذمہ داری کون قبول کرے گا’شاید کوئی بھی نہیں۔میں برف کے تابوت (گاڑی) میں پڑی لاشوں کی ویڈیوز دیکھ رہا ہوں’رو رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ ان بے چاروں نے مرتے وقت کسے آواز دی ہوگی؟کیسا دل خراش منظر ہوگا جب (ایک ہی خاندان کے)یہ آٹھ لوگ ایک دوسرے کے سامنے آخری ہچکیاں لے رہے تھے’کس نے کسے دلاسا دیا ہوگا؟کسے پکارا ہوگا؟کس نے کس کا سانس بحال کرنے کی کوشش کی ہوگی؟ان پیاروں نے اپنی موت کا الزام کسے دیا ہوگا؟ جو سب سے آخر میں مرا ہوگا’اس کی کیا حالت ہوگی؟۔

یہ سب سوال اس قدر تکلیف دہ ہیں کہ کالم لکھنا محال ہو رہا ہے۔بائیس سیاح گاڑیوں میں جان کی بازی ہار گئے’ گاڑیاں جو مرنے والوں کے لیے برف کا تابوت ثابت ہوئیں’جس میں وہ اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ چھٹیاں انجوائے کرنے آئے تھے مگرانہیں کیا خبر تھی کہ واپسی ابدی نیند میں ہوگی۔یہ ملک میں پہلی دفعہ نہیں ہوا بلکہ ہر سال برف باری سے ایسے درجنوں واقعات پیش آتے ہیں’ کچھ تک میڈیا کی رسائی ہو جاتی ہے اور زیادہ تر حادثات برف میں ہی دفن ہو جاتے ہیں۔

جنوری ۲۰۲۰ء میں بھی ایسا ہی حادثہ پیش آیا تھا’اس حادثے میں لینڈ سلائیڈنگ اور برفانی تودہ گرنے سے صرف آزاد کشمیر میں ہی 61لوگ جاں بحق ہو گئے تھے’بلوچستان میں مرنے والوں کی تعداد 30سے زائد تھی’زخمی ہونے والوں کی تعداد ذرائع کے مطابق پانچ سو سے زائد تھی مگر میڈیا پر صرف سو (100)بتائی گئی۔اس واقعے پر 14جنوری2020ء وزیر اعظم نے ٹویٹ بھی کیا تھا’انتہائی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی(این ڈی ایم اے)یقینی بنائے کہ ایسے حادثات دوبارہ نہیں ہوں گے اور ساتھ ہی وزیر اعظم نے یہ بھی ارشاد فرمایا تھا کہ تمام سکیورٹی کے ادارے اور وزراء ایسے حادثات کی روک تھام کے لیے اقدامات کریں۔

مری میں سال میں دومرتبہ ایسی صورت حال بنتی ہے’ایک عیدین اور دوسرا برف باری کے دنوں میں۔افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان دونوں صورتوں میں ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے ہمارے پاس کوئی فیوچر پلان نہیں ہے’ہم آج تک کوئی ایسا منصوبہ نہیں بنا سکے جس سے اس طرح کے اندوہ ناک واقعات سے بچا جا سکے’ بدقسمتی سے ہمارے پاس کوئی ایسا پلان نہیں ہے جس سے ہم آنے والے دس بیس یا تیس سالوں میں سیاحت کو فروغ دیں سکیں ’ہم ابھی تک لاعلم ہیں کہ ہمیں سیاحتی مقامات پر کیا انتظامات کرنے ہوں گے۔ہم اس حادثے کا الزام حکومت کو دیتے ہیں ’دینا بھی چاہیے۔اس میں قطعاً دو رائے نہیں کہ یہ حادثہ انتظامیہ’حکومت اورملک کے اہم ترین ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی(این ڈی ایم اے)کی ناکامی اور نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے’گاڑیوں میں مرنے والوں کی خبر راہ گیروں کے ذریعے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی’ تب حکومت کو ہوش آیا اور انھوں نے اگلے دن گیارہ بجے مری ایکسپریس وے کے ٹول پلازے پر ناکہ لگایا ۔اس سے قبل نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی(این ڈی ایم اے) جیسا حساس ادارہ اور انتظامیہ گہری نیند میں تھے’پاکستان بھر سے مری جانے والے سیاح پچھلے پندرہ گھنٹوں سے برف میں پھنسے ہوئے تھے مگر انتظامیہ لاعلم۔

ہم مری میں ہونے والے حادثے پر انتظامیہ اور حکومت کو تو برا بھلا کہہ رہے ہیں مگر اس ساری صورت حال میں مری کی لوکل ہوٹل مینجمنٹ سمیت ٹریفک انتظامیہ کو بھی معاف نہیں کرنا چاہیے۔جب لوگ برف باری سے تنگ ہوٹلوں کا رخ کر رہے تھے اور ہوٹل انتظامیہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دس گنا کرائے کا تقاضا کر رہی تھی ’ لوگ کہاں جاتے؟پرائیویٹ گاڑیوں والے جس روٹ کا کرایہ عام دنوں میں پندرہ سو چارج کرتے ہیں’وہ اسی روٹ کا کرایہ چھے ہزار تک چارج کر رہے تھے۔کھانے کے ہوٹلوں پر جو کھانا عام دنوں میں دو سے تین ہزار کا ہوتا ہے’وہ گزشتہ ہفتے تین گنا ریٹ پہ سیاحوں کو لوٹتے رہے۔کیا یہ بے حسی قابلِ قبول ہے؟

اُبلا ہوا انڈا تیس کی بجائے پانچ سو کا فروخت ہوتا رہا مگر انتظامیہ لاعلم رہی۔ہمیں حکومت کو ضرور برا بھلا کہنا چاہیے مگر صرف ایک دفعہ سوچیں کہ کیا ہمارا رویہ ایسا ہے کہ اس پر فخر کیا جا سکے۔ہم مجموعی طور پر ایک بے حس ’ذہنی پس ماندگی کا شکار’ سوچوں سے عاری اور ذمہ داریوں سے بھاگنے والی ‘‘بونی ’’قوم ہیں لہٰذا آپ ہماری مجموعی سوچ کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ حادثے کے بعد بھی عوام کا ایک جم غفیر ٹول پلازوں پر پولیس اور آرمی کے جوانوں سے جھگڑا کرتا رہا کہ انھیں آگے جانے دیا جائے کیوں کہ وہ دور سے برف باری دیکھنے آئے ہیں۔عوام کا ایک سمندر مری کے ان داخلی راستوں سے اندر جانے کی کوشش کرتا رہا جو عام طور پر بند ہوتے ہیں۔مری کی انتظامیہ کے بقول حادثے کے بعد بھی اس عوام کو سمجھانا بہت مشکل تھا کہ یہ گھروں کو لوٹ جائیں’حالات خراب ہو چکے۔

میں اس واقعے کے بعد ایک طرف حکومتی نااہلی سے اور انتظامیہ کی ناکامی کی وجہ سے رنجیدہ ہوں اور دوسری اپنی قومی کی مجموعی سوچ اور تربیت پر پریشان ہوں۔ اس حادثے کی جتنی ذمہ دار حکومت ہے ’اتنی ہی ذمہ دار یہ عوام اور سیاح ہیں جنھوں نے ہنگامی حالات دیکھنے اور سننے کے باوجود واپسی کا ارادہ ترک نہ کیا اور مسلسل آگے بڑھتے رہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھے مری جاتے ہوئے تقریباً دس سال ہو گئے’مجھے یہ کہتے ہوئے انتہائی افسوس ہے کہ ہم آج تک مری میں سیاحوں کے لیے کوئی قابلِ قدر کام نہیں کر سکے۔مری کے شہریوں نے ہمیشہ سیاحوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھایا’ہوٹلز مافیا نے ہمیشہ ہنگامی صورت حال میں سیاحوں کی جیبیں کاٹیں۔ٹرانسپوڑٹ مافیا نے ہمیشہ چھری ہاتھ میں رکھی اور سیاحوں کا خون کیا’ہماری حکومت آج تک مری میں کوئی باقاعدہ سسٹم متعارف نہیں کروا سکی جس سے سیاحت کو فروغ ملتا یا جس سے سیاحوں کے لیے آسانیاں پیدا ہوتیں۔آپ خود اندازہ کر لیں کہ دو روز قبل مری میں ہوٹلوں والے ایک کمرے کا پچیس سے پچاس ہزار تک وصول کرتے رہے’ایسے میں سیاح کہاں جاتے ’لہٰذا انھوں نے گاڑیوں میں ہی رکنے کا فیصلہ کیا اور یوں یہ گاڑیاں برف کا تابوت ثابت ہوئیں۔میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ یہ سسٹم اگلے بیس تیس سال بھی ایسا ہی رہے گا کیونکہ ہم قوم نہیں بلکہ بھیڑ بکریوں کا ریوڑ ہیں’ہماری ذہنی پس ماندگی کبھی ختم نہیں ہو سکتی اور ہم ایسے ہی ایک ہجوم کی طرح زندگی گزار دیں گے۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply