کشمیر: تحقیقاتی کمیشنوں و کمیٹیوں کا انجام(1)۔۔افتخار گیلانی

جموں و کشمیر پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ نے حال ہی میں سیاستدانوں، صحافیوں و سول سوسائٹی سے وابستہ افراد کو خبردار کیا، کہ سرینگر میں حالیہ پولیس انکاونٹر کی جو تحقیقاتی رپورٹ جاری کی گئی ہے، اس پر سوالیہ نشان اٹھانے سے گریز کریں، ورنہ ان پر کاروائی ہوسکتی ہے۔ ایک اور افسر نے اس انکاونٹر میں مرنے والے لواحقین کو بھی وارننگ دی کہ وہ اس تحقیق پر انگلی نہ اٹھائیں اور سیاستدانوں پر الزام لگایا کہ وہ لاشوں کی سیاست کرکے عوام کو برانگیختہ کرنے کا کام کرتے ہیں۔

ویسے یہ کسی حد تک صحیح ہے، کیونکہ جب یہ سیاستدان پاور میں تھے، تو ان کے دور میں بھی ایسی ہلاکتوں کی ایک لمبی سی فہرست ہے، جن کی تحقیق کبھی منظر عام پر نہیں آئی۔ 2018میں اسٹیٹ ہیو من رائٹس کمیشن نے پایا کہ 1990سے کشمیر میں 506مجسٹریل انکوئریا ں تشکیل دی گئی تھیں، ان میں 108ا نکوائریوں میں غلطیوں کی نشاندہی بھی کی گئی تھی۔ مگر کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکی۔ ان مجسٹریل انکوائریوں کے علاوہ دس کمیشن بھی تشکیل دیے گئے تھے ، جن میں سے غالباً صرف جسٹس پانڈین اور جسٹس کوچھے کمیشن نے اپنا کام مکمل کرکے ملزمان کی نشاندہی کرکے ان کے خلاف عدالتی کاروائی کی سفارش کی تھی۔

2010میں بارہمولہ کے تین افراد کو عسکریت پسند بتاکر ان کو لائن آف کنٹرول کے پاس لیجاکر موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا، جب معلوم ہوا کہ یہ مقامی مزدور تھے، تو اس پر لوگوں نے سڑکوں پر آکر مظاہرے کئے، جن کو روکنے کیلئے دو ماہ میں 112افراد کوہلاک کیا گیا۔ اس ہلاکتوں پر بھی اس وقت کے وزیرا علیٰ عمر عبداللہ کے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔

ایک جائزے کے مطابق 2011میں 11، 2012میں آٹھ، 2013میں سات، 2014میں سات، 2015میں دس، 2016میں آٹھ، 2017میں سات اور 2018میں انکوئریوں کا حکم دیا گیا تھا۔ مگر ان سبھی انکوائریوں کا حال ابھی تک پس پردہ ہے۔ کشمیر میں تحقیقاتی کمیشن کس طرح کام کرتے آئے ہیں، اسکی مثال جسٹس امر سنگھ چودھری کمیشن کی کارکردگی ہے۔ 6 جنوری 1993کوشمالی کشمیر کے اہم قصبہ اور تجارتی مرکز سوپور میںآگ وخون کی ہولی کھیلی گئی، جس میں 50افراد کو ہلاک کرنے کے علاوہ تقریباً آدھے شہر کو آگ کے حوالے کردیاگیا۔

چند روز بعد عوام کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کیلئے جوڈیشل انکوائری کے احکامات صادرکئے گئے اور 30 جنوری کو پنجاب ہریانہ ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس امر سنگھ چودھری کو تحقیقاتی آفیسر مقرر کیا گیا۔ دوسال گزر جانے کے بعد کمیشن کو تحلیل کر دیاگیا۔ محکمہ قانون، جسٹس چودھری کو مسلسل لکھتا آیا کہ وہ ریاست بالخصوص سرینگر کا گرمیوں میں دورہ کریں تاکہ گواہ، جن میں سینئر افسران شامل ہیں،کے بیانات قلمبند کئے جاسکیں۔ وہ سرینگر آنے سے گریزاں رہا تاہم جموں آنے پر آمادگی ظاہر کی اور گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے کیلئے 15سے17دسمبر 1993ء کا وقت دیا۔کمیشن کی میعاد جو پہلے ہی ختم ہوچکی تھی 30جنوری 1994ء تک بڑھا دی گئی۔ کمیشن کی میعاد بڑھتے ہی جسٹس چودھری نے مجوزہ دورہ پھر منسوخ کردیا اور اطلاع دی کہ سماعت کی اگلی تاریخ سے ریاستی حکومت کو مطلع کیاجائے گا۔

اس کے بعد کمیشن نے مطلع کیا کہ وہ اپنی کارروائی جموں میں چلائے گا اور خواہش ظاہر کی کہ گواہوں کی شرکت کو یقینی بنانے کے علاوہ کمیشن کے عملے کی سکیورٹی کا معقول بندوبست کیاجائے۔ لیکن یہ دورہ بھی منسوخ کر دیاگیا اور اطلاع دی گئی کہ اب وہ سماعت مارچ 1994ء کے دوسرے ہفتے میں کرے گا۔ وہ اس کے بعد بھی وعدے سے مکر گیا اور یوں اپریل 1994ء میں کمیشن کی میعاد پھر ختم ہوگئی۔ریاستی چیف سیکرٹری بی کے گوسوامی نے فائل میں اپنے تاثرات کچھ یوں لکھے: ”ہمیں یہ ڈرامہ ختم کرنا چاہیے ،گزشتہ 15ماہ سے کوئی سماعت نہیں ہوئی‘‘ 18اپریل 1995ء کو گوسوامی نے مرکزکے داخلہ سیکرٹری کے پدمنا بھیا کو لکھا ”۔

کمیشن کی جانب سے جموں میں سماعت کا انعقاد عوامی مفاد میں پہلے ہی نہیں تھا لیکن اس کے بعد کمیشن کا رویہ سراسر حوصلہ شکن رہا اور تین ماہ میں انکوائری مکمل نہ کرنے سے لوگوں میں حکومت کے اعتبارکو شدید زک پہنچی ہے‘‘۔ گوسوامی نے پدمنا بھیا کے نام مزید لکھاکہ کمیشن کے قیام کا مقصد فوت ہو چکا ہے اور اب اسے تحلیل کر دینا چاہیے لیکن کوئی کارروائی کرنے سے قبل ہم سارا ماجرا حکومت ہند کی نوٹس میںلانا چاہتے ہیں۔

اس مکتوب کے بعد مذکورہ کمیشن کا باب بند کردیا گیااور ہمیشہ کیلئے انصاف کو دفن کردیا گیا۔ جموںوکشمیر کی تاریخ نہ صرف خونیں سانحوں سے بھری پڑی ہے، بلکہ باضابط ایک منصوبہ کے تحت ان میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہچاننے میں لیت و لعل سے کام لیا گیا۔ بیشتر واقعات میں سرکاری مشنری نے ان کو بچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ایسا ہی ایک اور دلدوز سانحہ 21اور22مارچ 2000کی رات کو جنوبی کشمیر کے چھٹی سنگھ پورہ گاوٰں میںپیش آیا، جب امریکی صدر بل کلنٹن کی دہلی آمد کے چند گھنٹوں کے بعد ہی اس گائوں کے 35نہتے اور معصوم سکھ افراد ہلاک کئے گئے۔ اسکے چند روز بعد ہی جب کہ کلنٹن ابھی بھارت میں ہی تھے ، بتایا گیا کہ اس سانحہ میں لشکر طیبہ اور حزب المجاہدین سے وابستہ بیرونی عسکری ملوث تھے اور پتھری بل کی پہاڑیوں میں ان کو فوج اور پولیس کے اسپیشل آپریشن گروپ یعنی ایس او جی نے گھیر کر ہلاک کر دیا۔

جلد ہی معلوم ہوا کہ یہ پانچوں افراد مقامی کشمیر ی دیہاتی تھے اور ان کو گھروں سے پٹرل پارٹی کو گائیڈ کرنے کیلئے اٹھا یا گیا تھا۔ ان میں ایک دکاندار تھا، جس کو دکان بند کرتے وقت جیپ میں بٹھایا گیا تھا۔ جب متعلقین اس ہلاکت پر احتجاج درج کراوانے کیلئے ضلعی ہیڈکوارٹر کی طرف مارچ کررہے تھے تو راستے میں براک پورہ کے مقام پر ان پر فائرنگ کرکے نو افراد کو ہلاک کیا گیا۔ پورے کشمیر میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔دوسری طرف کشمیر اور باہر پنجاب میں سکھ برادری کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے حکومت نے سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج جسٹس ایس آر پانڈین کی قیاد ت میں یک رکنی کمیشن تشکیل دیکر تحقیقات کا حکم دے دیا۔ ایک سال بعد جب کلکتہ اور حیدرآباد کی فرانزک لیبارٹریوں نے بتایا کہ ہلاک شدگان اور ان کے قریبی رشتہ داروں کے ڈی این اے جو ٹیسٹ کیلئے بھیجے گئے تھے، نقلی تھے، اس پر ایک اورعدالتی کمیشن جسٹس جی اے کوچھے کی سربراہی میں مقرر کیا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

خیر دونوں عدالتی کمیشنوں نے دیگر سیکورٹی اداروں کے علاوہ جنوبی کشمیر میں پولیس کی اسپیشل گروپ کے سربراہ فاروق احمد خان کو نامزد کرکے اس کے خلاف کاروائی کرنے کی سفار ش کی۔ یہ حضرت آجکل حکومت کے مشیر ہیں۔ فاروق عبداللہ کی حکومت نے ان کو معطل کر دیا تھا۔ ان کے جانشین مفتی محمد سعید پر بھارت کی وزارت داخلہ نے ان کو بحال کرنے کیلئے خاصا دباوٗ ڈالا، مگر وہ ڈٹے رہے۔ 2005میں جب کانگریسی وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد نے قلمدان سنبھالا ، تو انہوں نے فاروق خان کی بحالی کے احکامات صادر کر دیے۔ (جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply