بابا گرو نانک کے دوارے۔۔عامر مغل

کرتارپور دریا راوی کے کنارے نارووال میں شکرگڑھ روڈ پر واقع ایک گاؤں ہے۔ کرتار پور کا لفظی مطلب  دیکھا  جائے تو ‘خدا کی بستی’ بنتا ہے۔ کرتار یعنی سب کی کرنے والا، خالق و مالک۔
سکھ مذہب کے سب سے بڑے گرو بابانانک جی نے تلاش ِ حق کے سفر کے بعد اپنا ٹھکانہ راوی کنارے اس جنگل میں بنایا تھا۔ بعد میں گرونانک جی نے اسی جگہ اپنا خاندان بھی بلا لیا۔ آہستہ آہستہ ان کے مریدین کی بڑھتی تعداد نے بھی وہاں کا رخ کرنا شروع کر دیا اور وہیں  سکونت اختیار کر لی۔ یوں کچھ عرصہ میں وہاں ایک بستی آباد ہو گئی تو گرونانک جی نے اس بستی کو کرتارپور کا نام دیا۔گرونانک اپنے انتقال تک (1539ء) یہیں  ٹھہرے رہے۔

روایات کے مطابق باباگرونانک ایک صوفی بزرگ تھے اور انکے معتقد لوگوں میں ہندوؤں اور مسلمان دونوں مذاہب کے لوگ موجود تھے۔ ان کے انتقال پر ہندوؤں اور مسلمانوں میں تنازع پیدا ہو گیا کہ ان کو جلایا جائے یا تدفین کی جائے۔ مختصرا ًیہ ہوا کہ خدا کی طرف سے انکا جسد خاکی اٹھا لیا گیا اور تنازع کا حل یہ کیا گیا کہ جو چادر انکے جسم پر تھی اسکا نصف کیا گیا۔ مسلمانوں نے اس چادر کے اپنے حصے کی تدفین کی جبکہ ہندوؤں نے اس چادر کو جلا کر کریا کرم کیا۔ تدفین والی جگہ اور سمادھی دونوں وہاں ان سے منسوب موجود ہیں۔

گوردوارہ دربار کرتارپور صاحب ایک نہایت پُرسکون مقام ہے۔ اگر آپ سیلفی میٹرئیل نہیں ہیں تو آپ کسی کونے میں آرام سے بیٹھ کر اپنی ذات کے ساتھ ایک اچھا کوالٹی ٹائم گزار سکتے ہیں۔ وہاں ہمارے درباروں کی طرح کوئی ڈھول ڈھمکا نہیں ہے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو گرنتھ صاحب کا پاٹھ چل رہا تھا۔ میں نے غور کیا کہ پاٹھ ہارمونئیم کے ساتھ ہائی ٹونز میں نہیں پڑھا جا رہا تھا اور ممکنہ طور پر یہ ادب کے دائرے کی وجہ سے تھا۔

دوپہر کو لنگر خانے کی طرف بڑھے تو پہلے تو دروازے پر مامور بندے نے ہمیں روک دیا اور معذرت کی کہ سر سختی ہے آپ مقامی ہیں تو اجازت نہیں ہے لیکن گلہ کرنے پر جانے کی اجازت مل گئی۔ انتہائی صاف ستھرا لنگر خانہ، رسوئی اور صاف برتن دیکھ کر دل بہت خوش ہوا۔

ہمارے ہاں درباروں کے لنگر اور گندگی دیکھ کر جو گھن آتی ہے یہاں سب کچھ اس کے الٹ تھا۔ ہم نے شیلف سے اپنے لیے اسٹیل کا تھال، چمچ ، کولی اور ایک گلاس اٹھایا اور چٹائی پر قطار میں بیٹھ گئے۔ کھانے کا تھال چٹائی کی بجائے صاف فرش پر رکھنے کو کہا گیا تاکہ گرنے کی صورت میں صفائی آسان ہو۔

کھانا پروسنے والا آیا اور اس نے ہم سے پوچھ کر چنے، سبزی اور چاول ڈالے، گلاس میں پانی دیا، پھر ہم نے تھوڑی سی روٹی بھی لی اور آخر میں اسٹیل کی کولی میں گرما گرم چائے پی۔ میرے ساتھ بیٹھے کلین شیو جوان کے کھانے کے انداز سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ سرحد پار سے مہمان آیا ہے۔ اسی دوران سرحد پار سے ہی آئی ہوئی ایک خاتون نے فردا ً فرداً  سب کو بسکٹ بانٹے۔ کھانا ختم ہوا تو ہم نے اپنے برتن اٹھائے اور دھونے والی جگہ پر لے گئے۔ وہاں ایک سکھ سیوک مرد اور خاتون موجود تھے۔ میں نے شکریہ کی مسکراہٹ کے ساتھ ست سری اکال کہا انہوں نے بھی مسکرا کر جواب دیا اور ہم سے دھونے والے برتن لے لیے۔

لنگر خانے میں موجود غلے میں اپنی مرضی سے کچھ پیسے ‘لنگر سیوا’ کے ڈالے اور رخصت لی۔ اس کے بعد گوردوارے کی مرکزی عبادت گاہ میں جانے کی اجازت مانگی جو کچھ ترلے منت کے بعد مل گئی۔ مگر جہاں گرو گرنتھ سونے کی پالکی میں رکھی ہوتی ہے اس ہال میں جانے کی مذہبی طور پر اجازت نہیں تھی۔ ہم نے کھڑکیوں سے دیکھا اور دلچسپ بات یہ پتہ چلی کہ گرو گرنتھ کو ایک مستقل گرو کا درجہ حاصل ہے لہذا شام کے وقت پالکی سے کتاب کو اٹھا کر اوپر والی منزل پر موجود پلنگ پر رکھ دیا جاتا ہے اور صبح دوبارہ پالکی میں رکھ دیا جاتا ہے۔ داخلی ڈیوڑھی میں مرد و زن کے لئے دو نہانے کے تالاب موجود ہیں۔ گوردوارہ کے آداب میں سر ڈھانپنا تو لازم ہے اور داخلے سے قبل غسل مستحب جانا جاتا ہے۔ نکلنے لگے تو چندی گڑھ سے آئے ہوئے کچھ وزیٹرز ہمارے پاس آ گئے۔ ہیلو ہائے ہوئی، ہم نے ان کو ویلکم کہا اور وہ بہت خوش   ہوئے جب ان کو معلوم ہوا ہم لاہور سے آئے ہیں۔ چندی گڑھ اور لاہور کے باسیوں نے اس پر اتفاق کیا کہ دونوں دیشوں کی عوام کا یوں ملنا ملانا، آپس میں کمیونیکیٹ کرنا گر بہانے سے ہی سہی لیکن یہ ایک بہت اچھا قدم ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سکھ مذہب کے تین بنیادی ستون
نام جپو : رب کا ذکر کرو
کرت کرو : محنت کرو یعنی اپنے ہاتھوں سے حلال روزی کماؤ۔
ونڈ چھکو: مل بانٹ کر کھاؤ، مل جل کر رہو۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply