معاشی دانشمندی کا فقدان: لیرا کی قیمت میں مسلسل کمی

(مکالمہ نامہ نگار:میمونہ افضل) عمر کے ساتھ مردوں کی طبیعت میں سختی پیدا ہونا ایک عام سی بات ہے لیکن اگر بات ہورہی ہو  کسی ملک کے سربراہ کی تو سب سے پہلا دھیان رجب اردگان کی طرف جاتا ہے۔ وہ پچھلے 19 سال سے ترکی کے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں۔ اس دورِ حکومت میں جس میں وہ پہلے ترکی کے وزیراعظم رہے اور 2014 سے تا حال صدارت کے منصب پر فائز ہیں، انہوں نے ہزاروں سیکولر فوجی افسران، تنقید نگاروں، احتجاج کرنے والوں اور کرد باغیوں کو جیل میں ڈلوایا۔ اس کے علاوہ سول سوسائٹی کے بے شمار گروہوں، آزاد میڈیا اور عدالت کو بھی خاموش کروایا۔ 2013 کے غازی پارک کے احتجاجی مظاہرے ہوں یا 2016 کی بغاوت ہر چیلنج کا سامنا کامیابی سے کرنے کے بعد ان کی اَنا بڑھتی گئی۔ اس کے نتیجے میں سمجھدار مشیر ساتھ چھوڑ گئے اور صرف رشتہ دار اور ہاں میں ہاں ملانے والے لوگ ہی ان کے گِرد باقی رہ گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بلاشبہ اردگان جیسا طاقتور سربراہ وہ ساری آوازیں دبا سکتا ہے جو وہ سننا نہیں چاہتا مگر وہ ان آوازوں میں بیان کردہ حقیقت کو نہیں جھٹلا سکتا۔ ستمبر سے وہ معاشی قوانین کو ماننے سے بھی انکاری ہیں مگر اب اس انکار میں ان کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں ہے۔ جہاں دنیا کی کچھ ابھرتی ہوئی معیشتیں مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے شرحِ سود کو اوپر لے کر گئی ہیں ترکی نے بالکل اس کے خلاف قدم اٹھائے ہیں۔ حالانکہ نومبر میں مہنگائی 21 فیصد تک پہنچ گئی تھی مگر اردگان نے مرکزی بنک کو شرحِ سود 5 فیصد کم کرتے ہوئے 14٪ پہ لانے پہ مجبور کیا۔ یہ انہوں نے اپنے اِس مضحکہ خیز اعتقاد کی  وجہ سے کیا کہ مہنگائی کی وجہ قیمتوں کا بڑھنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ترکی کے لوگوں نے اثاثے لیرا سے ڈالر میں منتقل کر لیے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں لیرا کی قیمت جو اگست میں 8 تھی گر کر 18 پہ آگئی۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply