لارڈ نذیر پر بچوں سے جنسی زیادتی کا جرم ثابت

(نامہ نگار  خصوصی)لارڈ نذیر پر بچوں سے جنسی زیادتی کا جرم ثابت ہوگیا۔تفصیلات کے مطابق   مقدمے  کا فیصلہ ایک فون کال کے اہم ثبوت پر مبنی ہے جو متاثرہ خاتون نے لارڈ نذیر احمد کے خلاف زیادتی کے بارے میں 2016 کی پولیس رپورٹ کے بعد دوسرے متاثرہ شخص کو کی تھی۔ لارڈ نذیر احمد کو ایک لڑکے سے سنگین جنسی زیادتی کا مجرم بھی ٹھہرایا جا چکا ہے۔ جبکہ کشمیری سیاستدان نے سختی سے تمام الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ انہیں نشانہ بنایا جارہا ہے۔

برطانیہ کے ہاؤس آف لارڈز کے سابق رکن نذیر احمد نے اعلان کیا ہے کہ وہ 5 جنوری 2020 بروز بدھ  کراؤن کورٹ کی جانب سے سنائے گئے فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے جو ان کے خلاف آٹھ مبینہ جنسی جرائم کی وجہ سے صادرکیا گیا ہے ۔ جبکہ جج جسٹس لیونڈر اس بات کا فیصلہ بعد میں کریں گے کہ لارڈ نذیر احمد کو سزا کب سنائی جائے گی ۔

لارڈ نذیر کے قانونی نمائندے نے فیصلے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت میں پیش کئے گئے ثبوت کے مکمل طور پر مخالف ہے انہوں نے کہا کہ ہم نے وکلاء کو فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کی ہدایت دی  ہے۔ شیفلڈ کراؤن کورٹ نے اعلان کیا کہ لارڈ نذیر کو 1970کی دہائی میں ایک نوجوان لڑکی کے ساتھ عصمت دری کی کوشش کرنے کا مرتکب پایا گیا ہے۔ لارڈ نذیر اور وہ لڑکی جو اس وقت اپنے لڑکپن کے دور میں تھے آپس میں فرسٹ کزن ہیں۔ اسی دور میں لارڈ نذیر پر ایک لڑکے پر کی گئی سنگین جنسی زیادتی کا جرم بھی ثابت ہوچکا ہے جبکہ وہ لڑکا بھی لارڈ نذیر کا فرسٹ کزن ہے۔ کراؤن کورٹ کے ججوں کو بتایا گیا کہ جنسی زیادتی کا یہ گھناؤنا فعل رودرھم میں ان کے ساتھ کئی سالوں میں بار بار ہا دہرایا گیا۔ کیس کی سماعت کے آغاز میں پراسیکیوٹر ٹام لٹل ( کیو سی) نے عدالت کو بتایا کہ لارڈ احمد نے 1970 کی دہائی کے اوائل میں ایک لڑکی کو عصمت دری کا نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی جب ان کی خود کی عمر سولہ یا سترہ سال   تھی اور وہ لڑکی اس وقت ان سے عمر میں بہت چھوٹی تھی۔ لارڈ نذیر احمد کے خلاف الزامات دو مدعیوں ایک عورت اور ایک مرد کی جانب سے1971 اور 1974 کے دوران ہونے والے مبینہ زیادتی کے واقعات سے متعلق ہیں جب وہ نو عمر تھے۔

لارڈ احمد نے یہ دعویٰ کیا کہ یہ تمام جھوٹے الزامات ہیں جبکہ دونوں متاثرین کے درمیان ایک فون کال پر ہوئی بات چیت کی ریکارڈنگ سے عدالت کو یہ ظاہر ہوا ہے کہ یہ کوئی جھوٹی من گھڑت کہانی نہیں ہے۔ یہ فون کال اس خاتون نے 2016 میں پولیس رپورٹ درج کروانے کے بعد دوسرے متاثرہ شخص کو کی تھی۔ 64 سالہ برطانوی کشمیری سیاستدان نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا کہ ان کے خلاف سازش ہے اور کہا کہ ان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

لارڈ نذیر کے کیس نے گزشتہ چند سالوں میں مختلف    رخ  کیے۔ یہ مقدمہ فرد جرم عائد ہونے کے بعد پہلی مرتبہ مارچ 2019 میں شروع ہوا مگر ایک سال بعد ہی مارچ 2020 میں ختم ہوگیا۔ جج نے پولیس اور کراؤن پروسیکیوشن سروس کی اس سلسلے میں ناکامی کی وجہ سے مقدمے کی سماعت کو  اپنے طور پر روکنے کا فیصلہ کیا اور مقدمے کو ادھورا چھوڑ کر مارچ 2020 میں خارج کردیا۔ لارڈ نذیر کی قانونی ٹیم کا موقف تھا کہ تفتیش کے پورے عمل کے ساتھ بدعنوانی کی گئی۔ لارڈ نذیر کو منصفانہ سماعت سے محروم کرنے کے لیے  ہر ممکن اقدامات کئے گئے۔ کورٹ کے طریقہ کار میں ہیراپھیری اور تاخیر ہوئی، ثبوت و شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی اور کراؤن پراسیکیوشن سروس اس کیس سے متعلقہ اہم معلومات ظاہر کرنے میں ناکام رہی۔ اس کے ساتھ ساتھ ملزم کو میڈیا کی جانب سے یکطرفہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

نذیر احمد میرپور آزاد کشمیر میں پیدا ہوئے مگر ان کی سیاسی جڑیں رودرھم میں پروان چڑھیں، 18 سال کی عمر میں لیبر پارٹی میں شمولیت اختیار کی، دس سال تک رودرھم کونسل میں کونسلر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے بعد 1998 میں ہاؤس آف لارڈز کے رکن منتخب ہوئے۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply