تخلیق فعلِ ربی ہے، تخلیق کارِ محبت ہے۔۔سدرہ ملک

ایک مضمون میں پڑھا اہلِ یہود اپنی حاملہ عورت کی خاص دیکھ بھال کرتے ہیں اور اسے خصوصی پروٹوکول سے نوازا جاتا ہے،وجہ یہ کہ وہ عورت کل ایک یہودی بچہ پیدا کرنے والی ہے،وہ بچہ جو اہلِ یہود کے مقدر کے لئے،مستقبل کے لئے بہت قیمتی ہوتا ہے۔

ان پروٹوکولز میں اچھی خوراک،خصوصی ورزشیں،ذہانت کو بڑھانے والے سائنس اور ریاضی کے خصوصی کورس اور کلاسز شامل ہوتی ہیں،نیز ایسی عورت کو خصوصی طور پر ہر قسم کے ذہنی دباؤ اور فکروں سے آزاد رکھا جاتا ہے،تاکہ ماں کے کسی بھی ذہنی و جسمانی انتشار سے بچہ متاثر نہ  ہو۔

ایک ہلکا پھلکا فزیکل ایکسپرٹ ہونے کے ساتھ ساتھ چونکہ ہم تھوڑے بہت استاد بھی ہوتے ہیں،شاید سینکڑوں بچوں کو اپنی گود میں کھلاتے کھلاتے ہم کافی حد تک بچوں کے نفسیات دان بھی بن چکے ہیں۔نیز دینی و دنیاوی تعلیم کی روشنی میں بھی اگر دیکھا جائے تو اہلِ یہود کا اپنی ماؤں کے ساتھ یہ خصوصی محتاط اور مثبت رویہ عین فطرت ہے،شاید یہی رویہ ہے جو یہود تمام دنیا پر حاوی ہو رہے ہیں،
یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے کہ ہم مستقبل میں اپنی ریسرچ اور تھیسس  کا موضوع اسے ہی بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں،مگر یہاں ایک چھوٹا سا موازنہ ضرور پیش کرنا چاہیں گے کہ جس جس نے پڑھ لیا امید ہے اس کے کام آئے گا۔

ایک طرف پڑھی لکھی دنیا اور ترقی یافتہ ممالک ہیں،کہ جن کی وہ اولادیں جن کے بارے میں ان کو پورا یقین تک نہیں ہوتا آیا وہ واقعی ان کی ہی اولادیں ہیں بھی یا نہیں،انکو اتنے پروٹوکولز کے تحت پیدا کیا جاتا ہے۔جبکہ دوسری طرف ہم ہیں،ہمارے ہاں عام حالات میں تو عورت کو بیمار ہونے،تھکنے،آرام کرنے اور اچھا کھانے پینے کا حق ہے،مگر دوران حمل بطور خاص اس کو ہر قسم کی نزاکت دکھانے سے یہ کہہ کر باز رکھا جاتا ہے کہ “تُوں  کوئی انوکھا  بچہ جم ری ایں۔۔ ؟؟ اسی وی درجن  پیدا کیتے سی تے کدی سر درد وی نہیں سنایا کسی  نُوں ،میں تے سمر دے جمنے تو جھٹ پہلاں پوچی پئی لاندی ساں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم دین کی طرف تو بعد میں جائیں گے،ہم تو ابھی پوری طرح دنیا کے ساتھ بھی چل نہیں پارہے۔۔ ؟ ہم اپنی ماؤں کو ذہنی و جسمانی طور پر پُرسکون رکھنے سے قاصر ہیں،اچھی خوراک کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔وہ اپنی جان کے روگ سے نکلیں  گی تب جانیں  گی کہ دوران حمل تلاوت و اذکار،اور خصوصی دعائیں،رحمت وشفقت کے فلاحی کام اس کے “زیرِ تعمیر” بچے کی فطرت و طبیعت بن رہے ہیں،وہ اپنے پیٹ سے ایک شیطان یا فرشتہ تخلیق کررہی ہے،کل دنیا سے وہ جو کچھ سیکھے گا وہ اسکا،اس کے خدا کا معاملہ ہے،مگر آج ماں کے پیٹ،ماں کی گود سے اس نے جو کچھ اخذ کیا وہ بالکل ماں اور بچے کا ذاتی تعلق اور معاملہ ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply