• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سلمان تاثیر کا قتل کس بڑی سازش کا حصہ تھا؟۔۔عامر حسینی

سلمان تاثیر کا قتل کس بڑی سازش کا حصہ تھا؟۔۔عامر حسینی

چار جنوری 2011ء کی تاریخ تھی جب میں فورٹ ریسٹورنٹ خانیوال میں مصدق مہدی جعفری اور بھائی اعظم خان کے ساتھ بیٹھا کافی پی رہا تھا کہ ریستوران کے ہال میں جانب شمال لگی ایل ای ڈی اسکرین پہ بریکنگ نیوز چلنے لگی کہ کوہسار مارکیٹ میں ایک ریستوران کے باہر گورنر پنجاب سلمان تاثیر پہ فائرنگ، اُن پہ گولی چلانے والا ان کے حفاظتی اسکواڈ میں شامل ایلیٹ فورس کا اہلکار ملک ممتاز حسین ہے۔ کچھ لمحوں بعد گورنر پنجاب کے جاں بحق ہونے کی تصدیق بھی کردی گئی –
یہ سخت سردی اور دھند میں لپٹا ہوا دن تھا۔
پورے پنجاب میں سخت کہرا پڑرہا تھا اور کاروبارِ زندگی معطل تھا۔ جیسے ہی یہ خبر شہر میں پھیلنا شروع ہوئی شہر میں اکثر دکانیں بند ہوگئیں ۔

سلمان تاثیر کا قتل ایک ایسے وقت میں ہوا تھا جب پی پی پی اور اے این پی کے خلاف تحریک طالبان پاکستان اور اس کی جملہ عسکری اتحادی تنظیمیں پوری طاقت اور شدت کے ساتھ دہشت گردی اور اہدافی قتل و غارت گری کی مہم چلائے ہوئے تھی –
پاکستان پیپلزپارٹی میں شامل صوفی سنی ممبر قومی اسمبلی سید حامد سعید کاظمی کے خلاف بھی ایک ہانکا لگایا جاچکا تھا –
ملک کے کئی حصوں میں شیعہ، صوفی سُنی، مسیحی، ہندؤ ،سکھ، احمدی مذھبی برادریوں پہ خوفناک دہشت گردانہ حملے جاری تھے –
پی پی پی کی اتحادی حکومت کے خلاف مرکز، سندھ ، کے پی کے اور بلوچستان نواز۔افتخار۔کیانی اتحاد ٹرائیکا کی شکل میں واضح سامنے آگیا تھا – اور اسٹیبلشمنٹ کے اندر ایک اور لابی ڈی جی آئی ایس آئی کی قیادت میں تحریک انصاف کو کنگ پارٹی میں بدلنے کے لیے کوشاں تھی –
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پی پی پی کا جو وژن تھا اُسے ایک طرف تو خود کیانی۔افتخار۔نواز ٹرائیکا کی مخالفت کا سامنا تھا تو دوسری طرف اُس سے بھی کہیں زیادہ کھل کر اس وژن اور بیانیہ کو تحریک انصاف اور اس کے پس پشت کھڑی فوجی اسٹبلشمنٹ کے دھڑے کی طرف سے بھی مخالفت کا سامنا تھا۔

پاکستان مسلم لیگ نواز ہو یا جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام ہو یا جمعیت اہلحدیث یا پاکستان تحریک انصاف ہو اور باقی ماندہ مذہبی دائیں بازو کی جماعتیں جو ایم ایم اے، متحدہ دینی محاذ، دفاع کونسل پاکستان میں کھڑی تھیں اُن سب کا اس بات پہ اتفاق تھا کہ پاکستان نے نائن الیون کے بعد افغانستان میں جہاد اور تزویراتی گہرائی کی پالیسی میں جو ردوبدل کیا اسے پاکستان کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والا اقدام قرار دے رکھا تھا۔
پاکستان میں پی پی پی، اے این پی، ایم کیو ایم، پشتون و بلوچ قوم پرست سیاسی جماعتیں تھیں جنھوں نے افغان جہاد اور کشمہر جہاد دونوں پروجیکٹس کو نہ ختم ہونے والی تباہی پھیلانے والی پالیسیاں قرار دے رکھا تھا اور وہ پاکستان میں نجی مذہبی عسکریت پسند نیٹ ورک کو ختم کرنے کے حق میں تھیں –
پی پی پی کی مرکز میں اتحادی حکومت عالمی برادری کے ساتھ چل کر افغان ایشو کو حل کرنے کے حق میں تھیں اور چاہتی تھی کہ فوجی اسٹبلشمنٹ افغانستان اور کشمیر کے حوالے سے جنرل ضیاء کے دور سے چلی آرہی تزویراتی گہرائی کی پالیسیوں کو ترک کردے۔

جنرل مشرف کے زمانے سے پاکستان کا دایاں بازو مشرف پہ یہ تنقید کرتا آرہا تھا کہ فوج اُس کی قیادت میں جہاد افغانستان اور جہاد کشمیر چھوڑ چُکی ہے – اور یہ دایاں بازو پی پی پی کی اتحادی حکومت کو بھی مغربی اشارے پہ جہاد اسلامی کے خلاف بتارہے تھے بلکہ امریکی ایجنٹ تک کی پھبتی کسی جارہی تھی –
پی پی پی ایک طرف تو ریاستی اداروں کے اندر اُس کے خلاف ہورہی شازشں سے نبٹ رہی تھی۔ عدالتی سو موٹو ایکشن ایک برا ہتھیار بن کر سامنے آیا تھا۔ اُسے فوجی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے پہلے اُس پہ دباؤ تھا کہ وہ افغان اور کشمیر ایشو پہ عالمی برادری کے ساتھ نہ چلے بلکہ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے اس ایشو پہ جس قسم کی کیموفلاج پالیسی جو دراصل تزویراتی گہرائی کی پالیسی کا مودیفائی ورشن تھا کو اختیار کررکھا تھا –
پاکستان میں جہادی نیٹ ورک تقسیم تھا۔
پاکستانی فوجی اسٹبلشمنٹ کی ٹاپ کی لیڈرشپ بھی تقسیم تھی – ایک گروہ فاٹا میں تحریک طالبان اور القاعدہ جیسی تنظیموں کے لوگوں کی آمد پہ شروع دن سے تذبذب کا شکار تھا۔ وہ یہ چاہتا تھا کہ پاکستان کی ملٹری، خاصہ دار، ایف سی یہاں پہ موجود افغان جہادی نیٹ ورک کے خلاف استعمال نہ کی جائیں اور ساتھ وہ یہ بھی چاہتا تھا کہ ٹی پی پی اور دیگر جہادی تنظیمیں بھی کیموفلاج ہوجائیں اور فاٹا میں نفاز شریعت کے نام پہ مسلح تحریک مت چلائیں، خفیہ بیس تو ہو اعلانیہ نہ ہو۔ اس گروہ کی قیادت جنرل مشرف کررہے تھے۔
پاکستانی فوجی اسٹبلشمنٹ میں ایسا ایلیمنٹ بھی تھا جو جہادی نیٹ ورک کو اب سرے سے ایک بوجھ تصور کررہا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ عالمی حالات میں موافقت اور فضا کو استعمال کرتے ہوئے اس سارے گند سے جان چھڑالی جائے – لیکن یہ ایلیمنٹ کمزور تھا،اور یہ کمزور ہی رہا۔

تیسرا ایلیمنٹ جسے فوج کی کم از  کم اوپر سے درجہ بندی میں ہم تیسرے ریکس سے شروع کرسکتے ہیں سے لیکر نیچے تک موجود تھا اور یہ کسی قیمت پہ امریکہ کی افغانستان پہ حملے اور طالبان کے اقتدار کا خاتمہ نہیں چاہتا اس درجہ میں پاکستانی فوج سمیت انتظامیہ کے ان سربراہوں کو کافر و مرتد قرار دیکر جو فاٹا میں آپریشن کے حق میں نہیں تھے جو مجاہدین سے ہمدردی تو رکھتے تھے لیکن ریاست مدینہ پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھانے کو غلط سمجھتے تھے – یہ سارا الزام مشرف کو دیتے تھے۔
لیکن ایک بات طے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ پہ جن کا کنٹرول رہا یعنی چیف آف آرمی اسٹاف، چیف آف جوائنٹ اسٹاف کمیٹی، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایم او اُن میں یہ اتفاق پایا جاتا تھا کہ افغان جنگ دوران فوج تزویراتی گہرائی کے تناظر میں جتنے اثاثے بچاسکتی ہے بچائے اور اسی سے” اچھے جہادی” اور “بُرے جہادی” کی تقسیم باقی رکھی گئی ۔

فوجی اسٹبلشمنٹ نے افغان طالبان کی دوست لیڈر شپ کو تحفظ فراہم. کیا، حقانی نیٹ ورک کی سہولت کاری کی – تحریک طالبان پاکستان کے اندر مداخلت کاری جاری رکھی –
فوجی اسٹیبلشمنٹ 80ء کی دہائی کی ڈیپ اسٹیٹ پالیسی سے پوری طرح دستبردار نہیں ہوئی تھی اور اُس کے بظاہر ماڈریٹ نظر آنے والے جنرل سربراہ نے ضیاء الحق کی باقیات پہ مشتمل چوہدری شجاعت حسین، چوہدری پرویز الٰہی  کی قیادت میں کنگ پارٹی تشکیل کرائی اور اُس نے دفاع افغانستان کونسل کے اندر سے ایم ایم اے بنوائی – جسے بے نظیر بھٹو نے ملا ملٹری اتحاد قرار دیا تھا۔ جنرل مشرف کے بارے میں ایک بات تو واضح اور وہ یہ کہ وہ افغان طالبان کی فلم اور کشمیر میں مداخلت کی فلم کو ڈبے میں بند کرنے کے حق میں ہرگز نہیں تھا بلکہ وہ بدلے حالات میں کیموفلاجنگ پالیسی پہ عمل پیرا تھا جسے اس کے ادارے کی بھی کافی اسپورٹ حاصل تھی –

پاکستان کی مین اسٹریم دینی مذہبی جماعتوں کی مرکزی قیادت کے اگر عمل کو دیکھا جائے تو وہ اُن کے بیانیہ کا الٹ تھا – وہ جنرل مشرف اور فوجی قیادت پہ افغان اور کشمیر پالیسی پہ یو ٹرن لینے کا الزام دیتے اور عملا ً وہ فوج کی پالیسی کی حمایت کررہے تھے –
یہی طرز مسلم لیگ نواز کا تھا۔ پی پی پی اور اے این پی وہ واحد جماعتیں تھیں جو تزویراتی گہرائی اور ڈیپ اسٹیٹ پالیسی کو ناقابل تلافی نقصان کا سبب قرار دیتے تھے۔
پی پی پی کی اتحادی حکومت ایک طرف تو پاکستان پہ دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ تعاون، پشت پناہی، پراکسی وار چلانے جیسے الزامات کا خاتمہ چاہتی اور اس کے لیے وہ وزرات خارجہ کا کنٹرول، وزرات داخلہ کے تحت آئی ایس آئی کو کرنا چاہتی تھی – وہ کالعدم تنظیموں اور نجی مسلح لشکروں کو ختم کرنا چاہتی تھی – لیکن اُس راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ اس زمانے میں چیف آرمی اسٹاف جنرل کیانی، چیف جسٹس افتخار چوہدری اور ان کے ساتھی ججز تھے جن سے میاں نواز شریف نے موقع  پرستانہ گٹھ جوڑ کرلیا تھا۔ اور اس ٹرائیکا کی طرف سے پی پی پی کی حکومت پہ دباؤ بڑھانے اور اس کا دھڑن تختہ جیسی رائے عامہ بنانے کے لیے بکاؤ مال میڈیا گروپ تھے؛
پی پی پی کا صدر زرداری حسین حقانی جیسوں سے ملک کر فوج کو کمزور کرنا چاہتے ہیں اسی تناظر میں میمو گیٹ سازش بھی تیار کی گئی –
پی پی پی کرپشن کے ریکارڈ توڑ رہی ہے اور اُس کی گورننس بالکل بے کار ہے ۔

مذہبی بنیاد پرست جماعتیں اور جہادی نیٹ ورک لے نزدیک پی ہی پی کی حکومت لادین، سیکولر اور روشن خیالی، لبرل ازم، اعتدال پسندی کی آڑ میں پاکستان کے اسلامی تشخص کو برباد کرنا چاہتی ہے۔
پنجاب میں مسلم لیگ نواز نے فرقہ پرست اور جہادی اور مذہبی تکفیری قوتوں کے ساتھ اشتراک و تعاون بڑھایا اور ٹی وی چینلوں پہ پی پی پی کے خلاف مذھبی منافرت پہ مبنی پروپیگنڈا تیز ہوگیا۔ کیونکہ مسلم لیگ نواز کو گورنر ہاؤس کے پی پی پی کے فعال سیاسی مرکز میں تبدیل ہونے کی بڑی تکلیف تھی۔وہ لاہور میں پی پی پی کے دوبارہ سرگرم ہونے کو برداشت کرنے کو تیار نہ تھی – فوجی قیادت نواز لیگ کی پشت پناہی کرتی اور لاہور ہائیکورٹ پی پی پی کی لیڈرشپ کو سیاست سے روکنے کی ڈیوٹی پہ فائز تھی ۔

ایسے ناسازگار حالات میں بھی پی پی پی نے بلاسفیمی، تکفیریت ، مذہبی انتہاپسندی کی ڈھال بننے والے آئینی شقوں میں موجود نقائص کو دور کرنے کی ٹھانی – وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور ملک شہباز بھٹی کو بلاسفیمی قوانین میں اصلاحات کمیٹی کا چیئرمین آصف علی زرداری نے ملک شہباز بھٹی کو بنایا اور اسی دوران آسیہ بی بی توہین کیس سامنے آیا تو سابق گونر پنجاب سلمان تاثیر اس عورت کو بے گناہ سمجھتے تھے وہ اس کی مدد کے لیے میدان میں اترے اور انھوں اس حوالے سے ہر فورم پہ آواز اٹھائی ، اُن کی اس حمائت پہ مسلم لیگ نواز اور ان کے خرید کردہ میڈیا اینکرز نے سلمان تاثیر کے خلاف بنیاد پرست اور فرقہ پرست مولویوں کو پرائم ٹائم شوز میں جگہ دینی شروع کردی ۔
پنجاب میں مساجد و مدارس میں دینی اجتماعات، نماز جمعہ کے خطبات اور اُن کی سوشل میڈیا پہ بازگشت میں تیزی آگئی –

متحدہ مجلس عمل، متحدہ دینی محاز (سپاہ صحابہ/راہ حق پارٹی/سمیع الحق گروپ)، تحریک حُرمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، تحریک لبیک یارسول اللہ، سنی تحریک پاکستان، نواز لیگ کی اتحادی مرکزی جمعیت اہل حدیث، پاکستان علماء کونسل (مولانا طاہر اشرفی) یہ سب کے سب آسیہ بی بی کی آڑ لیکر سلمان تاثیر پہ حملہ آور ہوگئے – تحریک طالبان پاکستان نے بھی سلمان تاثیر، ملک شہباز بھٹی اور وفاقی وزیر مذھبی امور حامد سعید کاظمی کو اپنی ہٹ لسٹ پہ رکھ لیا۔

پاکستانی کمرشل لبرل مافیا جو مسلم لیگ نواز کے پے رول پہ کام کررہا تھا اُس نے اس ساری مہم میں نواز لیگ کے لیڈنگ رول اور اس میں پاکستان کی تمام مسالک اور فرقوں کے بنیاد پرست مذہبی جنونی پرتوں کی شرکت اور جہادی فرقہ پرست مسلح نیٹ ورک کی شراکت کو نظر انداز کردیا اور اسے صرف اور صرف “بریلوی عسکریت پسندی” کے ابھار کہنا شروع کردیا۔ جبکہ اس کمرشل لبرل مافیا کو اچھے سے معلوم تھا کہ بریلوی مکتبہ فکر میں دعوت اسلامی کے مرکزی امیر اور تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری سمیت کئی مسلم سُنی اسکالرز نے سلمان تاثیر کو توہین کا مرتکب نہیں مانا تھا – اور خود سلما تاثیر کا گھرانہ صوفی سنی گھرانہ تھا۔ پی پی پی کی پنجاب، سندھ، بلوچستان اور کے پی کے میں بریلوی برادری میں کافی بڑی حصہ پی پی پی کا حامی، ورکرز اور عہدے دار ہیں جو پی پی پی کے اعتدال پسند موقف کے زبردست حامی ہیں۔ اس دور میں نجم سیٹھی، رضا رومی، بینا سرور، عرفان حسین سمیت کئی لبرل لکھاریوں، اینکرز پرسنز (مہر بخاری، حامد میر، ڈاکٹر دانش، داکٹر شاہد مسعود، طلعت حسین، افتخار احمد) اردو پرنٹ میڈیا کے نامور کالم نگاروں نے ایک طرف تو سلمان تاثیر کے گرد موت کا ہانکا لگانے والی مسلم لیگ نواز کے کردار کو چھپایا تو دوسری طرف اس نے پاکستان میں بلاسفیمی تحریک کو ایک فرقہ کے ساتھ نتھی کرکے اس میں فار رائٹ اور سنٹر رائٹ دونوں کے کردار کی وسعت کو ایک فرقے کے جنونیوں  تک محدود کردیا۔

لبرل پریس کے ایسے نام جو خود کو اینٹی اسٹبلشمنٹ، فوجی جنتا کے غیر جمہوری اقدامات کا مخالف کہتے تھے انھوں نے سلمان تاثیر کے خلاف مسلم لیگ نواز، فار رائٹ، سنٹر رائٹ، عدالتی اسٹبلشمنٹ اور فوجی اسٹبلشمنٹ کے باہمی گٹھ جوڑ کو چھپالیا۔
جب سلمان تاثیر قتل ہوگئے تو اسی کمرشل لبرل پریس نے پی پی پی کی قیادت خصوصی طور پہ آصف علی زرداری اور وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی پہ سلمان تاثیر اور ان کے خاندان کو تنہا چھوڑ دینے کا الزام عائد کرڈالا۔

یہ ایسے ہی الزام تھا جیسا الزام. یہی کمرشل لبرل پریس کراچی، ڈیرہ اسماعیل خان، سابق فاٹا، کوئٹہ میں شیعہ نسل کشی کے واقعات پر پی پی پی اور آصف زرداری پہ ڈالتا آیا تھا۔ اور اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھی شیعہ مذہبی جماعتیں اور ایم کیو ایم میں بیٹھے مہاجر نسل پرستی کا شکار نام نہاد شیعہ دانشور اس الزام کی خوب تشہیر کرتے تھے –
پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ کی اُس وقت کی قیادت نے پاکستان مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف اور شہباز شریف سے گٹھ جوڑ کرکے اپنی تزویراتی گہرائی اور ڈیپ اسٹیٹ پالیسی کی موڈیفائی شکل کو بچانے کے لیے پی پی پی اور اے این پی کو قربانی کا بکرا بنادیا۔ انھیں بے بس کرکے مذھبی جنونیوں کے آگے آسان ہدف بنایا۔ اور انھیں خارجہ پالیسی، داخلی سلامتی کی پالیسی اور نیشنل ایکشن پلان پہ عمل درآمد کرنے سے روکے رکھا۔ اور بے شرم، بے حیا کمرشل لبرل پریس پی پی پی اور آصف علی زرداری پہ ہی اسٹبلشمنٹ کے آگے افغان ایشو، کشمیر ایشو، پاک بھارت تعلقات ایشو پہ سپر ڈالنے کا الزام عائد کرتا رہا۔ اُس دور میں کمرشل لبرل پریس ہو یا دایاں بازو کا پریس ہو کے ہیرو جنرل کیانی، شجاع پاشا، چیف جسٹس افتخار چودھری اور اُن کے ساتھی ججز اور مسلم لیگ نواز کی قیادت، تحریک انصاف کے عمران خان تھے جو عدلیہ، پریس کی آزادی کو لاحق “شدید خطرات” سے نبرد آزما تھے – جمہوریت، عدلیہ، فوج اور معیشت کو سب سے بڑا خطرہ زرداری، گیلانی، راجا پرویز اشرف اور اُن کے دیگر فرنٹ مینوں جیسے اویس مظفر ٹپی وغیرہ سے تھا۔سیرل المیڈا جیسا آدمی ڈان میں جنرل کیانی کو مشورہ دے رہا تھا کہ وہ زرداری سے ملک کو بچانے کے لیے مارشل لاء لگادے ۔
سلمان تاثیر، ملک شہباز بھٹی کا قتل اور وفاقی وزیر مذھبی امور حامد سعید کاظمی پہ قاتلانہ حملہ پنجاب میں پی پی پی کو آؤٹ کرنے کے اس بڑے پروجیکٹ کا حصہ تھا جو نواز – شہباز نے جنرل کیانی اور افتخار چودھری کی مدد سے تیار کیا اور پھر 2013 کے الیکشن کو ریٹرننگ افسروں کے الیکشن میں بدل کر من مانے نتائج حاصل کیے گئے –

آصف علی زرداری نے بکے ہوئے میڈیا گروپوں کے جعلی اور بے بنیاد اور انتہائی اشتعال انگیز پروپیگنڈے کہ پریس کی آزادی خطرے میں ہے ، بار ایسوسی ایشنوں میں خریدے گئے وکلاء جتھوں کے بار بار شب خون کہ “عدلیہ کی آزادی خطرے میں ہے” اور جنرل کیانی و شجاع پاشا کے میمو گیٹ کیس میں حلفیہ بیان ” زرداری حکومت پاکستان کی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہی ہے” کو چیف جسٹس کی سربراہی میں بنے سپریم کورٹ بنچ میں پیش کرنے( جس کا ایک رکن قاضی فائز عیسی بھی تھا جس نے فیصلے سے اختلاف میں میمو کو درست اور مدعی کے دعوے کو سچا خیال کیا جسے ساری دنیا نے بعد ازاں اسٹبلشمنٹ کی طرف سے حکومت گرانے کی سنگین ترین کوشش مانا۔) کو بڑی ہمت اور برداشت کے ساتھ دیکھا اس دوران نہ تو عدلیہ کا بازو مروڑا گیا، نہ پریس کے خلاف کوئی قانون بنا اور نہ ہی صحافیوں کی بولی لگی – نواز شریف اور اب عمران خان کے دور میں پریس کی آزادی کیا ہوئی؟ سوشل میڈیا کی آزادی کو کیسے کیسے سائبر قوانین سے کنٹرول کیا گیا۔ اور کیسے یہ پول کھلا کہ کون سے ٹی وی چینل اور کون سے پروگرام نواز لیگ یا عمران خان گروپ یا کسی اور گروپ نے خرید رکھے ہیں – حال ہی مریم نواز کی تیسری آڈیو ٹیپ لیک ہوئی جس سے صاف پتا چلا کہ جیو ٹی وی کا پروگرام “پریس کارڈ” نواز لیگ کا سپانسرڈ ہے اور اس سے ہم یہ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ سلمان تاثیر کے خلاف اُن دنوں جن ٹی وی چینلز کے پروگراموں میں اشتعال انگیز پروپیگنڈا پھیلایا گیا وہ بھی کسی کا اسپانسرڈ کردہ ہی ہوگا۔

سلمان تاثیر کا خاندان ہو یا سید یوسف رضا گیلانی کا یا ملک شہباز بھٹی کا خاندان ہو یہ سب خاندان پی پی پی، بھٹوز سے وابستگی کی سزا پاتے رہے ہیں ان کو نہ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے بخشا، نہ سنٹر رائٹ نے اور نہ ہی فار رائٹ نے اور نہ ہی کمرشل لبرل مافیا نے یہ ان جیسے متاثرہ خاندانوں کے سامنے آصف علی زرداری کو ولن بناکر دکھانے کی کوشش کرتے رہے لیکن ان متاثرہ خاندانوں کو اچھے سے پتا ہے کہ ان کے اصل ولن کون ہیں ۔
آج پھر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کو پنجاب، کے پی کے، بلوچستان اور کراچی میں داخل ہونے اور اپنی سیاست کو وہاں زندہ کرنے سے روکنے کے لیے زبردست جھوٹے پروپیگنڈے کا سامنا ہے ۔
میڈیا پہ قابض پٹوار خانہ، یوتھیاپا اور گیٹ نمبر 24 کے انصار عباسی جیسے دربان یہ سب مل کر زرداری کی اسٹبلشمنٹ سے ڈیل کا سیاپا ڈالتے ہیں اور پھر خود ہی نواز – اسٹبلشمنٹ کے درمیان معاملات طے ہونے کی کہانیاں بناتے ہیں – اور خود ہی آصف زرداری سے اسٹبلشمنٹ کی بات چیت ختم ہونے کے دعوے کرتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج کل کراچی میں جو ڈراما جماعت اسلامی، ایم کیو ایم، پی ٹی آئی ،جی ڈی اے سندھ، جے یو آئی ایف، پاک سرزمین پارٹی نے سندھ بلدیاتی ایکٹ پہ لگا رکھا ہے وہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ کراچی کے بلدیاتی علاقوں میں پی پی پی کو کسی بھی طریقے سے بے دخل کرنے کی کوشش کی جائے – اسٹبلشمنٹ کے ایک سیکشن کو بخوبی پتا ہے کہ کراچی کی بلدیات اگر پی پی پی کے پاس آتی ہے تو پھر اردو اسپینگ برادری کے حلقوں میں جبر دھونس اور منافرت پہ مبنی نسل پرستانہ اور بنیاد پرستانہ سیاست عوامی راج کے تصور پہ مبنی سیاست کے سامنے کھڑی نہ رہ سکے گی – کوشش یہ ہورہی ہے کہ کراچی کو لسانی فسادات کی آگ میں جھونک دیا جائے  یا کسی بڑے مذہبی فساد کی نذر کردیا جائے اور پھر پی پی پی کے کسی لیڈر کا قتل ہو اور نفرت کی آگ پورے صوبے میں پھیل جائے –
مجھے کامل یقین ہے کہ پی پی پی کی قیادت اس سازش کا پورا ادراک رکھتی ہے وہ اس سازش کو بھی ناکام بنادے گی –
پی پی پی کے شہیدوں کا لہو رائیگاں نہیں جائے گا

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply