جسٹس عائشہ ملک کی مخالفت کیوں ؟۔۔عامر خاکوانی

جسٹس عائشہ ملک لاہور ہائی کورٹ کی قابل احترام جج ہیں، دس سال پہلے ہائی کورٹ میں ان کا تقرر ہوا، تب ہائی کورٹ میں خواتین ججز کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی،عائشہ ملک کا تقرر اس حوالے سے خوش آئند تھا۔ انہوں  نے پچھلے دس برسوں کے دوران اپنے شاندار فیصلوں اور بہترین عدالتی کنڈکٹ کی وجہ سے غیر معمولی عزت اور توقیر حاصل کی ہے۔

آج کل جسٹس عائشہ کی سپریم کورٹ میں تقرر ی کا معاملہ زیربحث ہے، کل چھ جنوری کو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا اجلاس ہونا ہے، جس میں ان کے کیس کو ڈسکس کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین خوشدل خان اور بعض وکلا تنظیمیں اس تقرر کی مخالفت کر رہی ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کو دھمکی دی ہے کہ اگر جسٹس عائشہ کو سپریم کورٹ بھیجا گیا تو ملک بھر کی وکلا تنظیمیں عدالتوں کا بائیکاٹ کریں گی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں کیا جارہا ہے؟
وکلا تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ جانے کے لئے سینیارٹی اصول کی پیروی کی جائے بقول ان کے یہ قانونی تقاضا ہے۔ یاد رہے کہ جسٹس عائشہ ملک اس وقت لاہور ہائیکورٹ کی سینیارٹی میں چوتھے نمبر پر ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ وکلا تنظیموں نے اپنے اس مطالبے کے ساتھ ہی ایک اور مطالبہ بھی کیا ہے کہ پارلیمنٹ ججز کی ہائی کورٹ سے تقرری سے متعلقہ آئینی شق 175 A میں ترمیم کرے ۔ دراصل اس شق میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ صرف سینئر موسٹ ہائی کورٹ کا جج ہی سپریم کورٹ جائے گا۔ وہاں تقرر کی عام شرائط ہیں جو اس کیس میں پوری کی جا رہی ہیں۔
آج ہی ایک خبر شائع ہوئی جس میں دی ویمن ان لا ء پاکستان نے مطالبہ کیا ہے کہ جسٹس عائشہ ملک کا سپریم کورٹ میں تقرر کیا جائے کیونکہ آئین یا قانون میں سینئر ترین جج کو سپریم کورٹ میں تعینات کرنے کی کوئی شرط موجود نہیں۔

کالم نگار:عامر خاکوانی

ویمن ان لا ء پاکستان نے یہ بھی بتایا ہے کہ 41 ایسے کیسز موجود ہیں جن میں سینئر ترین جج کو سپریم کورٹ نہیں بھیجا گیا۔ سینیارٹی بار کے کچھ ممبران کا مطالبہ ضرور ہے مگر اس کی کوئی بنیاد موجود نہیں۔ اس بیان میں کہا گیا کہ 175A(3) میں البتہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کو چیف جسٹس آف پاکستان بنانے کی شرط موجود ہے، مگر یہ صرف اسی معاملے پر لاگو ہوگا ۔
سوال یہ بھی ہے کہ یہ خاکسار اور مجھ جیسے لوگ جسٹس عائشہ ملک کو سپریم کورٹ میں بھیجنے کی حمایت کیوں کر رہے ہیں؟
اس کی وجہ جاننے کے لئے جسٹس عائشہ ملک کے بیک گراؤنڈ اور ان کے عدالتی فیصلوں پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
عائشہ ملک ہاورڈ پوسٹ لاء  گرایجوایٹ ہیں، انہوں نے ہاورڈ یونیورسٹی جیسے شاندار ادارے سے ایل ایل ایم کر رکھا ہے، یاد رہے کہ پاکستانی عدالتوں میں شاز ونادر ہی ہاورڈ سے فارغ التحصیل کوئی جج موجود ہے۔
عائشہ ملک ممتاز قانون دان اور سابق جج فخرالدین جی ابراہیم کے ساتھ کام کرتی رہی ہیں، فخرو بھائی پاکستانی عدالتوں اور وکلاء  برادری میں دیانت ، جرات ، اصول پسندی اور مضبوط فیصلے کرنے کے حوالے سے سرفہرست رہے ہیں، عائشہ ملک نے اپنے سینئر کی روایت ہی آگے بڑھائی اور وہ انہی اصولوں کو ساتھ لئے چل رہی ہیں۔

بطور صحافی جسٹس عائشہ ملک کے کئی فیصلوں کو مانیٹر کرنے کا موقع  ملا، ان کے فیصلوں نے سیاسی دنیا میں بھی ارتعاش پیدا کیا اور بار، عدالتوں سے اپنی دلچسپی کی بنا پر ان کے کام کو فالو کرتا رہا ہوں، اسی وجہ سے ان کے کام کا معترف ہوں ۔
ہائی کورٹ کے جج کے طور پر جسٹس عائشہ ملک نے شاندار فیصلے کئے ہیں، ان کے فیصلوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ایک معروف وکیل کے مطابق اکیلے جسٹس عائشہ کے فیصلے کئی ججوں کے اجتماعی کام سے زیادہ ہیں۔ ان کے لکھے کئی فیصلے بہت مشہور ہوئے اور عالمی میڈیا کی زینت بھی بنے۔ ان کے لکھے دو فیصلے غیر ملکی عدالتوں میں بھی بطور نظیر پیش ہوئے۔ ایک فیصلہ تو ہالینڈ کی اعلیٰ عدالت میں بطور نظیر پیش کیا گیا۔

ان کے فیصلوں کا ایک اہم عنصر تنوع ہے۔ انہوں نے بہت سے کارپوریٹ کیسز کے فیصلے کئے، مگر اس کے ساتھ کئی آئینی ، سیاسی ، انتظامی نوعیت کے ساتھ بہت سے سول کیسز کے فیصلے کئے ہیں، اتنا زیادہ تنوع شائد ہی کہیں اور ملے۔ جتنی بڑی تعداد میں انہوں نے فیصلے لکھے ، کسی اور خاتون جج نے اس سے دس گنا کم بھی شائد نہ لکھے ہوں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے دور میں جسٹس عائشہ کے کئی جرات مندانہ فیصلوں سے شہباز شریف کی حکومت پریشان ہوئی ۔ جیل روڈ سگنل فری پراجیکٹ   جسٹس عائشہ نے رکوا دیا تھا کہ اس کے لئے بلدیاتی ادارے اپروول دیں۔ اسی طرح گنے کے کاشتکاروں کے حق میں فیصلےآئے، چودھری شوگر ملز کے خلاف فیصلہ شائد کوئی عام جج نہ کر پاتا۔

مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت تبدیل ہوئی تو جسٹس صاحبہ کے بعض فیصلے موجودہ حکومتی اقدامات کے خلاف بھی آئے۔ ہر اچھے جج کی طرح انہوں نے اصولی بنیاد پر بغیر کسی سیاسی تعصب کے فیصلے کئے۔

جسٹس عائشہ ملک کا ٹو فنگر کیس فیصلہ عالمی سطح پر معروف ہوا۔ دراصل پاکستان میں یہ طریقہ کار تھا کہ ریپ کی متاثرہ خاتون کے میڈیکل چیک اپ کے لئے بہت پرانا فرسودہ اور شرمناک انداز میں ٹوفنگر ٹیسٹ کیا جاتا تھا جس میں لیڈی ڈاکٹر یا میڈیکل سٹاف مظلومہ خاتون کی شرمگاہ میں دو انگلیاں ڈال کر چیک کرتیں کہ خاتون کنواری ہے یا اس کے ساتھ زیادتی ہوئی۔

یہ ہر لحاظ سے افسوسناک اور شرمناک تھا۔ ایک خوفناک سانحے سے دوچار خاتون کو ایسی ذلت سے گزارنے کی کوئی تُک نہیں تھی۔ طویل عرصے سے ایسا چلا آ رہا تھا۔ جسٹس عائشہ ملک نے ایک فیصلے میں اس پر پابندی لگا دی اور حکم جاری کیا کہ اس کے لئے جدید طبی آلات سے مدد لی جائے۔ اس کے بعد اس حوالے سے قانون سازی بھی ہوچکی ہے۔

خواتین کے حقوق کے حوالے سے جج صاحبہ کے کئی اور شاندار فیصلے ہیں۔ چند سال پہلے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج نے لڑکیوں کی تعداد مخصوص کرنے کا فیصلہ کیا ، ان کی دلیل یہ تھی کہ مرد ڈاکٹر بڑھنے چاہئیں، جسٹس عائشہ نے اس فیصلے کو اڑا دیا اور لکھا کہ یہ فنڈا مینٹل رائٹس کے خلاف ہے۔ اس کے بعد پھر سے اوپن میرٹ کا اصول کاربند ہوگیا، میرٹ چاہے لڑکیاں زیادہ بنا لیں یا میرٹ پرزیادہ لڑکے آگے آ جائیں۔ آج کی لیڈی ڈاکٹرز کو شائد علم ہی نہ ہو کہ ان پر جسٹس عائشہ ملک نے کتنا بڑا احسان کیا، ورنہ ان کی موجودہ تعداد نصف ہوچکی ہوتی ۔

اپنے جاننے والے ہائی کورٹ کے دو تین وکلا سے جسٹس صاحبہ کے حوالے سے پوچھا ، وہ سب ان کی اصول پسندی، قابلیت اور غیر معمولی قانونی شعور کے معترف تھے۔ البتہ ان کا یہ کہنا تھا کہ جج صاحبہ بااصول اور ڈسپلن کی پابند ہیں، یہ بڑے وکیلوں کا چہرہ دیکھ کر انہیں ریلیف نہیں دیتیں جس پر بڑے بڑے وکلا اور ان کے طاقتور جتھے ناخوش رہتے ہیں۔ یہ بھی بتایا کہ ان کی عدالت میں اچھے طریقے سے تیار ہو کر جانا پڑتا ہے کہ یہ ٹو دی پوائنٹ بات کرنے کا کہتی ہیں اور بلا وجہ کی فضول لایعنی تقریروں کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں، ان کی عدالت میں عدالتی ڈریس کوڈ کی پابندی بھی لازمی ہے۔

ایک نوجوان خاتون وکیل نے بتایا کہ جج صاحبہ نے کبھی کسی ینگ لائر کے ساتھ بدتمیزی نہیں کی، ان کی حوصلہ افزائی کی، مگر ان کا منشا یہ ہوتا ہے کہ وکیل اچھی تیاری کے ساتھ آئیں اور مکمل پروفیشنل انداز میں کیس کی سماعت میں حصہ لیں۔

یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ وکلا کے بڑے گروپ کیوں جسٹس عائشہ ملک کے سپریم کورٹ میں تقرر کے مخالف ہیں۔ ایک اچھا قابل جج کسی وکیل تنظیم یا دھڑے کے وارے میں نہیں۔ وکلا ایسے ججوں کے خلاف ہمیشہ چیں بہ چیں  رہتے ہیں۔

یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ جب ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ سینیارٹی کے اصول کے بغیر بھیجے جانے کے اکتالیس کیسز موجود ہیں۔ موجودہ سپریم کورٹ میں کم از کم پانچ ایسے فاضل جج صاحبان موجود ہیں جو اپنی ہائی کورٹ میں سینئر موسٹ نہیں تھے۔ لاہور کورٹ کے دو جج نمبر چار اور پانچ سے ترقی دے کر سپریم کورٹ بھیجے گئے، چند ماہ قبل سندھ ہائی کورٹ کے ایک فاضل جج کو بھیجا گیا۔
لاہور کورٹ کے ایک فاضل جج صاحب سینیارٹی میں اٹھائیسویں نمبر پر تھے، ریٹائر ہوئے، انہیں سپریم کورٹ میں تعینات کر دیا گیا۔ خود جسٹس جواد ایس خواجہ سابق چیف جسٹس آٖف پاکستان نے لاہور ہائی کورٹ سے افتخار چودھری کی برطرفی کے خلاف استعفیٰ  دے دیا تھا، جب عدلیہ بحال ہوئی تو انہیں ہائی کورٹ کے بجائے ڈائریکٹ سپریم کورٹ میں تعینات کیا گیا اور وہ چیف جسٹس کے عہدے پر پہنچے۔

جسٹس عائشہ ملک کی مخالفت کی سب سے بڑی وجہ ان کا قابل جج ہونا اور خاتون ہونا لگ رہا ہے۔ پاکستان میں  خواتین ججز کو ایسے تعصب کا بارہا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جسٹس فخرالنسا کھوکھر لاہورہائی کورٹ کی جج تھیں، ان کا حق بنتا تھا مگر سینئر موسٹ ہونے کے باوجود انہیں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نہیں بننے دیا گیا۔

جسٹس عائشہ ملک کو سپریم کورٹ بھیجا گیا تو وہ پاکستانی عدالتی تاریخ کی پہلی سپریم کورٹ کی جج ہوں گی۔ اگر اس وقت انہیں سپریم کورٹ بھیجا گیا تو وہ سپریم کورٹ کی چیف جسٹس بن کر ریٹائر ہوں گی۔ یہ نہ صرف پاکستان بلکہ شائد مسلم ورلڈ کی پہلی مثال ہوگی کہ ایک خاتون سپریم کورٹ کی چیف جسٹس بنے ۔ اگر یہ تقرر ڈیڑھ دو برسوں بعد ہوا تب وہ سینیارٹی کے اعتبار سے چیف جسٹس سپریم کورٹ نہیں بن پائیں گی۔ ان کی مخالفت کی شائد ایک وجہ یہ بھی ہو۔

یہ تحریر میں نہ لکھتا ،مگر دو چار جگہوں پر جسٹس عائشہ ملک کے خلاف ایک ڈرٹی اور افسوسناک مہم چلتی دیکھی۔ بعض جگہوں  پر کہا گیا کہ وہ ایکٹو وکیل نہیں تھیں، مگر انہیں  سفارش پر جج بنایا گیا۔کسی بدبخت نے تو یہ بھی لکھ دیا کہ وہ اس فرم میں ن اکاؤنٹنٹ تھیں، گویا ہاورڈ لایونیورسٹی سے ایل ایل ایم کرنے والے کو اکاؤنٹنٹ بننا پڑے گا؟ یہ بات احمقانہ ہے کیونکہ وہ بڑی کارپوریٹ وکیل تھیں اور جج بنانے سے پہلے وہ تین سے چار ملین سالانہ ٹیکس دیتی تھیں، ظاہر ہے یہ ان کی شاندار پریکٹس کی غماز ہے۔ جسٹس عائشہ کا جب تقرر ہوا تو عاصمہ جہانگیر نے بھی کسی کے بھڑکانے پر ان پر تنقید کی، مگر جب عاصمہ کو علم ہوا کہ یہ اپنی پریکٹس پر سالانہ کتنا ٹیکس دیتی رہی ہیں تو انہوں نے اپنی تنقیدی رائے سے رجوع کر لیا۔

میرے خیال میں ہمیں خواتین کے حوالے سے اپنے تعصب کو ایک طرف رکھ کر ایک بہت اچھی قابل خاتون جج کو سپریم کورٹ بھیجنے کی حمایت کرنی چاہیے۔ اس سے اچھی مثبت مثال قائم ہوگی۔
جہاں تک ان قانونی حلقوں کا تعلق ہے جو چاہتے ہیں کہ سینئر موسٹ ہائی کورٹ جج ہی سپریم کورٹ جائے تو انہیں اس حوالے سے آئینی ترمیم کرانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ویسے کئی عدالتی نظیروں کے مطابق ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ جانا ایک نیا تقرر ہے ، یہ روٹین کی پروموشن نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

مزے کی بات ہے کہ اگر یہ روٹین کی پروموشن ہوتی تو پھر جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا اجلاس کیوں ہوتا ہے؟ ویب سائٹ پر ہر جج کی سینیارٹی موجود ہے، ایک کلرک بھی یہ کام کر سکتا ہے کہ سینئر موسٹ جج کو خط لکھ دے کہ وہ اب سپریم کورٹ میں کام کریں گے۔ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا اس مسئلے پر اجلاس بلانا اور ہر کیس پر غور کرنا بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ نیا تقرر ہے ، روٹین کا پروموشن کیس نہیں اور صرف سینیارٹی ہی اس کے لئے کافی نہیں ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply