ہسپتال کاؤنٹر پر دو لاکھ جمع کرواتے ہوئے میرے ہاتھ کپکپانے لگے۔ ریسیپشن پرموجود لڑکے نے جلدی جلدی کمپیوٹر انٹری کرکے مجھے وصولی کی رسید تھما دی اور میرے بقایاجات کا بل بنانے لگا۔ میں تیزی سے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر بچوں کے آئی سی یو کے شیشے والے دروازے کیساتھ لگ کر کھڑا ہوگیا۔ اندر رکھے کافی سارے وینٹی لیٹر ڈبوں میں میرا دس دن کا بیٹا پڑا ہوا تھا۔
ایک مقامی ہسپتال میں بڑے آپریشن سے پیدا ہوا، میرا بچہ پیدائش کے پانچ گھنٹوں بعد جب سانس لینے سے عاجز ہوا تو ڈاکٹر نے مجھ سے میری تنخواہ پوچھی اور کراچی کے ایک نجی ہسپتال کو ریفر کردیا کہ آپ کے بچے کو وینٹی لیٹر کی ضرورت ہے۔ ہم اس کو نہیں بچا سکتے۔ میں نے وجہ پوچھی تو بتایا گیا کہ دوران ڈلیوری بچے کے منہ میں گندہ پانی چلا گیا ہے، جس کی وجہ سے پھیپھڑوں میں انفیکشن ہو گیا۔ البتہ اس بات کا جواب نہیں ملا کہ ایسا ہوا کیسے۔
آج میرے بچے کا اٹھارواں دن تھا وینٹی لیٹر پر ،اور اب تک تیرہ لاکھ سے کچھ اوپر رقم ہو چکی تھی۔ ان اٹھارہ دنوں میں بیوی کا سونا بیچ کر،اور دفتر کے ساتھیوں سے رقم لیکر اس سلسلے کو جاری رکھے ہوئے تھا- اس دوران میرے ڈائریکٹر سالم ایوب صاحب اور منیجر عامر نے جتنا ساتھ دیا وہ ان کی بساط سے بھی بڑھ کر تھا۔
رات کے دو بجے نیند سے اٹھا کر ہسپتال بلایا جاتا اور پرچی تھما دی جاتی کل صبح دس بجے دو لاکھ جمع کروا دیں تاکہ بچے کا علاج جاری رہ سکے ۔۔
اس صبح بیگم نے کانوں سے آخری بندے نکال کر ہاتھ پر رکھ دیئے اور ڈبڈباتی آنکھوں سے مجھے دیکھا، میرا ہاتھ تھام لیا۔
“دیکھو اللہ نے ہمیں دو بچے دیئے ہیں۔۔ ۔ دوسرا لگتا ہے ہمارے نصیب میں نہیں ہے۔ ڈاکٹر بھی پُرامید نہیں ہیں۔آپ ہر کسی کے سامنے ہاتھ پھیلا پھیلا کر تھک گئے ہیں۔ ہماری قسمت ہے۔ ”
میرے دل پر جیسے چھریاں چل گئیں۔ میری آواز کھوکھلی تھی
“کیا مطلب ہے آپ کا؟۔ بچے کو مرنے دوں؟”۔
اس دن ڈاکٹر نے بھی یہی کہا کہ آپ کے بچے کا چھ مرتبہ خون بدلا گیا مگر یرقان کی زیادتی کی وجہ سے اس کا خون پھر انفیکٹڈ ہوجاتا ہے۔ بہتر ہے آپ اس کو وینٹی لیٹر سے ہٹانے دیں۔
میں نے کپکپاتے ہاتھوں سے بیوی کو فون نمبر ملایا
“ڈاکٹر نے بھی جواب دیدیا ہے۔۔ قبر کا بندوبست کرنا ہے آج شام تک بچے کو لاکر دفنا ۔ ۔ دونگا”
میں شیشے کے دروازے کے پاس کھڑا اندر جانے کی ہمت پیدا کرنے لگا،کہ آخری بار اپنے بچے کو دیکھ سکوں، اپنے جسم کی ساری طاقت جمع کرکے اندر قدم رکھ دیا۔ سامنے شیشے کے بکس میں میرا بچہ بے سدھ پڑا ہوا تھا۔ بچہ کیا تھا بس ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ تھا۔ اس کے منہ اور ناک میں نالیاں لگی ہوئی تھیں۔ دونوں ہاتھوں میں کینولا لگا ہوا تھا۔ میں آخری بار اس کو غور سے دیکھنے لگا۔
“بیٹا ۔ مجھے معاف کردو۔ میری اب بس ہوگئی ہے۔”
میں اپنے بچے سے معافی مانگنے لگا۔ حالانکہ میرا دل کررہا تھا کہ پوری دنیا بیچ دوں اور اپنے بچے کو بچالوں مگر رات دو بجے آنے والے ٹیلیفون سے ڈر لگتا تھا کہ کل صبح ایک لاکھ جمع کروا دیں۔
میں نے اپنے بیٹے پر آخری نظر ڈالی۔ میں جیسے ہی پلٹا مجھے ایسا لگا جیسے میرے بچے نے مجھے آواز دی۔
“پاپا پیسوں کیلئے آپ مجھے مار رہے ہو؟”۔
میں نے مڑ کر پیچھے دیکھا تو میرا بچہ ہاتھ پیر ہلا کر رو رہا تھا۔ میرے قدم جیسے زمین پر جم گئے۔
جلدی سے سیڑھیاں اتر کر ڈاکٹر کے روم میں گیا۔
“ڈاکٹر مجھے اپنے بچے کو بچانا ہے۔ اس کا علاج جاری رکھیں۔ میرا بچہ یوں نہیں مر سکتا۔ میرے پاس اگر پیسے نہ بھی ہوئے میں اپنا گردہ بیچ دونگا۔ میں اپنے بچے کو مرنے نہیں دونگا۔
ڈاکٹر نے مایوسی سے سر ہلایا۔مگر میرا یقین غیرمتزلزل تھا۔

دس سال بعد جب میرے اسی بچے کو ہرنیا کے آپریشن کیلئے آپریشن روم لیکر جانے لگے، تو اس کی ماں نے پوچھا
“نہال تم پریشان ہو؟”۔
اس نے مسکراتے ہوئے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا
“نہیں مما میں بالکل بھی پریشان نہیں ہوں۔میرے پاپا مجھے مرنے نہیں دیتے”۔
میرے قدم گویا زمین نے جکڑ لئے۔
Facebook Comments
آپکی تحریر قاری کو مکمل جھکڑ لیتی ہے اور ایک مسحور کن سوچ میں ڈبو دیتی ہے ۔۔ ہمیشہ لکھتے رہیے اللہ آپ کے قلم میں برکت ڈالے