لیے پھرتا ہے قاصد جابجا خط(3)۔۔عاصم کلیار

احمد بشیر ایک ہنگامہ خیز شخصیت کے مالک تھے حکمران وقت سے لے کر عالم ِ دین تک کے ساتھ وہ چونچیں لڑا کر خوش ہوتے ،ان کو متنازع  بننے کا تو ہرگز کوئی شوق نہیں تھا مگر وہ اپنے نظریات کا پرچار اس شدت سے کرتے کہ دوسرے فریق کو جواب دینا ہی پڑتا ،بشیر صاحب کی بےلاگ گفتگو کے سامنے دوسروں کو جلد ہی شکست تسلیم کرنا پڑتی ،ارشاد احمد حقانی اور احمد بشیر نے کسی سیاسی نقطہ نظر کے حوالے سے ایک دوسرے کی مخالفت میں کالم در کالم لکھ کر اپنا موقف پیش کیا مگر کچھ ہفتوں کے بعد حقانی صاحب کوخاموشی اختیار کرنا پڑی ،اسی طرح ایک بار مولوی اسرار احمد اور احمد بشیر کے درمیان جب قلم کی جنگ نے کالموں میں زور پکڑا تو طے ہوا کہ اسرار صاحب مناظرے کے لیے احمد بشیر کے گھر جائیں گے ،احمد بشیر نے دلیلوں کے ساتھ ساتھ اس روز گھر پر چاۓ کا بھی انتظام کیا مگر مولانا نے نہ جانے میں ہی عافیت سمجھی۔

ادبی شخصیات کے خاکوں پر مشتمل احمد بشیر کی کتاب نے بھی کیا کیا ہنگامے برپا کیے، کتاب کے بعد کئی  لوگوں کی ازدواجی زندگی میں تلاطم آیا تو کچھ کی برسوں کی دوستی خراب ہوئی۔
احمد بشیر کے ساتھ نظریاتی سطح پر اختلاف تو ممکن ہے مگر ان کی اپنے نظریات کے ساتھ commitment یقیناً قابلِ داد ہے احمد بشیر نے وقتی آسائش کے لیے تو شاید کبھی دوستوں سے مدد طلب کی ہو گی مگر اس کو زندگی کا لازمی جزو نہیں بنایا وہ اس وقت بھی کالم لکھتے تھے جب صحافت میں بات لفافوں سے بینک اکاونٹ تک پہنچ چکی تھی ،ان کو نہ مال و زر کا لالچ تھا اور نہ ہی کسی رتبے و مرتبے کی خواہش تھی ،میں جب بھی احمد بشیر کو ملنے گیا اُن کے گھر میں زندگی کی رونق چہار سو محسوس کی ،احمد بشیر کی ساس اور ان کی بیگم گھر کے لان میں رکھے جھولے پر بیٹھی خوش گپیوں میں مصروف ہوتیں ،نیلم احمد بشیر ،اسماء  عباس اور بشرٰی انصاری کے قہقہوں کی کھنک پورے گھر میں سنائی دیتی ،کبھی کبھار پروین عاطف سے بھی وہیں ملاقات ہو جاتی۔

ایک بار میں نے احمد بشیر سے عالم بی بی(جن کا الکھ نگری میں تفصیل کے ساتھ ذکر ہے) اور زریں پنا سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی، عالم بی بی تو اس وقت تک شاید رزق ِ خاک ہو چکی تھیں مگر محترمہ زریں سے بھی احمد بشیر نے ملاقات کروانے کی بجاۓ ٹال مٹول سے کام لیا۔ زریں پنا نے احمد بشیر کی بنائی ہوئی فلم “نیلا پربت” میں کام کیا تھا ،اس فلم میں ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم کا ایک دوگانا تو محمودہ احمد بشیر کے ساتھ بھی تھا۔ احمد بشیر نے فلم سازی کی تربیت امریکہ سے حاصل کی تھی مگر “نیلا پربت” ہر لحاظ سے ایک ناکام فلم ثابت ہوئی جس کا احمد بشیر کو ملال بھی تھا اور مالی طور پر بھی کافی نقصان اٹھانا پڑا۔

اس خط میں بشیر صاحب نے اپنے ہمعصروں قدرت اللہ شہاب،ممتاز مفتی،بانو آپا اور اشفاق احمد کے بارے بےلاگ راۓ کا اظہار کیا ہے، میرے لیے  مکتوب نگار سمیت تمام شخصیات قابل عزت ہیں ان میں سے اب کوئی بھی زندہ نہیں، سوچا یہ خط جو میرے پاس امانت ہے شاید شخصیت پرستی کی ہماری اجتماعی سوچ کو بدلنے میں معاون ثابت ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

احمد بشیر سے میرا تعارف ممتاز مفتی کی خود نوشت “علی پور کا ایلی”اور “الکھ نگری” کے توسط سے ہوا، احمد بشیر قذافی اسٹیڈیم کے قریب ایک گھرمیں اپنی بیٹی کے ساتھ رہتے تھے، اپریل 1997 کی ایک روشن دوپہر کو جب احمد بشیر سے ملنے کے  لیے میں ان کی بیٹی کے گھر گیا تو تھوڑی ہی دیر بعد بشیر صاحب سفید کُرتے اور پاجامہ میں ملبوس قرینے سے سجے drawing room میں داخل ہوۓ جہاں میں بیٹھا ان کا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے کھڑے ہو کر سلام کیا تو ڈانٹتے  ہوۓ کہا دوستوں میں تکلف نہیں ہوتا ۔احمد بشیر کی طرف سے اپنے ساتھ پہلی ہی ملاقات میں دوستی کا دعویٰ سن کر میں نے اپنی جھجک کو چھپانے کے لیے  سگریٹ سلگا لی، بشیر صاحب نے بھی بیٹھتے ساتھ ہی سگریٹ طلب کی۔۔ مرتے دم تک ان کا یہ بے تکلفانہ انداز قائم رہا ،اس خط میں بھی اسی بات کی طرف انہوں نے اشارہ کرتے ہوۓ سگرٹ ساتھ لانے کے لیے  لکھا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply