مری جانے والوں کا قاتل کون؟۔۔نجم ولی خان

پی ٹی آئی حکومت کی نااہلی نے مجھے اس سے زیادہ کبھی اذیت اور تکلیف نہیں دی، میری آنکھیں سرخ ہو رہی ہیں اور کان جل رہے ہیں، میرے واٹس ایپ میں مری جانے والوں کی بے بسی سے مرنے کی ویڈیوز عذاب بنی ہوئی ہیں۔ مری میرا عشق ہے، مجھے اس کی سڑکوں پر گاڑی ڈرائیو کرنا رومانوی لگتا ہے۔ مجھے نئی بننے والی ایکسپریس وے کے بجائے کمپنی باغ اور چھرا پانی سے ہوتے ہوئے کلڈانہ اور پھر جی پی او چوک تک جانا ہمیشہ سے پسند ہے۔ میرا دل کرتا ہے کہ میں جب بھی مری جاؤں تو نتھیا گلی کی طرف نکل جاؤں۔ سڑک کے کنارے پکنک پوائنٹس پر بندروں کے ساتھ کھیلنا فطرت کے قریب تر لے جاتا ہے اور پھر نتھیا گلی سے ایبٹ آباد کی ڈرائیو بھی مسحور کن ہے۔ ہم لاہوریوں کو برف باری ہمیشہ سے اچھی لگتی ہے اور جب بھی برف پڑنے لگے تو دل ملکہ کوہسار کی طرف کھنچنے لگتا ہے۔
میں نے بہت ساروں کو کہتے سنا کہ جو لوگ اس موسم میں مری گئے، انہیں جانا ہی نہیں چاہئے تھا،میرا ان سے سوال ہے کہ پھر کب جانا چاہیے تھا۔ایک عام آدمی کواطلاع ملتی ہے کہ مری میں برف باری ہو رہی ہے تو وہ اپنے گھروالوں کے ساتھ پروگرام بناتا ہے۔ اسے کس طرح علم ہوسکتا ہے کہ اس کے ساتھ ہزاروں یا لاکھوں دوسرے لوگ بھی یہی پروگرام بنا رہے ہیں۔ وہ کیسے جان سکتا ہے کہ جب وہ مری کے قریب پہنچے گا تو وہاں حکومت اور انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے اس کی گاڑی ٹریفک میں پھنس جائے گی۔ اس کے پاس یہ جاننے کا کیا طریق کار ہے کہ اس مرتبہ برف باری معمول سے زیادہ ہو گی اور مری کی انتظامیہ سیاحوں سے بھرپور ٹیکس لینے کے باوجود نہ سڑکیں صاف کرنے کی اہل ہوگی اور نہ ہی ٹریفک کو بحال کرنے کی۔ اس کے سامنے وفاقی وزراء کے ٹویٹس پڑے ہوں گے جن میں وہ بغلیں بجا رہے ہوں گے اس مرتبہ ایک لاکھ گاڑیاں مری میں داخل ہوگئی ہیں اور انہوں نے منہ میں باجے پکڑے ہوں گے جن سے صدائیں نکل رہی ہوں گی ، دیکھو دیکھو، عمران خان کے دور میں لوگوں نے کتنا کمانا شروع کر دیا ہے کہ سب کے سب مری جانے لگے ہیں۔ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ غربت اور مہنگائی ہے وہ سب جھوٹ بولتے ہیں، بکواس کرتے ہیں۔
مجھے حکمرانوں سے کہنا ہے کہ اگر مجھے ہی یہ علم رکھنا ہے کہ مری میں برف باری کتنی ہوگی، مجھے ہی برف باری میں پھنسنے کے بعد نکلنے کے انتظامات پورے رکھنے ہیں، وہاں کی ٹریفک کو بھی میں نے ہی کنٹرول کرنا ہے، وہاں پھنس جانے والوں نے اپنی مدد بھی خود ہی کرنی ہے تو ضلعے اور تحصیل کی پوری انتظامیہ کیا صرف اس لئے وہاں براجمان ہے کہ جب جج، جرنیل، بیوروکریٹ، وزیر اور اشرافیہ کی دوسری نسلیں وہاں جائیں تو وہ ہٹو بچو کی صدائیں لگائیں، ان کی گاڑیوں کے لئے مری کی مال روڈ بھی کھول دیں۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اموات اس مرتبہ ہوئی ہیں مگر سانحہ ہر مرتبہ ہی ہوتے ہوتے رہ جاتا ہے۔ آپ کسی بھی جانب سے جب گلیات میں داخل ہونے لگتے ہیں تو آپ سے پچاس روپے اضافی ٹیکس بھی لے لیا جاتا ہے اور اگر انتظامات نہیں کر سکتے تو پھر یہ ٹیکس کہاں جاتا ہے؟
میں لاہور میں کینٹ سے ائیرپورٹ جاتے ہوئے مشہور و معروف شادی ہالوں کے اتوار بازار کے سامنے آرمی میوزیم میںا پنی فیملی کے ساتھ گیا تو مجھے گارڈز نے کہا کہ آپ اندر نہیں جا سکتے۔ میں نے ان سے کہا کہ ابھی میوزیم کے کلوز ہونے میں دو گھنٹے کا وقت باقی ہے اورہم اس وقت میں آسانی سے بچوں کو میوزیم دکھا سکتے ہیں۔ ان کا جواب تھا کہ جتنے لوگ ایک دن میں وزٹ کر سکتے ہیں ان کی تعداد پوری ہوچکی ہے لہٰذا آپ کل آئیں۔ مجھے یہ واقعہ مری کے سانحے کے بارے پڑھتے ہوئے یاد آیا۔ کیا یہ آسان کام نہیں کہ ہر برس ٹریفک بلاک اور افراتفری کی خبریں آنے کے بجائے ایک مرتبہ سائنٹیفک سٹڈی کر لی جائے کہ مری کے پہاڑ زیادہ سے زیادہ کتنی گاڑیوں کا بوجھ برداشت کرسکتے ہیں بالخصوص مری کے مال روڈ اور ملحقہ علاقوں میں کتنی گاڑیاں جا سکتی ہیں۔ اسی طرح بھوربن اور نتھیا گلی کے بارے میں بھی تحقیق کی جا سکتی ہے۔ مری جانے کے لئے تحصیل انتظامیہ کی کسی ویب سائیٹ کے ذریعے ٹوکن حاصل کیا جا سکتا ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ کمرشل گاڑیوں کے لئے بھی شیڈول ہو سکتا ہے۔
یہ بات طے شدہ ہے کہ جب بھی برف باری ہو گی تو ملک بھر سے لوگ مری کا رخ کریں گے
برف باری کتنی ہوسکتی ہے اورا س موقعے پر سڑکیں کھلی رکھنے کے کیا انتظامات ہیں، اس بارے ہر مرتبہ کوئی نہ کوئی تیاری کی میٹنگ ہونی چاہئے اور اس کی تفصیلات میڈیا پر بھی جاری ہونی چاہئیں۔ اصل ایشو یہ ہے کہ ہم نے مری ہی نہیں بلکہ پورے ملک کو ہی اللہ کے سہارے پر چھوڑا ہوا ہے۔ یہ خود بخود چلتا جا رہا ہے حالانکہ تھوڑی سے مینجمنٹ سی بہت بڑی بڑی مشکلات سے بچا جا سکتا ہے۔ میں حیران ہوں کہ جب یہ لوگ برف باری اور راستے بند ہونے کی وجہ سے گاڑیوں میں پھنسے ہوں گے تو یقینی طور پر انہوں نے اپنے پیاروں کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کے ساتھ رابطے کی بھی کوشش کی ہو گی۔ کیا مری کی انتظامیہ نے سڑکوں پر کسی قسم کی ہیلپ لائن کے بورڈ لگا رکھے ہیں، مجھے تویہ کہیں نظر نہیں آئے۔کیا مری کی انتظامیہ جب مری میں داخل ہونے والی ہر گاڑی سے ٹیکس لیتی ہے تو اس ٹکٹ پر یہ بھی لکھتی ہے کہ وہ اس ٹیکس کے بدلے میں انہیں کیا سہولیا ت دے رہی ہے یا اسے محض جگا ٹیکس کے طو رپر وصول کر لیا جاتا ہے۔ کیا کوئی بتاتا ہے کہ جب آپ برفباری میں پھنس جائیں تو آپ نے ہیٹر لگا کر گاڑی میں سونا ہرگز نہیں ہے۔
جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ مری میں مرنے والے اپنی موت کے خود ذمے دار ہیں وہ پرلے درجے کے بے شرم اور ظالم ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو موٹروے پر ریپ کی ذمہ داری عورت پر ڈالتے ہیں کہ وہ وہاں گئی ہی کیوں۔ ان سے کوئی بعید نہیں کہ یہ سانحہ اے پی ایس کی ذمہ داری بھی بچوں پر ہی ڈال دیں کہ اگر وہ اس روز چھٹی کر لیتے تو نہ مرتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو حکومت میں نہیں تھے تو حکمران برے اور کرپٹ تھے اور جب حکمران بنے تو عوام برے اور کرپٹ ہو گئے ۔مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ مری میں مرنے والوں کے قاتل حکمران اور متعلقہ افسران ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ وہاں کوئی تگڑا وزیر مشیر پھنس جاتا تو وہ موٹا سا ڈی ایس پی جو سانحے میں اپنی منحوس تصویر کے ساتھ پبلسٹی کروا رہا ہے ،جس کے ٹریفک اہلکاروں کا کام ہی یہ ہے کہ جھیکا گلی اور گلڈانہ میں آنے والی ہر کمرشل گاڑی سے کمائی کی جائے، پیٹ کے بل گھسٹ کر بھی اس زمینی خدا تک پہنچتا،ا س کے لئے راستے بناتا، وہاں کا اسسٹنٹ کمشنرزان کے لئے پانی، چائے ، خوراک ہی نہ لے جاتا ان کے جوتے تک سیدھے کر رہا ہوتامگر ان پھنسنے والوں میں کوئی اشرافیہ سے تعلق نہیں رکھتا تھا لہٰذا جب لوگ بیس ، بائیس گھنٹوں تک صدائیں لگاتے اور مدد کا انتظار کرتے سسک سسک کر مر رہے تھے تویہ سب موسم انجوائے کر رہے تھے۔ وہ لوگ جنہیں ملک کے نظم ونسق کی ذمے داری ملی ہوئی ہے وہ ٹویٹس کر کے داد لے رہے تھے۔
جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا۔۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply