• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پُرتشدد مذہبی بیانیے: خود احتسابی کا وقت۔۔عمار خان ناصر

پُرتشدد مذہبی بیانیے: خود احتسابی کا وقت۔۔عمار خان ناصر

(سیالکوٹ میں ہجوم کے ہاتھوں سری لنکن شہری کے قتل کے پس منظر میں اس موضوع پر سوشل میڈیا پر پیش کی گئی معروضات)

توہین مذہب کے الزام پر کسی کو مار دینے کے واقعات میں وقفہ جتنا کم ہوا ہے، اس پر معاشرتی ردعمل اور اخلاقی مذمت کی قوت میں بجائے اضافے کے کمی ہوئی ہے۔ ایک معمول کا اظہار افسوس ہر واقعے پر دکھائی دیتا ہے، اور پھر اگلے کسی واقعے کا لاشعوری انتظار ہونے لگتا ہے۔ اگر یہ مشاہدہ درست ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے نے نفسیاتی طور پر اس عمل کو نارملائز کر لیا ہے۔

نارملائزیشن میں کسی نئے مظہر کے بار بار اعادے اور تکرار کی وجہ سے انسانی نفسیات اسے ایک طرح سے قبول کر لیتی اور اس پر کوئی غیر معمولی ردعمل دینے کا داعیہ کھو دیتی ہے۔ نارملائزیشن، ہمیشہ معاشرتی حساسیتوں کے ایک بنے ہوئے سانچے میں ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ سانچہ، انصاف کے ایک معاشرتی قدر نہ ہونے اور گروہی جانبداریوں کو عملا فیصلہ کن اصول کی حیثیت سے قبول کرنے سے بنا ہے۔ اس سانچے میں جب نارملائزیشن ہوتی ہے تو ایسا نہیں ہوتا کہ معاشرتی ضمیر ایسے واقعات کو برا سمجھنا چھوڑ دیتا ہے، بلکہ اسے برا سمجھتے ہوئے یہ قبول کر لیتا ہے کہ جیسے اور سارے معاملات میں گروہی جانبداریاں عملا نتائج کو طے کر رہی ہیں، یہاں بھی کرتی ہیں۔ اگر طاقت کے زور پر ہر گروہ اپنے مجرموں کو بچا لے جاتا ہے تو توہین مذہب کے معاملے میں بھی گروہوں کی عصبیت جاگ اٹھتی ہے اور وہ مجرم کے خلاف قانونی کارروائی نہیں ہونے دیتے۔ ان کے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے سو یہ کافی ہوتا ہے کہ یہ کوئی انوکھی بات نہیں، ہر معاملے میں یہی ہو رہا ہے۔

پھر کچھ گروہ اس سے آگے بڑھ کر یا تو ایسے اقدامات کو جواز یا کم سے کم حسن نیت اور مذہبی جذبے کی رعایت دینے لگتے ہیں۔ یوں ایسے گروہوں کی اصل قوت خود ان کی تعداد نہیں، بلکہ وہ عمومی سانچہ ہوتا ہے جس میں اکثریت ایسی چیزوں کو نفسیاتی طور پر نارملائز کیے بغیر کوئی چارہ نہیں پاتی۔ اس معاملے کی اصل سنگینی اس پہلو سے ہے جو ہماری نظر میں ہونی چاہیے۔

توہین رسالت پر داروگیر کا سوال قرآن میں بھی زیر بحث آیا ہے، تاہم اس کی صورت موجودہ مذہبی موقف سے بالکل مختلف ہے۔ سورہ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے اس گروہ کو تفصیل سے موضوع بنایا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، آپ کے اہل خانہ اور عام مسلمان خواتین کو مسلسل اسکینڈلائز کرنے کی مہم میں مصروف تھا اور مسلمان سماج کو اجتماعی اذیت میں مبتلا کیے ہوئے تھا۔ قرآن مجید نے ان کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ دنیا وآخرت میں خدا کی لعنت کے سزوار ہیں۔ انھیں چاہیے کہ اپنی روش سے باز آ جائیں، اور اگر اس تنبیہ کے باوجود باز نہ آئے تو پھر اے پیغمبر، ہم آپ کو حکم دیں گے کہ ان کے خلاف آپریشن کریں، اور پھر یہ لوگ مدینے میں رہنے نہیں پائیں گے، بلکہ جہاں ملیں گے، ان کو پکڑ کر قتل کر دیا جائے گا۔

اس ہدایت میں قرآن نے بتایا ہے کہ یہ معاملہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے شریعت کا یعنی فقہی اصطلاح میں “حدود” کا نہیں، بلکہ سیاست شرعیہ کا معاملہ ہے۔ کوئی ایک یا چند افراد کیا، اگر پورا ایک گروہ بھی توہین رسالت کو باقاعدہ ایک مہم بنا کر مسلمانوں کے درپے آزار ہو تو اسے تنبیہ کی جائے گی، زجر وتوبیخ اور دوسرے تعزیری اقدامات سے اپنی روش بدلنے پر مجبور کیا جائے گا اور پھر بھی وہ باز نہ آئے تو اس کے خلاف آخری اور انتہائی اقدام کر کے اس کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔

توہین رسالت کے جرم کو قذف کی طرح حدود کے زمرے میں شامل نہ کرنے اور اسے سیاست شرعیہ سے متعلق قرار دینے میں گہری دینی حکمتیں مضمر ہیں۔ اسلام ایک دعوتی مذہب ہے اور عقلی ونفسي استدلالات کی بنیاد پر اپنی دعوت کو پیش کرتا ہے۔ وہ قرآن اور پیغمبر، دونوں کی حقانیت کو عقل وفطرت کے دلائل پر پرکھنے کے لیے پیش کرتا ہے اور ہر طرح کے اشکالات واعتراضات کا انھی کی روشنی میں جواب دیتا ہے۔ دوسری طرف وہ لوگوں کے مسلمہ موروثی عقائد کو چیلنج کرتا اور انھیں کفر وشرک قرار دیتے ہوئے لوگوں کو ان سے تائب ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں شدید مخالفانہ ردعمل کا پیدا ہونا ایک فطری انسانی رویہ ہے اور اس ردعمل کو صبر وتحمل کے ساتھ گوارا کرتے ہوئے حکمت کے ساتھ دعوت دین کو پیش کرتے رہنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں جو ایک دعوتی مذہب اختیار کر سکے۔ اگر اسلام اپنی پہلی ترجیح دعوت کے فروغ کے بجائے ناموس رسالت کے تحفظ کو بناتا اور مسلمان ہر گستاخ رسول کے ساتھ لڑنے بھڑنے اور مرنے مارنے کو اپنی اولین ایمانی ذمہ داری بناتے تو تاریخ میں اس کا ذکر مکے میں پیدا ہونے والے چند “شرپسندوں” کے الفاظ میں ملتا اور بس۔ یہ ترجیحات کا حکیمانہ تعین تھا جس نے اسلام کو ایک نہایت مخاصمانہ صورت حال سے، جس میں ہمہ وقت پورا معاشرہ توہین رسالت کا مرتکب ہو رہا تھا، نبرد آزما ہونے کی طاقت بخشی اور پرامن طور پر دنیا میں پھیلنے والا عالمی مذہب بنا دیا۔

پس توہین رسالت سے متعلق قرآن کی ہدایت یہی ہے کہ جس معاشرے میں مسلمان اصلا غیر مسلموں کے سامنے دعوت دین پیش کرنے کی ذمہ داری ادا کر رہے ہوں، وہاں ایسے مخالفانہ رویوں پر صبر اور اعراض سے کام لیں اور اشتعال ظاہر کر کے دعوت کی راہ میں رکاوٹ پیدا نہ کریں۔ اور جہاں ان کے پاس سیاسی طاقت ہو اور کوئی بدنہاد گروہ اپنے خبث باطن کے اظہار سے مسلمان جماعت کے احساسات وجذبات کو مجروح کرنے پر تلا ہوا ہو، وہاں پہلے مرحلے میں تنبیہ وتوبیخ سے اسے باز رکھنے کی کوشش کریں اور کسی بھی معقول طریقے سے اس میں کامیابی نہ ہو اور انتہائی اقدام کے بغیر اس فتنے سے گلوخلاصی ممکن نہ دکھائی دیتی ہو تو پھر ریاستی طاقت استعمال کر کے اس کی بیخ کنی کر دیں۔

مولانا اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:

’’کفار کی گستاخیوں پر مسلمانوں کو بے حد غصہ آتا تھا۔ وہ نامعقول یہ کرتے تھے، اس سے بڑھ کر اور کیا گستاخی اور موجب غیظ ہوگا۔ خیال کیجیے ، مسلمانوں کو کس قدر ناگوار ہوتا ہوگا کہ جان لینے اور جان دینے کو تیار ہو جاتے ہوں گے، مگر اتنی بڑی گستاخی اور ایسے سخت موجب غیظ پر حق تعالیٰ کی تعلیم سنیے۔ فرماتے ہیں:

لتبلون فی اموالکم وانفسکم الی قولہ وان تصبروا وتتقوا فان ذلک من عزم الامور۔

یعنی جان اور مال میں تمہاری آزمائشیں ہوں گی اور مشرکین اور اہل کتاب سے اذیت کی باتیں سنو گے۔

اس کی تفسیر میں مفسرین نے یہی واقعہ لکھا ہے کہ وہ اپنے اشعار میں مسلمانوں کی بیویوں کا نام لے کر اظہار تعشق کرے تھے۔ اتنی بڑی غیظ وغضب کی بات سننے کے بعد فرماتے ہیں: ان تتقوا وتصبروا۔ الخ۔ اگر تم صبر کرو اور بچو (یعنی جہالت کی باتوں سے) تو یہ بڑی عزیمت کی بات ہے۔

اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: وقل لعبادی یقول التی ھی احسن۔ میرے بندوں سے فرما دیجیے کہ وہ نرم بات کہا کریں۔ ان الشیطان ینزغ بینہم۔ شیطان درمیان میں جھڑپ کرانا چاہتا ہے۔ جب جھڑپ اور لڑائی ہوگی تو اس کا انجام یہ ہوگا کہ دونوں طرف سے عداوت بڑھ جائے گی۔ بے شک شیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے۔

یہ حق تعالیٰ کی تعلیم تھی۔ اب حدیث سنیے۔ کفار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی کو بجائے محمد کے مذمم کہتے تھے۔ اب خود ہی اندازہ کر لیجیے کہ ایسے سخت الفاظ سن کے مسلمانوں کا کیا حال ہوتا ہوگا، مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی سخت بات کو مسلمانوں کے دلوں سے کیسا ہلکا کیا۔ فرماتے ہیں: انظروا کیف صرف اللہ عنی الخ۔ یعنی دیکھو، شتم قریش کو خدا نے مجھ سے کیسے ہٹا لیا۔ وہ شتم اور لعنت کرتے ہیں مذمم کو اور میں تو محمد ہوں (میرا نام محمد ہے، مذمم نہیں۔ وہ مذمم کو برا کہہ رہے ہیں نہ کہ محمد کو)۔

اگرچہ مذمم سے نیت ان کم بختوں کی حضور کی گستاخی کی تھی، مگر حضور ہمارے غیظ وغضب کو ہلکا کرنے کے لیے فرماتے ہیں کہ میاں، یوں دل کو سمجھا لیا کرو کہ ہمارے حضور مبارک کا نام ہے ہی نہیں۔

بہرحال وہ حق تعالیٰ کی تعلیم تھی اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے۔ جب جہل کے مقابلے میں بھی خدا اور رسول کو خشونت پسند نہیں تو مناظرہ میں کب پسند ہوگی۔‘‘ (التبلیغ ج ۲۰ ص ۱۶۶۵)

مذہبی انتہاپسندی کی موجودہ صورت حال کے ذمہ دار عوامل کے حوالے سے ہمارے ہاں ایک سے زیادہ بیانیے موجود ہیں جن پر واضح طور پر فکری ونظریاتی تقسیم کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے واقعات کو مختلف بیانیے اپنی اپنی پوزیشن اور اپنے مجوزہ حل کو درست ثابت کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مثلا موجودہ صورت حال میں، ایک طبقے نے مذہب کو، دوسرے نے مذہبی طبقوں اور علماء کو، تیسرے نے مقتدر طبقوں کی پالیسیوں کو اور چوتھے نے قیام پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرایا اور، بالترتیب، ان چاروں مظاہر کے ’’بندوبست ” کو مسئلے کا حل قرار دیا۔ مذہبی طبقے نے صورت حال کی ذمہ داری مغرب میں ہونے والے واقعات، عالمی سیاسی دباو، ہماری حکومتوں کے طرز عمل اور مقامی لبرل بیانیوں پر عائد کی۔ اس نکتے پر اشتراک کے باوجود خود مذہبی حلقوں میں بھی تین الگ الگ پوزیشنز اس موقع پر واضح طور پر سامنے آئی ہیں۔

ایک پوزیشن ان زیادہ تر غیر سیاسی اہل علم کی ہے جنھوں نے اس واقعے کو بنیادی طور پر ایک انسانی واخلاقی مسئلے کے طور پر دیکھا اور بالخصوص مذہب کے سوء استعمال کے پہلو سے یہ مناسب سمجھا کہ مذہبی نمائندوں کی حیثیت سے سری لنکا کے ہائی کمشنر سے مل کر تعزیت کریں اور یوم مذمت منانے کا اعلان کریں۔

دوسری پوزیشن اس مذہبی سیاسی طبقے کی ہے جس نے اس واقعے سے مذہبی طبقوں پر آنے والے دباؤ کو سیاسی زاویے سے دیکھا اور اس دباؤ میں مزید اضافے کی پیش بندی کرنا چاہی۔ مولانا فضل الرحمن نے اسی نقطہ نظر سے واقعے کی مذمت کو بین الاقوامی حالات اور حکومتی پالیسی وغیرہ سے نتھی کر دیا، اور اسی حلقے کی طرف سے علماء کے ہائی کمشنر سے تعزیت کے عمل پر تحفظات بھی ظاہر کیے گئے۔

تیسری پوزیشن تحریک لبیک اور ان کے ہمدردوں کی ہے۔ اگرچہ سیالکوٹ کے واقعے سے ٹی ایل پی نے ایک بیان کے ذریعے سے لاتعلقی ظاہر کی ، لیکن وہ اپنے پھیلائے ہوئے “لبیک لبیک” اور “من سب نبیا فاقتلوہ” کی اس عوامی تعبیر سے خود کو اصولی طور پر اور دوٹوک انداز میں الگ کرنے کی سیاسی طور پر متحمل نہیں۔

واقعے سے پیدا ہونے والی دکھ اور رنج کی کیفیت مدھم ہونے کے بعد یہ تمام بیانیے اپنے اپنے استدلال کے ساتھ اسی طرح میدان میں موجود ہیں جیسے پہلے تھے۔ اگر اس خاصے واقعے میں مذہبی طبقے کو دفاعی پوزیشن لینا پڑی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ بیانیوں کی مساوات (equation) میں کوئی خاص تبدیلی آ گئی ہے۔ اگر خدا نخواستہ کوئی اور واقعہ ایسا رونما ہو گیا جو مخالف بیانیوں کے لیے کسی پہلو سے ناسازگار ہو تو صورت حال الٹ ہو جائے گی اور مذہبی بیانیہ ایک مرتبہ پھر خود کو assert کرنے کی پوزیشن میں آ جائے گا۔

کیا یہ معاملہ اسی طرح چلتا رہے گا اور کسی اجتماعی فکری یکسوئی پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں؟ ہمارے خیال میں، ایسا نہیں ہے۔ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ ان مختلف بیانیوں کے استدلال کے معروضی تجزیے کا عمل زیادہ گہرائی کے ساتھ جاری رہے تا آنکہ اجتماعی قومی دانش ان سب بیانیوں میں موجود جزوی صداقتوں اور استدلال کے وزن کو جانچتے ہوئے بتدریج ایک ایسا متوازن بیانیہ تشکیل دینے میں کامیاب ہو جائے جسے قوم کی مجموعی تائید حاصل ہو اور مختلف انتہائیں، عملا اسی متوازن بیانیے کی پابندی پر مجبور ہو جائیں۔ ایک طویل عمل سے پیدا کیے گئے بگاڑ کو راتوں رات سدھارا نہیں جا سکتا۔ ایک متوازن اور متفقہ قومی بیانیے تک پہنچنے میں ابھی کئی صبرآزما مراحل پیش آنے والے ہیں، لیکن ان شاء اللہ آخر قوم اس تک پہنچ ہی جائے گی۔

نومبر کے آخر میں جامعہ محمدی شریف چنیوٹ اور اقبال عالمی مرکز برائے تحقیق ومکالمہ (IRD) کے زیر اہتمام “دینی نظام تعلیم اور جدید فکری مباحث” کے عنوان پر ایک ورکشاپ میں شرکت کا موقع ملا تو جدید معاشرے میں مذہب اور اہل مذہب کو درپیش صورت حال کا ایک جائزہ پیش کیا گیا اور “مذہبی علمی روایت کو کیا کرنا چاہیے” کے علاوہ دو باتیں ایسی عرض کیں جو اہل مذہب کو نہیں کرنی چاہییں، یعنی اس حوالے سے موجودہ رویے اور حالت میں بہت سنجیدگی سے بہتری لانے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ ان دو باتوں کے ساتھ ایک اور بات بھی شامل کر لی جائے تو یہ تین اہم باتیں بن جاتی ہیں جو مذہب کی پوزیشن اور کردار کو الٹا کمزور کرنے اور نقصان دینے کا موجب بن رہی ہیں۔

پہلی یہ کہ جدید ذہن کے ساتھ گفتگو کے لیے اپنے عصری علم اور فہم کو اس سے بہت بہتر سطح پر لانے کی ضرورت ہے جو اس وقت ہے۔ جدید ذہن کے، مذہب سے عدم اطمینان کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ مذہبی علم اور مذہبی فہم کے متعلق علمی پس ماندگی کا تاثر بہت مستحکم ہے جو کلیتاً‌ تعصب پر مبنی نہیں، بلکہ مذہبی علم وفہم کے عمومی طور پر دستیاب نمونے اس کو کافی جواز مہیا کرتے ہیں۔ ناقص علم اور پس ماندہ ذہن کی بات کو قابل توجہ نہ سمجھنا انسان کا ایک فطری رویہ ہے۔ ناقص فہم اور غیر مستند علم کے ساتھ کسی موضوع پر مذہب کا دفاع کرنے سے کلی احتراز کی ضرورت ہے۔ اس سے کہیں بہتر ہے کہ آدمی سردست ضبط سے کام لے اور صحیح معلومات اور بہتر استدلال کی جستجو میں لگ جائے۔

دوسری چیز مذہبی اخلاقیات کی صورت حال ہے۔ انسانوں کی اکثریت کے لیے مذہب، عقل اور استدلال کی راہ سے نہیں، بلکہ روحانی طلب کی تشفی اور عملی اخلاقیات کے راستے سے اپیل پیدا کرتا ہے۔ مذہب ایک سماجی ادارے کے طور پر اگر انھی اخلاقیات سے دوری کا مظہر بن جائے جن کا مذہبی تعلیم پرچار کرتی ہے تو یہ اولاً‌ اہل مذہب سے لیکن مآلاً‌ خود مذہب سے دوری کا سبب بن جاتا ہے۔ علمی اور فکری پچھڑے پن کی صورت حال میں اہل مذہب، معیاری اخلاقیات کا نمونہ ہی معاشرے میں زندہ رکھ سکیں تو یہ کوئی معمولی خدمت نہیں ہوگی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تیسری چیز جس کا میں اضافہ کرنا چاہتا ہوں، وہ پرتشدد مذہبیت ہے۔ یہ رویہ ایک ہاری ہوئی اور خود کو شدید خطرے میں محسوس کرنے والی نفسیات کا مظہر ہے۔ اس نفسیاتی حالت میں گروہ تشدد کو اپنی شناخت کی حفاظت یا درپیش خطرے کو ٹالنے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں، جبکہ حقیقت میں وہ خود اپنی تباہی کے سفر کو تیز کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ تیسری بات اس لحاظ سے پہلی دو باتوں سے بھی اہم ہے کہ پہلی دو کمزوریوں کی اصلاح کرنا یا نہ کرنا خود اہل مذہب کے ہاتھ میں ہے، لیکن اس تیسری کمزوری کو ٹھیک کرنے کے لیے معاشرہ اہل مذہب کا انتظار نہیں کرے گا اور نہ مزید انھیں اس کا موقع دے گا کہ وہ خود اس کو ٹھیک کر لیں

Facebook Comments

عمار خان ناصر
مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply