تبدیلی آئی رے۔۔محمد اسد شاہ

تبدیلی آئی رے۔۔محمد اسد شاہ/وہ دور گیا جب آپ دودھ 50 روپے لیٹر ، خوردنی تیل 160 روپے فی لیٹر ، چینی 52 روپے فی کلو ، آلو 20 روپے فی کلو ، چھوٹا گوشت 600 روپے فی کلو ، پٹرول 62 روپے فی لیٹر ، آٹا 35 روپے فی کلو خرید لیا کرتے تھے ، گھریلو بجلی 8 روپے یونٹ تھی اور لوڈ شیڈنگ بھی ختم ہو گئی تھی ۔ تب مہنگائی کم کی گئی تھی اور آئی ایم ایف کو بھی خدا حافظ کہہ دیا گیا تھا ۔ قرض جو عالمی اداروں سے لیا گیا ، واپس بھی کیا جا رہا تھا اور ملک بھر میں یونیورسٹیاں ، کالجز ، ہوائی اڈے ، ہسپتال ، عالمی معیار کی سڑکیں بھی بن رہی تھیں ۔ بجلی کے گیارہ نئے پلانٹ بھی لگائے گئے تھے ، میٹرو بسیں اور اورنج ٹرین جیسے منصوبے بھی شروع کیے گئے ۔ یونیورسٹی لیول تک تعلیم بھی سستی تھی ، طلبہ کو لیپ ٹاپ بھی ملتے تھے ، گلگت بلتستان اور پنجاب سے صحت کارڈ کا بھی آغاز کر دیا گیا تھا ۔ لیکن تب آپ کو بار بار بتایا گیا تھا کہ وہ دور چوروں کا دور تھا ۔ تب عدالتوں میں زیرِ سماعت مقدمات پر بھی روزانہ ٹی وی چینلز پر گرما گرم ٹاک شوز کرنے کی اجازت عام تھی ، بلکہ شاید کسی غیر تحریری حکم کے تحت ایسا لازمی تھا ۔ جب کہ عام حالات تو میں دنیا بھر میں عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات پر بحث کرنا منع ہے ۔ کیوں کہ ایسا کرنے کا مطلب عدالتوں پر دباؤ ڈالنا ، اور فیصلے سے پہلے لوگوں کی نظر میں کسی کو مجرم بنانا ہوتا ہے اور اس کام کو جرم مانا جاتا ہے ۔ لیکن جس دور کی ہم بات کر رہے ہیں ، وہ عام حالات نہیں تھے ، بلکہ وہ چوروں کا دور تھا اور لازمی تھا کہ ملک کے بچے بچے کو معلوم ہو کہ وہ چوروں کا دور تھا ۔ اس لیے عدالتی زیر سماعت مقدمات پر بھی ہزاروں ٹاک شوز کرنا پڑے ۔

ہمارے مہربانوں کو ہم پر رحم آیا ۔ انھوں نے ہمیں “تبدیلی” کا تحفہ دیا ۔ یہ تحفہ ہم تک پہنچانے کے لیے کتنی محنت کرنا پڑی ، ہم تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ ہم تو صرف اس تبدیلی کے ثمرات سمیٹ سکتے ہیں ۔ چوروں کی بجائے صاف شفاف ، دودھ سے دھلے فرشتہ صفت لوگ ہمیں مل گئے ۔ اب اگر 50 والا دودھ 130 روپے میں ، 160 والا خوردنی تیل 450 روپے میں ، 20 والے آلو 80 روپے میں ، 600 والا چھوٹا گوشت 1400 روپے میں ، 62 والا پٹرول 145 روپے میں ، 35 والا آٹا 75 روپے میں ، 8 والی بجلی 24 روپے میں مل جائے تب بھی غنیمت ہے ۔ 52 روپے والی چینی 152 تک پہنچ کے آہستہ آہستہ 105 تک آئی ہے اور ایک “بڑے” صاحب نے ٹویٹر پر شکوہ بھی کیا کہ چینی “اتنی سستی” ہونے پر اخبارات اور نیوز چینلز خوشیوں کے شادیانے کیوں نہیں بجا رہے ۔ ارے بھائی ، چوروں کے دور میں آپ کو سستے داموں سبزی کے ساتھ دھنیا ، سبز مرچیں اور شاپر مفت مل جاتا تھا ۔ لیکن پھر بھی آپ کا “جلسے اچ نچنے نوں جی کردا” تھا ۔ اب تو دھنیا ، مرچوں اور شاپر کی قیمت الگ سے ادا کرنا پڑتی ہے ۔ اب ناچیے بھائی ، دل کھول کے ناچیے ناں ۔ شرمائیے نہیں ۔ آپ خوش نصیب ہیں کہ فرشتوں جیسے شفاف لوگوں کا دور دیکھنا نصیب ہوا ۔ ورنہ دنیا ترستی ہے ایسے دور کو ۔ .

شاید آپ پر تو کہیں نہ کہیں سے دولت برس رہی ہے ۔ پِس رہا ہے تو تنخواہ دار طبقہ پِس رہا ہے ، مزدور پِس رہا ہے ، ہاری اور مزارعہ پِس رہا ہے ، دہاڑی دار پِس رہا ہے ۔ وہ عورتیں پِس رہی ہیں جو سردی کی ٹھٹھرتی صبحوں میں بھٹوں کے گرد کھلے آسمان تلے گیلی مٹی سے اینٹیں بھی بنا رہی ہوتی ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے معصوم بچوں کو چھاتی سے لگائے دودھ بھی پلا رہی ہوتی ہیں ۔ جس دوہری ، بلکہ تہری اذیت سے وہ عورتیں اور ان کے بچے گزرتے ہیں ، اس کا تصور تک ہم نہیں کر سکتے ۔ ان کی زندگیاں تو ہمیشہ کٹھن ہی تھیں ، لیکن گزشتہ چار سالوں میں ان کی اذیتیں کئی گنا بڑھا دی گئی ہیں ۔ انھیں جب بچوں کے لیے سبزی یا دودھ لینے کے لیے بازار جانا پڑتا ہے ، تب وہ اپنی پھٹی پرانی جھولیاں اٹھا اٹھا کر آپ کو دعائیں دیتے ہیں ۔ ان کی آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں ، شکر کے یا اذیت کے ، یہ آپ نہ سوچیے ۔ آپ تو خوش ہیں ناں کہ آپ تبدیلی لے آئے ۔

نیا سال ہے اور منی بجٹ کے ساتھ پٹرول کی قیمت مزید بڑھا دی گئی ہے ۔ ایک ہی دن کے اخبارات میں جہاں ہمارے ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی خبر درج ہے ، وہیں آس پاس آپ کو ایک بھارتی ریاست کی خبر بھی ملے گی جہاں پٹرول کی قیمت 25 روپے فی لیٹر کم کر دی گئی ہے ۔ البتہ ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ “مہنگائی کی وجہ سے ہم بلدیاتی انتخابات میں ہار گئے ہیں ۔” کیسے ناسمجھ عوام ہیں جو دنیا کے سستے ترین ملک میں مہنگائی کی وجہ سے ووٹ نہیں دیتے ۔ موجودہ عہد میں ، جہاں دھڑا دھڑا صدارتی آرڈیننس جاری کیے جا رہے ہیں ، لگے ہاتھوں ان لوگوں کو سزا دینے کے لیے بھی کوئی صدارتی آرڈیننس جاری کر دیجیے جو سستے ترین ملک کو مہنگا کہتے ہیں ۔ ان کو 2018 کے ریٹس بتائیے ، پھر 2022 کے ریٹس بتائیے ، پھر فی کس آمدنی بھی بتائیے اور باقی ممالک میں فی کس آمدنی بھی بتائیے ، اور پھر سمجھائیے کہ یہ مہنگائی نہیں ، بلکہ “تبدیلی” ہے ۔

منی بجٹ اور سٹیٹ بنک کی “آزادی” کے بعد ہمارا مستقبل کیسا ہو گا ، اس پر سوچتے ہوئے دل ڈوب جاتا ہے ۔ اس معاملے پر کالم فی الحال ملتوی ۔ ابھی دو شہریوں کے خیالات آپ کو بتانا ہیں ۔ میرے ایک عزیز کس ملٹی نیشنل کمپنی میں ایک مناسب عہدے پر فائز ہیں اور تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپیہ ماہانہ تنخواہ وصول کرتے ہیں ۔ کمپنی کی گاڑی روزانہ صبح انھیں گھر سے لے جاتی ہے ۔ گرمیوں میں ایئر کنڈیشنڈ دفتر میں بیٹھتے ہیں اور سردیوں میں ہیٹر کے مزے لیتے ہیں ۔ سہ پہر کو کمپنی کی گاڑی انھیں گھر چھوڑ دیتی ہے ۔ ان کی اہلیہ بھی ایک بہت مشہور ہسپتال میں جاب کرتی ہیں ۔ ان کی بھی تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپیہ ماہانہ تنخواہ ہے اور تقریباً ویسی ہی مراعات وہ بھی وصول کرتی ہیں ۔ ان دونوں  کی ایک صرف ایک بیٹی ہے ، شاید سات یا آٹھ سال کی ۔ لاہور کے ایک اچھے ٹاؤن میں ذاتی گھر ہے اور گاڑی بھی ہے ۔ میاں بیوی ، دونو ں زمین دار گھرانوں کی اولاد ہیں اور دونوں  کو زمینوں کی آمدنی بھی وصول ہوتی رہتی ہے ۔ چنانچہ زندگی سہانے سپنوں میں گزر رہی ہے ۔ دونوں  “تبدیلی” کے دیوانے ہیں ۔ گزشتہ دنوں ملاقات ہوئی تو وہ دوست فرمانے لگے؛ “خان ایک عظیم لیڈر ہے لیکن افسوس کہ اس جاہل قوم نے اس کی قدر نہیں کی ۔ اتنے عظیم لیڈر کو آٹے ، دال ، سبزیوں ، دالوں، دودھ ، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں پھنسا دیا ہے ۔ یہ عام لوگوں کے مسائل ہیں ، ان مسائل سے اس عظیم لیڈر کا کیا تعلق ؟” میں انگشت بہ دنداں ، ان کے الفاظ کے معانی پر غور کرتا رہ گیا ۔ یہ ہے وہ طبقہ جسے مہنگائی مذاق لگتی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

کچھ عرصہ پہلے تدریسی امور سے متعلق ایک اجلاس میں شرکت کے لیے جانا تھا تو ایک کمپنی کی ٹیکسی کار میں سفر کیا ۔ ڈرائیور پڑھا لکھا اور نفیس مزاج شخص تھا لیکن چہرے سے پریشان اور گم سم ۔ دوران سفر اس نے بتایا کہ وہ کسی فیکٹری میں کام کرتا تھا ۔ 2019 میں اس فیکٹری میں ڈاؤن سائزنگ کی وجہ سے اسے نوکری چھوڑنا پڑی ۔ تب سے وہ یہ کار چلا کر گزارہ کر رہا ہے ۔ کار کا مالک کوئی اور ہے ۔ اس کی محنت سے کار کے مالک اور کمپنی کے حصے نکال کر جو بچتا ہے وہ اس کا ہوتا ہے ۔ وہ بہت آزردہ تھا اور کہہ رہا تھا؛ “میں نے 2002 ، 2008 اور 2013 کے انتخابات میں “چوروں” کو ووٹ دیا اور زندگی بہت آسان لگتی تھی ۔ ہماری توقعات سے زیادہ سہولیات فراہم تھیں ۔ پھر پتہ نہیں مجھے کیا ہوا کہ “تبدیلی” کے نغمے سنے ، جلسوں میں جانا شروع کیا، گھر کی چھت پہ سرخ اور سبز جھنڈا لگا لیا اور اپنے گرد کے ہر شخص کو چور چور کہنا شروع کر دیا ۔ 2018 کا ووٹ تبدیلی کے حق میں دے دیا ۔ اب اسی ووٹ والے دن کو پچھتا رہا ہوں اور اسی کی سزا بھگت رہا ہوں ۔” میں نے اس سے پوچھا کہ تم نے اپنی سیاسی حمایت تبدیل کیوں کی ؟ کہنے لگا؛ “میری بدبختی تھی ، یا شاید کسی گناہ کی سزا ملی !”

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply