میاں نواز شریف اور اسٹبلشمنٹ میں ان کا نیٹ ورک عسکری اسٹبلشمنٹ سے محاذ آرائی میں مات کھا گیا۔ ملٹری اسٹبلشمنٹ نے جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں چند گھنٹوں میں ایوان وزیراعظم پہ قبضہ کرلیا۔ اور نواز شریف سمیت حکومت وزرا اور مشیر حراست میں لے لیے گئے۔ اور یوں بارہ اکتوبر 1999ء کو ملک میں ایک بار پھر فوجی مارشل لاء لگ گیا- جنرل مشرف نے ایسے ججوں کو فارغ کردیا جن پہ تھوڑا سا بھی شک تھا کہ ان کی وفاداریاں نواز شریف سے ہیں جبکہ باقی ججوں نے عدالتی اسٹبلشمنٹ کی روایت کو باقی رکھا اور مشرف کے پی سی او کے تحت حلف اٹھالیا۔ ایسے ہی سول ایڈمنسٹریشن نے اپنی وفاداریاں بدلنے میں دیر نہیں لگائی ۔
شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی رائے مشرف کے خلاف بہت سخت نہیں تھی- انہوں نے اس کی مذمت بھی نہیں کی لیکن جنرل مشرف اور ان کے ساتھیوں کو باور کرادیا کہ وہ عبوری حکومت قائم کریں جو عام انتخابات کرائے اور منتخب حکومت کو اقتدارسونپ دے –
جبکہ جی ڈی اے میں شامل کئی ایک جماعتوں نے اسے خوش آئیند پیش رفت قرار دے دیا۔
لیکن جنرل مشرف نے آٹھ نکاتی ایجنڈا پیش کیا جس سے یہ بات سامنے آگئی کہ جنرل مشرف کا فوج کو واپس بیرکس میں بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ فوجی اسٹبلشمنٹ نے جنرل مشرف کی قیادت میں اپنے سیاسی اتحادی تلاش کرنے شروع کردیے تھے۔ ان کو سب سے پہلے تعاون کی یقین دہانی نواز شریف دور میں ان کی آمریت سے خفا ہونے والے لیگی سیاست دانوں کا ایک دھڑا جو “ہم خیال” کے نام سے اکٹھا تھا نے کرائی۔
جنرل مشرف کی شدید خواہش تھی پاکستان پیپلزپارٹی اس کے ساتھ تعاون کرے اور فوجی وردی کے ساتھ اس کے صدر پاکستان رہنے پہ راضی ہوجائے – محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے اپنی پارٹی میں مشاورت کی تو اکثریت نے ان کی اس رائے سے اتفاق کیا کہ پی پی پی مارشل لاء اور باوردی آمر کی سپورٹ نہیں کرے گی.ایک ہی راستہ ہے کہ جنرل مشرف وردی اتار کر صدر بن جائیں اور نگران حکومت بناکر عام انتخابات کرادیں۔ جب جنرل مشرف اس پہ راضی نہ ہوئے تو شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے جی ڈی اے کے پلیٹ فارم سے پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کی تحریک چلانے کی تجویز دی۔ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس میں شامل مسلم لیگ چھٹہ گروپ، پاکستان تحریک انصاف سے بھی فوجی اسٹبلشمنٹ رابطے میں تھی اور ان کی طرف سے گرین سگنل مل رہا تھا۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری چاہتے جنرل مشرف کے آٹھ نکاتی فارمولے کو سچ جان کر چاہتے تھے کہ جی ڈی اے اس کی حمایت کردے۔
جی ڈی اے سے باہر جماعتوں میں ملّی یک جہتی کونسل تھا جو مذہبی جماعتوں کا الائنس تھا اس الائنس میں مولانا شاہ احمد نورانی کو چھوڑ کر کسی نے جنرل مشرف کے اقتدار پہ قبضے کی مذمت نہیں کی ۔ جماعت اسلامی کے بارے میں یہ بات یقینی تھی کہ وہ نواز شریف کی دعوت پہ بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے دورہ لاہور کے وقت احتجاج اور پاور شو پہ راضی ہی فوج کے اشارے پہ ہوئی تھی۔
دوسری جانب گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے سربراہ نوابزادہ نصراللہ خان نے ایک بار پھر بظاہر ناممکن نظر آنے والے کام کو ممکن کرنے کا مشن سر پہ لیا۔ وہ پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کو اکٹھے دیکھنے کے خواہش مند تھے اور چاہتے تھے کہ جی ڈی اے نواز لیگ کو اپنے اندر شامل کرلے۔
پی پی پی کی چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو نے نواز شریف کو ناقابل اعتماد قرار دیا اور انکار کردیا۔ لیکن نوابزادہ نصراللہ خان نے لندن کا راستا اختیار کیا جہاں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو موجود تھیں اور دونوں رہنماؤں میں کئی دن مذاکرات ہوئے، نواز شریف کی ضمانت نوابزادہ نصراللہ خان نے دی اور یوں بحالی جمہوریت کی لڑائی مشترکہ لڑنے کا فیصلہ ہوا۔
لیکن جب جی ڈی اے کا سربراہی اجلاس ہوا اور اس میں نواز لیگ کو شامل کرنے کی تجویز پیش ہوئی توپاکستان عوامی تحریک، پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ چٹھہ لیگ اس اجلاس کا بائیکاٹ کرگئیں۔ جی ڈی اے میں شامل بعض جماعتوں کے اخراج کے بعد نوابزادہ نصراللہ خان کی قیادت میں 11 جماعتوں کا سربراہی اجلاس ہوا جس میں پی پی پی اور مسلم لیگ نواز شامل تھیں اور یوں بحالی جمہوریت کا اتحاد اے آرڈی 3 دسمبر دوہزار کو وجود میں آگیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو یہ امید ہوچلی تھی کہ اب نواز شریف اپنی پاور بیس کے ساتھ حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے اپنی تنظیم کو آگے بڑھائے گا۔
نواز شریف نے نوابزادہ نصر اللہ خان کو بدنک بھی لگنے نہیں دی تھی کہ سعودی عرب کے بادشاہ فہد کی طرف سے شہزادہ مقرن اور لبنان کے سعد حریری کے زریعے نواز شریف کو سزائے موت نہ دینے کو کہا تھا اور وہ جنرل مشرف پر دباؤ ڈال رہا تھا کہ وہ شریف خاندان کو ان کے پاس جدہ بھیج دے۔ کنگ فہد نے 26 نومبر 1999ء کو جنرل مشرف کے دورہ سعودی عرب کے دوران ان کو نواز شریف کی زندگی سے نہ کھیلنے کا مشورہ دیا تھا۔ اور شاہ فہد نے بل کلنٹن کو بھی پاکسانی فوجی آمر پہ دباؤ ڈالنے کو کہا تھا جو اس نے ڈالا بھی۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو نے پنجاب میں اپنے اتحادی سیاسی قوتوں (عوامی تحریک، چھٹہ لیگ وغیرہ) کو چھوڑ کر نواز لیگ سے نوابزادہ نصر اللہ کی ضمانت پہ اتحاد کیا اور اے آر ڈی 3 دسمبر 2000کو تشکیل پایا اور 12 دسمبر 2000 کو نواز شریف اپنی فیملی سمیت دس سال سیاست نہ کرنے کے معاہدے کے تحت سعودی عرب چلے گئے۔ یعنی اے آر ڈی میں شمولیت کرنے کے ٹھیک 9ویں دن شریف خاندان سعودی عرب اور لبنان کی حکومتوں کی ضمانت پہ جنرل مشرف کے ساتھ ایک ڈیل کرکے ملک سے باہر چلے گئے جس کے تحت انہوں نے دس سال تک سیاست میں حصّہ نہیں لینا تھا۔ شریف خاندان نے یہ فیصلہ اپنی پارٹی کے انتہائی سرکردہ لیڈروں سے بھی چھپا کر رکھا- چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز اللہی جو فوج اور عدلیہ سے ٹکراؤ کے مخالف تھے ان سے بھی یہ ڈیل خفیہ رکھی گئی اور جب یہ دیل منظر عام پہ آئی تو چوہدری برادران نے پاکستان مسلم لیگ نواز سے الگ ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ اور یوں پاکستان مسلم لیگ قائداعظم کے نام سے ایک نئی مسلم لیگ بھی رجسٹرڈ ہوگئی۔
فوجی اسٹبلشمنٹ کے اندر مجموعی طور پہ جنرل مشرف کی جانب سے شریف خاندان کو معافی دینے اور ملک سے جلاوطن کرنے پہ خاصا غصّہ پایا جاتا تھا اور کہا جاتا ہے کہ مشرف کا ساتھ دینے والے کئی ایک کورکمانڈرز اس فیصلے پہ نالاں تھے۔
اگر آپ جنرل مشرف کے کودتا کے بعد نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں پہلی بار خطاب کو دیکھیں تو انہوں نے اپنے خطاب میں خود فوج کے کئی ایک سابق جرنیلوں پہ سخت تنقید کی تھی- جن پہ یہ تنقید ہوئی ان میں جنرل جہانگیر کرامت بھی شامل تھے۔ مشرف فوجی اسٹبلشمنٹ کے اس مین سٹریم دھارے کی قیادت کررہے تھے جس میں ایک بڑے دھڑے کے خیال میں نواز شریف اسٹبلشمنٹ فوج کی وحدت کے لیے براہ راست خطرہ بن چکے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس ایک اور دھڑا جنرل مشرف کو نواز شریف کو پھانسی دینے کا مخالف تھا اور وہ چاہتا تھا کہ نواز لیگ کو بس ایک چھوٹے سی سیاسی جماعت کے طور پہ باقی رہنے دے۔ باقی فوج میں نواز شریف اسٹبلشمنٹ کا جو حصّہ تھا ایسا لگتا تھا کہ اس نے اپنے آپ کو کیموفلاج کرلیا تھا اور وہ وقت گزرنے کا انتظار کررہا تھا۔
جنرل مشرف نے 2000ء سے 2001ء کے دوران مقامی حکومتوں کا نیا نظام نافذ کیا- اور غیر جماعتی بنیادوں پہ انتخابات ہوئے۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے “عوام دوست گروپ” کے نام سے انتخاب لڑے۔ اور وہ پنجاب میں پہلی بار اکثر اضلاع اور تحصیلوں میں اپنے ناظم منتحب کرانے میں کامیاب ہوگئی۔ نواز شریف کی مشرف کے ساتھ ڈیل کے باوجود محترمہ بے نظیر بھٹو نے نواز لیگ کو اے آرڈی سے الگ نہ کیا۔ اور اے آر ڈی کے پلیٹ فارم سے جمہوری کی بحالی کی تحریک جاری رکھی۔ جنرل مشرف سے وردی میں تعاون سے انکار کرنے کے بعد جنرل مشرف نے اپنے پیش رو آمروں کی طرح “کنگ پارٹی” کے طور پہ پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم کو چنا جس میں شامل ہونے والوں کی دوڑ لگ گئی ۔ جہاں مسلم لیگ نواز سے لوگ ق لیگ کا حصّہ بنے ویسے پی پی پی سے تعلق رکھنے والے ممبران کا ایک حصّہ اعلانیہ پی پی پی چھوڑ گیا- جنرل مشرف کے انتخابات کو منیج کرنے کے باوجود پی پی پی نے79 نشستیں حاصل کیں- جبکہ افغانستان پہ امریکی حملے سے پیدا ہونے والے تناظر میں افغان ڈیفنس کونسل سے بننے والی متحدہ مجلس عمل پاکستان اور مسلم لیگ نواز نے بالترتیب 59 اور 38 نشستیں تھیں جبکہ 28 آزاد اور نیشنل الائنس اور ایم کیو ایم کے پاس 16 اور 17 نشستیں تھیں۔ جونیجو لیگ کی 4،فکشنل لیگ کی 5 جبکہ دیگر جماعتوں کی کل ملاکر 10 نشستیں تھیں۔ مسلم لیگ ق کی کل ملاکر 105 نشستیں تھیں- اس نتجے کے مطابق ایک تو مسلم لیگ ق اور اس کی جملہ اتحادی جن میں 28 آزاد بھی شامل تھے مل کر حکومت بنانے کے لیے سادہ اکٹریت بھی اکٹھا نہیں کرپائے تھے تو پی پی پی سے آٹھ اراکین قومی اسمبلی نے پی پی پی پٹریاٹ کے نام سے فارورڈ گروپ بناکر ق لیگ کو سپورٹ کیا اور ایسے آزاد منتخب ہونے والے اعظم طارق نے بھی ان کو سپورٹ کیا-
شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے پی پی پی سے منحرف ہونے والے آٹھ اراکین کو نیب زادے قرار دیا اور وہ الیکشن کے دوران ہی متحدہ مجلس عمل کو ملّا-ملٹری الائنس قرار دے چکی تھیں اور وزیراعظم کے انتخاب کے موقعہ پہ ایم ایم اے نے اپنا امیدوار میدان میں اتارا اور نواز لیگ نے بھی فضل االرحمان کا ساتھ دیا جبکہ شہید بی بی نے نواز لیگ کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ ایم ایم اے کی تشکیل اور جیت میں فوجی اسٹبلشمنٹ کا ہاتھ ہے۔ اس لیے اس سے دور رہا جائے اور اپنا امیدوار میدان میں اتارا جائے۔ لیکن بات نہ مانی گئی اور پھر فضل الرحمان کو ہی قائد حزب اختلاف بنوادیا گیا حالانکہ قائد حزب اختلاف پی پی پی کا حق بنتا تھا۔ بعد ازاں ایم ایم اے نے کس طرح سے ایل ایف او پہ دستخط کیےاور مشرف کو باوردی صدر بنے رہنے کا موقعہ بھی فراہم کردیا وہ تاریخ کا حصّہ ہے۔
شہید محترمہ بے نظیر بھٹو ملک سے باہر تھیں اور پاکستان میں سیاست پہ امریکہ کی افغانستان میں چھیڑی گئی “دہشت گری کے خلاف جنگ” کے گہرے سائے مرتب ہوچکے تھے۔ پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ نے جنرل مشرف کی قیادت میں نائن الیون واقعے کے رونما ہونے کے بعد ایک موقف اپنایا تھا کہ امریکہ پہ ہوئے حملوں میں مں افغان طالبان کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ اس واقعے میں القاعدہ ملوث ہے اور وہ اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے کے لیے افغان طالبان سے بات کرسکتے ہیں۔ جنول مشرف کی قیادت میں فوجی اسٹبلشمنٹ نے امریکہ کو طالبان حکومت کو ختم کرنے اور اس کی جگہ شمالی اتحاد اور دیگر طالبان مخالفین کو لانے کی مخالفت کی تھی۔ افغان طالبان نے جب اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کیا اور القاعدہ کا بیس کیمپ افغانستان سے ختم کرنے سے انکار ہوا تو امریکہ نے افغانستان پہ حملہ کرنے کا فیصلہ کیا اور پاکستان کی فوجی آمر قیادت کے سامنے یہ بات رکھی ” ہمارا ساتھ دو یا پتھر کے زمانے میں چلے جاؤ” جنرل مشرف نے اس وقت کے کل جماعتی سربراہی کانفرنس بلوائی اور امریکی دھمکی بارے سب کو آکاہ کیا تب اس وقت فضل الرحمان سمیت سب نے امریکہ سے تعاون کو ہی ممکن حل قرار دیا۔
لیکن کیا پاکستان کی فوج اسٹبلشمنٹ واقعی افغان طالبان ک سرپرستی سے دست بردار ہوگئی تھی؟ کیا اس نے اپنے تیار کردہ جہادی اثاثوں سے یکسر علیحدگی کا فیصلہ کرلیا تھا؟ کیا اس نے جنرل ضیاء الحق کے دور سے شروع کی جانے والی تزویراتی گہرائی اور پاکستان کو ایک ڈیپ سٹیٹ بنانے کی پالیسی سے پیچھے ہٹالیا تھا؟
اس سوال کا جواب نفی میں آج دینا بہت آسان ہے۔ اس زمانے میں جنرل مشرف نے اپنے چہرے پہ لبرل ماسک چڑھالیا اور ترقی پسندی، روشن خیالی، اعتدال پسندی، ماڈریٹ پاکستان جیسے نعروں کو فروغ دیا جس کے جواب میں پاکستانی ملائیت کے ایک بڑے سیکشن نے جس کی نمائندہ ایم ایم اے کو پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی نشست ملی ہوئی تھی تو ساتھ ہی اسے کے پی کے میں حکومت بنانے کا موقعہ مل گیا تھا- اور مشرف پوری دنیا کو یہ باور کرانے میں مصروف تھا کہ پاکستان میں امریکہ اور یورپ مخالف مذہبی رائٹ ونگ بڑی قوت بنکر ابھرا ہے۔ اور دوسری طرف پاکستان کے سابق فاٹا میں اور کے پی کے میں طالبانائزیشن کے زور پکڑنے کا شور مچایا جارہا تھا۔ اور پاکستان میں طالبان-القاعدہ دوست مذہبی رائٹ ونگ کبھی بھی اقتدار پہ قبض کرسکتا تھا اور اگر اس خطرے کو کوئی قوت کم کرسکتی تھی تو وہ جنرل مشرف کی قیادت میں سرگرم فوجی اسٹبلشمنٹ۔ جبکہ پاکستان کی فوج اسٹبلشمنٹ نے افغان طالبان کی قیادت اور اس کے اہم ترین ساتھیوں کو پاکستان میں چھپانے، پناہ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ فوجی اسٹبلشمنٹ نے بہت ہوشیاری سے حقانی نیٹ ورک کے سرکردہ لوگوں پاکستان میں اپنے مرکز محفوظ رکھنے میں مدد ملی۔
اگر آپ ان دنوں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی مختلف فورموں پہ کی گئی تقریریں سنیں اور ان کے چند درجن انٹرنیشنل میڈیا میں شایع ہونے والے مضامین کو پڑھیں تو انہوں نے امریکی انتظامیہ کو یہ باور کرایا کہ وہ دہشت گردی کی جنگ مسلم ممالک میں آمریتوں اور بادشاہتوں کے ساتھ اتحاد بناکر لڑ رہی ہے جس نے اس گلوبل جہاد ازم سے جڑے سیاسی اسلام پہ مبنی بنیاد پرست جماعتوں کو پروان چڑھایا اور ان دونوں کی پشت پناہی کرکے امریکہ نے جنوبی ایشیا، لاطینی امریکہ، مڈل ایسٹ اور افریقہ میں جمہوری حکومتوں کے تختے الٹائے اور یہ بنیاد پرستی کی دہشتگردانہ شکل سرد جنگ کے دنوں میں امریکی بلاک کی پالیسیوں کا براہ راست نتیجہ ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستان کے مقدمے کے تناظر میں امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کی انٹیلی جنٹیسیا پہ واضح کیا کہ وہ پاکستان میں جنرل مشرف کو ایک ماڈریٹ آمر کے طور پہ خیال کرکے وہی غلطی کررہی ہے جو اس نے سرد جنگ کے زمانے میں تیسری دنیا مں فوجی آمروں اور مذہبی دائیں بازو کی سرپرستی کرکے کی تھی۔
انھوں نے جنرل مشرف کی اعتدال پسندی کو ڈھونگ اور ڈرامہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک اسٹبلشمنٹ کے اندر سے ضیاء الحقی باقیات کا صفایا نہیں ہوگا اور پاکستان میں جمہوری پسندوں کو عالمی برادری ہر طرح سے سپورٹ نہیں کرے گی تب تک انتہا پسندی کے خطرات منڈلاتے رہیں گے اور تیسری دنیا کی غریب عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ نہیں کیا جاسکے گا۔ بے نظیر بھٹو پاکستان کی طرف سے عالمی زرایع ابلاغ اور امریکی و مغربی تھنکس ٹینکس اور انسٹی ٹیوٹس میں وہ توانا آواز تھی جو امریکہ کو پہلے دن سے یہ باور کرانا چاہتی تھی اگر امریکہ 1980ء میں افغان جہاد پروجیکٹ سے لیکر افغانستان پہ طالبان کے قبضے کے منفی اثرات کا آزالہ چاہتا ہے تو اسے پاکستان میں آزاد و خود مختار مضبوط منتخب عوامی جمہوری حکومت کے قیام کی حمایت کرنا ہوگی اور جنرل مشرف کو وردی اتارنے پہ مجبور کرنا ہوگا۔
پاکستان میں مین سٹریم مذہبی دایاں بازو منافقانہ پوزیشن کے ساتھ ایک طرف تو جنرل مشرف پہ 80ء کی دہائی میں اختیار کی جانے والی جہادی پالیسی سے یو ٹرن لینے کا الزام عائد کررہا تھا تو دوسری جانب جنرل مشرف کی مدد سے وہ اپوزیشن کی قیادت اور ایک صوبے میں حکومت بھی کررہا تھا۔ وہ جنرل مشرف کے ایل اف او قانونی جواز فراہم کرچکا تھا۔ اور مسلم لیگ نواز کے قائد میاں نواز شریف جدہ کے سرور محل میں خاموش بیٹھے ہوئے تھے اور ان کی پارٹی پاکستان میں پہلے چار سال ایم ایم اے کے پیچھے لگی رہی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کو امریکہ اور یورپ کی حکومتوں اور وہاں کی رائے عامہ میں اپنے موقف کی حمایت حاصل کرنے میں کم از کم 4 سال لگ گئے اور 2006ء میں امریکی اور برطانوی حکومتوں نے جنرل مشرف پہ دباؤ بڑھانا شروع کیا اور اسی 2006ء کے آخر میں جنرل مشرف کے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو سے مذاکرات شروع ہوئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا مذاکرات کے دوران سب سے بڑا مطالبہ تو یہ تھا کہ جنرل مشرف آرمی چیف کے عہدے سے الگ ہوں۔ وردی اتاریں اور سویلین صدر بن جائیں۔ دوسرا مطالبہ تھا کہ پاکستان میں آئندہ انتخابات صاف اور شفاف ہوں اور سب جماعتوں اور ان کے قائدین کو انتخابات میں حصّہ لینے کی آزادی ہو۔ عالمی دباؤ کے تحت جنرل مشرف نے یہ مطالبات کافی ہاتھ پیر مار کر قبول کرلیے۔
ان مذاکرات سے پہلے اور مذاکرات کے دوران اور مذاکرات کی کامیابی کے بعد پاکستان مین سٹریم میڈیا میں نئے نئے آنے والے سوشل میڈیا میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور پاکستان پیپلزپارٹی کے بارے میں اپوزشن جماعت نواز لیگ، ایم ایم اے اور حکومتی جماعت ق لیگ منفی پروپیگنڈا چلاتی رہی۔ ان پہ جنرل مشرف سے ڈیل کا الزام عائد کیا گیا۔ ان پہ آمریت کے آگے سر تسلیم خم کرنے کا الزام عائد کیا گیا-
محترمہ بے نظیر بھٹو کی کوشش تھی کہ مسلم لیگ نواز اور کے جلاوطن قائد میاں نواز شریف اس بات کا ادراک کرلیں کہ عالمی دباؤ کے تحت اور ملک میں مشترکہ جدوجہد سے جنرل مشرف کے دانت کٹھے کیے جاسکتے ہیں اور فوجی اسٹبلشمنٹ کو جہموریت کی مکمل بحالی پہ آمادہ کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے اس حوالے سے اپنی پارٹی کے ذمہ داروں کو نوازا لگ سے رابطہ کرکے دونوں جماعتوں کے درمیان میثاق جمہوریت کرنے پہ تیار کیا اور یوں مئی 2006ء کے وسط میں دونوں جماعتوں میں ایک معاہدہ طے پاگیا-اور معاہدہ پہ دستخط بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے لندن میں کیے اور ایک دوسرے کے قلم کا باہمی تبادلہ بھی ہوا۔
جنرل مشرف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان بحالی جمہوریت کے حوالے سے مذاکرات جاری تھے – جو 2006ء میں شروع ہوئے تھے اور کبھی وہ شروع ہوجاتے اور کبھی تعطل کا شکار رہتے تھے۔
مارچ 2007ء میں جنرل مشرف نے افتخار چوہدری کو استعفا دینے کو کہا اور انکاری پہ زبردستی ان کو فارغ کردیا۔ ان کی بحالی کی تحریک ملک میں چل پڑی تھی-
عدالتی اسٹبلشمنٹ جو پہلے پرومشرف تھی وہ دیکھتے ہی دیکھتے جنرل مشرف کیمپ اور جنرل کیانی کیمپ میں بدل گئی ۔ عدلیہ کا اینٹی مشرف کیمپ میں زیادہ اجتماع جنرل کیانی کی طرف جھکاؤ تھا جس میں مسلم لیگ نواز ، جماعت اسلامی اور جہاد پرست تنظیموں کی بڑی تعداد شامل تھی۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی قائد شہید محترمہ بے نظیر بھٹو افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک کو آزاد عدلیہ کی بحالی کی تحریک خیال نہیں کررہی تھیں۔ اور 2007ء میں لندن میں پی پی پی کی ایک اعلی سطحی اجلاس میں انھوں نے چوہدری اعتزاز احسن کو بتایا تھا کہ بحالی عدلیہ کی تحریک کے پیچھے نواز شریف کا پیسہ ملوث ہے اور فوجی اسٹبلشمنٹ کا ایک دھڑا بھی اسے سپورٹ کررہا ہے۔
اور 2007ء میں یہ مذاکرات اپنے فائنل راؤنڈ کی طرف بڑھ رہے تھے کہ اگست کے تیسرے ہفتے کے آغاز میں پاکستانی سپریم کورٹ نے نواز شریف کے حوالے سے ایک فیصلہ دیا جس کے مطابق وہ کہیں بھی آنے جانے میں آزاد تھے۔
جبکہ 26 اگست کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے پہلی بار باقاعدہ برطانوی روزنامہ گارڈین کو ایک انٹرویو میں یہ بات بتائی کہ جنرل مشرف سے مکمل جمہوریت کی بحالی کے حوالے سے ان کی بات چیت آخری مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ 90 فیصد بات چیت ہوچکی ہے۔ انہوں نے یہ بھی اشارہ دیا کہ آخری حل طلب ایشو جنرل مشرف کی وردی ہے جس کے اتارنے کا اعلان مشرف نے کرنا ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ملک میں شفاف انتخابات کی ضمانت دی گئی ہے اور کسی جماعت کو الیکشن لڑنے سے نہیں روکا جائے گا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی جانب سے جب یہ اعلان کیا گیا کہ جنرل مشرف سے ان کی 90 فیصد بات چیت مکمل ہوگئی ہے۔ اور وردی اترنے کا اشارہ بھی دیا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی طرف سے جب جنرل مشرف سے مذاکرات کے فائنل ہونے کی آفیشل خبر میڈیا کو دی گئی تو نواز شریف نے اس پہ شدید ردعمل دیا- انہوں نے بے نظیر بھٹو- مشرف مذاکرات کو بحالی جمہوریت کے روڈ میپ کے مذاکرات سمجھنے کی بجائے، اسے ذاتی مفادات کے لیے مشرف کی حمایت سے تعبیر کیا- نواز شریف کی طرف سے یہ بیان اگلے دن 27 اگست کو پاکستان اور بین الاقوامی اخبار و جرائد اور الیکٹرانک میڈیا کی زینت بنا۔ اور اس کے بعد بے نظیر بھٹو- مشرف مذاکرات کے بارے میں منفی افواہوں کا بازار گرم ہوگیا- انگریزی اور اردو دونوں پریس سے یہ کہا جارہا تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے جنرل مشرف کے نیچے وزیراعظم بننا قبول کرلیا ہے اور جنرل مشرف وردی میں ہی رہیں گے۔
میاں محمد نواز شریف نے ستمبر 2007ء میں لندن میں آل پارٹیز کانفرنس بلائی اور ایک نیا اپوزیشن اتحاد جس میں کہنے کو 32 جماعتیں شامل تھیں اے پی ڈی ایم کے نام سے تشکیل دے ڈالا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اس دوران مسلسل کوشش کررہی تھیں کہ نواز شریف اے آر ڈی نہ توڑیں۔
ادھر محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی وطن واپسی کی تاریخ 18 اکتوبر مقام کراچی ائرپورٹ مقرر کی اوراس سے پہلے میاں نواز شریف نے ملک میں آنے کی کوشش کی جسے مشرف انتظامیہ نے نہ صرف ناکام بنایا بلکہ انہوں نے سعودی شہزادہ مقرن اور لبنان کے وزیر اعظم سعد حریری کوپاکستان بلاکر پریس کانفرنس کرائی جس میں نواز شریف کے مشرف کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی اصل دستاویز تک پبلک کردی گئیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے نواز شریف کو ایک ہی طیارے میں ملک واپس جانے کی پیشکش کی تھی لیکن انھوں نے پہلو تہی کی- بے نظیر بھٹو جس وقت کراچی ائرپورٹ پہ اتریں اور لاکھوں افراد ان کے استقبال کو موجود تھے اس روز بھی پاکستان کا مین سٹریم میڈیا “ڈیل” کا پروپیگنڈا کررہا تھا۔
مشرف نے نومبر 2007ء میں جب تک وردی نہ اتاردی تب تک یہ پروپیگنڈا تو چلتا رہا کہ بے نظیر بھٹو نے مشرف کو وردی میں صدر مان کر وزیراعظم بننا قبول کرلیا ہے۔ اور بے نظیر بھٹو نے اپنے ، اپنے شوہر، سسر اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں پہ بنے مقدمات کو ختم کرانے کے لیے مشرف سے ڈیل کی ہے۔
نواز شریف اے پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر انتخابات کا بائیکاٹ چاہتے تھے لیکن بے نظیر نے انھیں انتخابات میں حصّہ لینے پہ راضی کیا۔ یہی فیصلہ انہوں نے اے این پی سے کرایا۔
مشرف نے ملک می ایمرجنسی نافذ کردی تھی جس کے خلاف بے نظیر بھٹو نے شدید ردعمل دیا اور اس کے خلاف وہ کھل کر بولیں۔ اور اس دوران وہ انتخابی کمپئن بھی چلاتی رہیں اور پھر وہ 27 دسمبر کی شام راولپنڈی کے لیاقت باغ کے سامنے شہید ہوگئیں۔
ان کی موت کے بعد بہت تھوڑے عرصے میں لوگوں کو ان کی عدلیہ تحریک بارے پیش بینی ثابت ہوگئی جب نواز شریف، افتخار چودھری اور چیف آرمی اسٹاف کیانی گٹھ جوڑ سامنے آگیا۔ نواز شریف نے تاریخ سے سبق نہ سیکھا – وہ ایک طرف تو اپنی پرانی طاقت کی بحالی کے راستے پہ چل پڑا-
بے نظیر بھٹو پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے سفر کو پرامن اور آسان بنانا چاہتی تھیں اور ان کے موقف زمینی حقائق کے عین مطابق ہوا کرتے تھے۔ نواز شریف ان کی بات مان لیتا یا ان کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری کے کہے کو مان لیتا ہم واپس ہائبرڈ رجیم کی طرف نہ جاتے۔ میڈیا آزاد ہوتا- نان پی سی او ججز تعینات ہوتے۔ اور سب ادارے آئین کے مطابق چلتے۔ لیکن مسلم لیگ نواز کے لیے پنجاب ہر صورت خالی فقط ان کے لیے ہونا چاہئیے۔ وہ بار بار جمہوریت کا نام لیکر بادشاہت قائم کرنے نکل جاتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں