دوسرا رُخ۔۔حسان عالمگیر عباسی

اسامہ بن زید مسجد میں نمازِ عشاء کے دوران تیسری رکعت کے بعد ‘حالت التحیات’ میں عین اس وقت پہنچا جب امام کے کیے کہے کے مطابق مقتدیوں نے دائیں بائیں دیکھ اور دعائیں لے دے کر آگے پیچھے ہونا ہوتا ہے۔ مجھے ابھی چار رکعات پوری کرنی تھیں۔ اتنے میں دو بچے آئے اور مسجد کے چوڑے لش پش ستون سے گھسٹتے    ہوئے نکلنے کی کوشش کی لیکن اس وقت یہ کوشش ناکامی کی طرف بڑھتی دکھائی دی جب انھوں نے دیکھا کہ ستون اور میرے مابین بڑی قربت ہے اور جہاں سے بکری کے بچے کا گزرنا بھی محال ہے۔ یہ کوشش دم توڑ گئی جب چاچا نے پیارے بچوں کو جھڑکا اور کہا کہ جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے۔ بچے اچھے تھے اور ادب آداب پڑھ رکھا تھا لہذا خاموش رہے۔

چاچا کو پتہ نہیں کیا سوجھی یا شاید وہ بچوں کو عملی طور پہ غلط کا انجام بتانے کی نیت کر بیٹھے تھے لہذا وہ اٹھے اور میرے آگے سے ہوتے ہوئے پیچھے کو چل نکلے۔ ادب سے ہاتھ باندھے بچوں نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے چاچا سے اونچے میں ہم آواز ہوکر کہا، “انکل اب آپ خود کیوں جا رہے ہیں؟” میری مسکراہٹ اچانک کھیخ* میں بدل گئی۔ عین بیچ میں ایسا ہوا اور یوں باقی نمازی بھی متوجہ ہو گئے۔

میں سوچ رہا ہوں مجھے ان میں سے کسی پہ بھی اعتراض نہیں ہے لیکن انھیں میری وجہ سے کیوں باہم اعتراضات ہیں؟

(ایک دوسرا رخ)

Advertisements
julia rana solicitors london

اکثر مساجد میں نماز کے بعد دھکم پیل کی سی صورتحال کا سامنا رہتا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ ہمارے مذہب میں ادب آداب، اصول، ضابطے، قانون، وقت کی پابندی اور فطری تقاضوں کی بہت زیادہ اہمیت ہے جسے نظر انداز کیا جا چکا ہے۔ اگر میں تکبیر اولیٰ میں پہنچتا، باقی کی رکعات باقی نہ رہتیں، کہیں مناسب مخصوص جگہ ڈھونڈ کر باقی نماز کی ادائیگی ہوتی، بچوں کو جلدی نہ ہوتی، چاچا بچوں کو زبردست جھٹکے کی مدد سے باتیں سناتے ہوئے نہ کوستے، باقی کے لوگ توجہ سے دعاؤں میں مشغول رہتے تو چیزیں ہمواری شائستگی کا خیال رکھ لیتیں۔

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply