• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پارا چنار دھماکہ ،نیا بیانیہ،اور وزارت داخلہ کے الرٹ

پارا چنار دھماکہ ،نیا بیانیہ،اور وزارت داخلہ کے الرٹ

پارا چنار دھماکہ ،نیا بیانیہ،اور وزارت داخلہ کے الرٹ
طاہر یاسین طاہر
بیانیہ کوئی بھی ترتیب دے لیں،سچائی مگر چھپائی نہیں جا سکتی۔دنیا بھر میں مسلح مذہبی تنظیموں کے نجی جہاد اور بعض ممالک کی جانب سے ان تنظیموں کی دامے،درہمے،سخنے مدد، اس نئے فتنے کا سبب ہے۔فرقہ وارانہ اختلافات کی تاریخ پرانی ہے۔فقہی بیانیے میں علمی اختلافات ہیں اور ان پہ بحث علما کو ہی زیبا ہے۔وہ مگر جن کا سارا زور” ضواد “اور “دواد “کے تلفظ پہ ہے،ان سے سلامتی کی کوئی امید نہیں۔اسلام امن،سلامتی،رواداری اور انسان دوستی کا دین ہے۔آفاقی دین اسی صورت تسلیم کیا جا سکتا ہے جب یہ صفات بھی تسلیم کی جائیں۔ عبادات تو انسان کا ذاتی معاملہ ہے اپنے اللہ کے ساتھ۔ ہاتھ کھول کے نماز ادا کرے یا باندھ کے۔جمع بین الصلوٰۃ کا قائل ہو یا ایک ایک کر کے ادا کرے۔تمام الہٰی مذاہب کا بنیادی ہدف انسانی معاشرے کی اجتماعی اخلاقیات کی معراج ہے۔اسلام کے احکامات واضح ہیں،مگر اسلام کی قبائلی و عائلی تفہیم نے ظواہر پرستی کو رواج دیا۔عربوں کی کچھ خاص عادات و روایات کو بھی اسلام کا رکن تصور کر لیا گیا۔ایک صدی کا قصہ ہی اگر دیکھ لیں،ہر عشرہ،ڈیڑھ عشرہ بعد قتل و غارت گری کے جواز میں کئی بیانیے ترتیب دیے گئے۔
تازہ المیہ کوئی تین سے چار عشروں پہ ہے جو بطور خاص اس خطے کے مسلمانوں کی جان کو آگیا۔روس افغانوں کی دعوت پہ ہی افغانستان آیا تو ہمیں ڈر لگا کہ گرم پانیوں تک آجائے گا۔تاریخ سے کسی کی رشتہ داری تو ہے نہیں۔امریکی ڈالر،ضیائی فہمِ اسلام،اور کرائے کے لڑاکے ،نئے جہادی بیانیے کا ہراول دستہ بنے۔ایک خاص مائنڈ سیٹ کے رواج کے لیے ریاستی سر پرستی میں مدارس کا جال بچھایا گیا۔دانستہ پسماندہ ترین علاقوں کے بچوں کو مدارس میں لا کے رواداری کے بجائے ان میں وحشت ناک رویوںکو رواج دیا گیا۔جس معاشرے کے ہیرو لڑاکا افغان ہوں وہاں بارود باری کے سوا اور کیا ہو گا؟حکمت یار،ملا عمر،ملا منصور،بیت اللہ محسود وغیرہ کی موت پہ باقاعدہ افسوس کیا گیا ۔اسامہ جیسے عالمی دہشت گرد کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی،اور اس بیانیے کو بھی رواج دیا جا رہا ہے کہ دہشت گرد کاکوئی مذہب نہیں ہوتا۔یکسر غلط ہے یہ۔مذہبی تحریک ہی تو خود کش حملہ آور کو حوروں سے ہم کلام ہونے پہ اکساتی ہے۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ہر خود ساختہ مبلغ نے مقامی تفہیم کی ہے۔قتل و کفر کے فتوے،بدعت کی نئی تعبیریں،خوارج اس کے سوا اور کون ہیں؟
خطے کی صورتحال،بالخصوص افغانستان میں طالبان،القاعدہ کی عشروں سے موجودگی اور اب داعش کی آمد کے باعث پاکستان خاص طور سے سرحدی علاقوں میں بسنے والوں کی زندگیاں بارود کے ڈھیر پر ہیں، ویسے تو سارا خطہ بلکہ پوری دنیا ہی بارود کے ڈھیر پر بیٹھی ہے، مگر کے پی کے،پارا چنار،کوئٹہ والے اس آگ کی تپش سے عملاً جل کر راکھ ہو رہے ہیں۔حیرت انگیز طور پر یہ بیانیہ کچھ عرصہ سے عام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا،حالانکہ افغانستان میں طالبان کی کارروائیاں ہوں یا پاکستان کے اندر کالعدم تحریک طالبان،مولوی صوفی محمد والی کالعدم شریعت محمدی کی دہشت گردی ہو،یا کوئٹہ میں لشکر جھنگوی مقامی و العالمی کی” ہزارہ انسانوں “کے خلاف وحشیانہ کارروائی،جماعت الاحرار کی انسان کشی ہو یا عراق و شام سے افغانستان و پاکستان تک داعش کی کارروائیاں، بوکو حرام کی اغوا کاریاں ہوں یا الشباب کی قتل گری،حتی ٰجہاد النکاح تک ،سب مذہب بلکہ اعلانیہ جہاد کے نام پر ہی تو ہو رہا ہے ۔کئی مدارس سے مطلوب دہشت گرد اور کالعدم مذہبی جماعتوں کے جنونی گرفتار ہوئے۔ابھی کچھ دیر پہلے کی خبر ہے کہ پشاور کی مسجد ابوبکر سے دو خود کش جیکٹس امام مسجد کے حجرے سے بر آمد ہوئی ہیں۔مسجد اسلام کی نمائندگی کی اعلیٰ ترین علامتوں میں سے ایک ہے۔شعائر اللہ۔خود فریبی مگر دوسری چیز ہے،اس کا کیا علاج؟
شام،عراق،افغانستان،نائیجیریا،یمن،بحرین کی حکوتیں اور عوام اپنے دکھ کا علاج کہاں ڈھوندیں؟فتویٰ ایٹم سے بھی بری شے ہے۔کیا پاکستان میں ہونے والے خود کش حملے،دھماکے بغیر کسی مذہبی تحریک اور” حورانہ ہدف “کے بغیر ہو رہے ہیں؟ کیا ہزارہ کمیونٹی کی نسل کشی اسلام کی خدمت سمجھ کر نہیں کی جا رہی؟رمضان مینگل،ملک اسحاق،ریاض بسرا،اور اسی فکر کے دوسرے انسان کش،جنت جانے کے لیے یہ سب نہیں کر رہے؟انھیں مسلم کشی کے طفیل جنت کے راستے کی نشاندہی کس نے کی؟پارہ چنار والوں پر طالبان نے عرصہ حیات تنگ نہیں کیا ہوا تھا؟ کیا ان کے راستے تک بند نہیں کر دیے گئے تھے؟چلاس والوں کو بسوں سے اتار کر کیوں مارا گیا؟عید میلا النبی ﷺ کی محافل کو کیوں نشانہ بنایا گیا؟ محرم کے جلوسوں کو کیوں نشانہ بنایا جاتا ہے؟ اس سب کی تحریک کیا ہے؟ مذہبی رویہ۔
بے شک انتہا پسندانہ مذہبی رویہ ہی اس سب کی تحریک ہے۔ہوشیا ر باش،دہشت گردوں کے سہولت کار نئے بیانیے کو تشکیل دے رہے ہیں،کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ بے شک ہوتا ہے اور خود کش حملوں کی تحریک بھی مذہبی رویہ ہی ہے۔وزارت داخلہ الرٹ جاری کر کے بری الذمہ نہیں ہو سکتی۔ ریاست کی ذمہ داریاں اس سے زیادہ ہوتی ہیں۔دو چار لاکھ روپیہ انسانی جان کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔نئے بیانیے میں الجھانے والے ہی اصل میں دہشت گردوں کے سہولت کار ہیں۔ ہر چیز آشکار ہے۔داعش کیا ہے؟ اس کی تشکیل کے عناصر کیا ہیں؟ القاعدہ و النصرہ کیا ہے؟ افغانی و پاکستانی طالبان کیا ہیں؟کالعدم شریعت محمدی والا مولو ی صوفی محمد کون ہے؟ ملا فضل اللہ کون ہے؟جماعت الاحرار والوں کا فکری رویہ کیا ہے؟لشکر جھنگوی مقامی و العالمی کیا ہے؟اس کے باوجود کہنا کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں،پرلے درجے کی خود فریبی ہے۔استاد شیفتہ یاد آتے ہیں۔
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوفِ فساد خلق سے نا گفتہ رہ گئے

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply