2022۔۔امجد اسلام امجد

بہت برس پہلے میں نے نئے سال کی آمد پر ایک نظم لکھی تھی جسکی پہلی لائن کچھ اس طرح سے تھی کہ “چلو کچھ آج حسابِ زیانِ جاں کرلیں “۔

اگرچہ یہ لائن اس سال یعنی 2022 کے حوالے سے زیادہ بامعنی بلکہ معنی خیز ہوگئی ہے لیکن میں اس کے مضمون سے صرفِ نظر کرتے ہوئے غار کے دوسرے کنارے پر اُس مدّھم روشنی کو ڈھونڈنے اور اُس کی طرف پُراُمید نظروں سے دیکھنے کو ترجیح دُوں گا کہ میرا مطلوبہ “حسابِ جاں ” تو ایک بگڑی ہوئی شکل میں ہمارے معاشرے، میڈیا اور عام زندگی میں روزانہ اور بلاناغہ ہو رہا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہر کوئی چند سوالوں کو بغل میں لے کر پھر رہا ہے مگر نہ تو خود اِن کا جواب اور جواز ڈھونڈنے کی زحمت کرتا ہے بلکہ اپنے مخالفین کو بھی اس موضوع پر بات نہیں کرنے دیتا۔

اعداد و شمار کا ایک ایسا طوفان ہے کہ ہر طرف موجیں مارتا پھررہا ہے مگر عام آدمی تو کیا ان بزرجمہروں کو خود بھی حقیقی صورتِ حال کا پتہ اور احساس نہیں ہوتا کہ ہم سب واقعے کی واقعیت پر توجہ دینے کے بجائے اپنے اپنے Perceptionکو صحیح ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں اوراس اندھی دوڑمیں یہ تک بُھول جاتے ہیں کہ پاکستان ہم سب کا ہے اور اس کی بقا اور ترقی کے ہم سب سانجھے حصہ دار ہیں اور یہ کہ حکومت کوئی بھی اور کسی کی بھی ہو ریاستِ پاکستان ہم سب کی ہے اور ایسی سیاست جو ریاست اور حکومت کے فرق کو نظر انداز کرکے کی جائے وہ سیاست نہیں صحرا میں چلنے والی آندھی کی طرح ہے جو ہم سے آگے گئے ہوئوں کے نقشِ قدم بھی مٹا دیتی ہے سو اس نئے سال پر حساب کتاب کو ایک طرف رکھ کر اپنے ملک اور معاشرے کے سُدھار اور ترقی کو ہی سامنے رکھنا چاہیے جو خواتین و حضرات قومی یا صوبائی ا سمبلیوں میں رونق افروزہیں، اُن پر یہ ذمے داری باقی عوام سے بڑھ کر عائد ہوتی ہے کہ ان میں بیٹھا ہُوا ہر بند ہ ایک سے چار لاکھ تک شہریوں کا ترجمان اور نمایندہ ہوتاہے۔

آج کل میرا ایک کھیل “خواب ٹوٹ جاتے ہیں ” جو سقوطِ ڈھاکا کے پیش اور منظر کے حوالے سے لکھا گیا ہے آن ایئر ہے جس میں میں نے تصویر کے دونوں رُخ اپنے علم اور معلومات کے مطابق نہائت ایمانداری سے دکھانے کی کوشش کی ہے، اس وقت ہماری سیاست کا عمومی رُخ ہی اتحاد اور اتفاق کے بجائے انتشار آمادہ ہے، سو اسے جتنی جلدی بدل دیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔

بدقسمتی سے انگریز کی دی ہوئی جمہوریت کا جو بگڑا ہوا رُوپ ہمارے حصے میں آیا اُس میں بوجوہ گُھوم پھر کر زیادہ تر لوگ جاگیر، دولت یا مسلکی اختلافات کے زور پرہی منتخب ہوتے ہیں، سو سب سے پہلے ہمیں مل کر اس کمزوری کو دُور کرنا چاہیے ا ور یہ عمل سب سے زیادہ بلدیاتی نظام کے قیام اور اُس کی ترقی سے ہی ممکن ہے کہ برطانیہ کے ہائوس آف کامنز کی طرح اگر ایسے لوگ سامنے آئیں گے جنھوں نے اپنے سفر کا آغاز بنیادی سطح پر عوام کے اعلیٰ اور حقیقی مسائل کے شعوراورحل سے کیا ہوگا اور یوں یہ منتخب ہونے والے لوگ صحیح معنوں میں عوام کے نمایندے کہلاسکیں گے۔

ایوب خان کی بنیادی جمہوریت سے لے کر جنرل مشرف کی Devolution اور وہاں سے اب تک اس نظام کو تسلسل اور ریاستی سرپرستی کے ساتھ چلنے نہیں دیا گیا اور ان سے وابستہ مسائل کو حل کرنے کے بجائے اسے توڑنے کا راستہ ہی اپنایا گیا ہے، مجھے پورا یقین ہے کہ اس کے فوری اور دُوررَس نتائج حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لیے سُود مند ہوں گے۔

اسی طرح آبادی پر کنٹرول اور تعلیم کے فروغ پر بھی توجہ دینے کی اَشد ضرورت ہے کہ شرح پیدائش میں اضافے کے ساتھ ساتھ ملک میں جہالت، جرائم اور روزگار کی کمی میں بھی اضافہ ہوتاچلا جاتا ہے، مذہبی معاملات میں علماء کو ساتھ لے کر فرقے اور مسلک کی تقسیم کے رجحان کو خدا، رسولِ پاکؐ اور قرآن کے دائرے سے باہر نہ جانے دیا جائے۔

میڈیا اور عوامی خطبوں میں حکومتی جماعت اور اپوزیشن کے ہر نمایندے کو ایک اعلان کردہ اخلاقی دائرے سے کسی صورت باہر نہ جانے دیا جائے۔ قومی ریاست اور بین الاقوامی سطح کے وہ معاملات جن کا تعلق ریاست سے ہو اُن پر کسی اختلاف کی صورت میں اپوزیشن اعتراض کے ساتھ ساتھ کوئی حل بھی ضرور دے کہ وہاں معاملہ صرف حکومتِ وقت کا نہیں رہتا بلکہ پاکستان کا ہرفرد اُس سے متاثر یا اُس کا حصہ دار ہوتا ہے۔

سو اس نئے سال کے موقع پر تمام فیصلہ ساز اداروں میں تشریف فرما اور کسی بھی حوالے سے قومی نمایندہ کہلانے والوں سے ایک ہی درخواست بطور نئے سال کا پیغام پیش کی جاسکتی ہے کہ سب سے پہلے اپنی ذہنی، فکری اور تاثراتی صورتِ حال پر توجہ دیں، اپنی زبان کو تلوار بنانے سے گر یز کریں اور ہر سطح پر برداشت، محبت اور انصاف کے حامی اور مد د گار بنیں اس سے مِلتی جُلتی باتیں میری اس نظم میں بھی ہیں، سو قندِ مکرّر کے طور پر اسے بھی غور سے پڑھئے گا:

اے مرے دوستو بھلے لوگوعیب سے پاک تو ہے بس اک وہ

جو ہے ہم سب کا پالنے والاہر اندھیرا اُجالنے والا

کس لیے پھر یہ خبط عظمت کاکس لیے دوسروں کے عیبوں کی

گنتیاں ہی سدا گِنے جاناکس لیے نیند میں چلے جا

اے مرے دوستو بھلے لوگوآئو بیٹھو مکالمہ کرکے

ایک دُوجے کی خوبیاں جانیں جو کمی ہو کسی میں وہ مانیں

جس رعائت کے آپ طالب ہوں دوسروں کو بھی وہ عطا کردیں

جس معافی کو اپنا حق سمجھیں دائرہ اُس کا کچھ بڑا کردیں

مل کے جینا جو سیکھ لیں ہم تمکوئی اُلجھائو راہ میں نہ رہے

کوئی بے گانگی کا سایا تکدل میں اور دل کی ر اہ میں نہ رہے

Advertisements
julia rana solicitors

اے مرے دوستو بھلے لوگواے مرے دوستو بھلے لوگو

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply