میر کے دیں کا پوچھتے ہو احوال

میر کے دین کا پوچھتے ہے احوال
زوہیب نور
کوئی ذی نفس جب اپنے فطرت کے جسمانی تقاضے پوری کر چکتا ہے تو وہ اس سے اوپر اٹھ کر اپنی فطرت کے دوسرے پہلو کی آبیاری کی طرف مصروف عمل ہو جاتا ہے تحقیق, جستجو آگاہی, فلسفیانہ جہت, منطقی استدلالل اس کے شعور کو جلا دینے لگتے ہے اور وہ اپنے ارد گرد پھیلے کائناتی اسرار و رموز کے پیچھے کار فرماء قوت کا متلاشی ہوتا ہے اور جستجو راز ہستی اسے ایک پر پیچ خار زار پر لے جاتی ہے. جیسے جیسے آگاہی بڑھتی ہے یہ ایک آگ کی مانند اس کو جلاتی ہے. وہ جستجو کی پر خار راہوں پر زخمی قدموں سے آگے بڑھتا ہے اور اپنے ارد گر پیدا ہونے والے حوادث زمانہ کا منطقی استدلال چاہتا ہے..
اس پنپتے ہوئے فطرتی شعوری کونپل کو سب سے پہلے جس تند و تیزباد و باراں کا سامنا کرنا پڑتا ہے بد قسمتی سے وہ مساجد مندروں اور کلیساؤں سے آتے ہوئے نظر آتی ہے. اہل مذہب بجائے اس بات کو سمجھنے کے اس پروان چڑھتی جدت پسندانہ سوچ میں کسی کا انکار نہیں بلکہ ایک جستجو ہے حوادث زمانہ کو سمجھنے کی. اپنے ارد گر برپا ہونے والے سائنسی انقلابات میں اس کی معاشرتی حیثیت کی. اس مادی دنیا کے اندر اس کی روح کی کیا حیثیت باقی رہ گئی. سوشلزم اور کیپٹلزم کے بلمقابل مذہب کس ہیومنزم کی منزل کے رازوں کو دبائے ہوئے ہے..اس آگاہی کو کوئی ذی شعور کیوں کر بغاوت کا نام دے دیتا ہے؟ یہ کبھی بھی مذہب بے زاری تو نہیں ہے۔ یہ تو لا سے الہہ کا سفر ہے جس کا آغاز تو ابراہیم ؑنے کیا. کیا میرے باپ آدمؑ نے بھی جنت میں بغاوت کی نہیں؟ یہ تو آدم کی فطرت کا خاصہ ہے اور وہ اپنے شعوری تقاضوں کے تحت مجبور۔
اس آگاہی نے ہر دور میں قدامت سے ٹکر لی ہے کئی جدت پسند سولی چڑھے,کئیوں نے زہر پیا, کئی نے دیار غیر کی خاک چھانی ۔کئی رانداہ درگاہ ہوئے بہت سے جلائے گئے لیکن پروانوں کے جذبہ جانثاری میں ازل سے ابد تک تزلزل دیکھنے میں نہ آیا پروانے آگہی کی شمع کے وصل میں جلتے رہے اور آخر وقت نے دیکھا صبح کا اجالا پھیلا قدامت کی سیاہیاں دور ہوئیں. دانش کدے پروان چڑھے جدت نے قدامت کو چت کر کے اپنا لوہا منوایا…
ہمیں سمجھنا ہو گا کہ یہ جستجو کے جیالے اور آگاہی کی آگ کو چاہنے والے نہ پہلے رک سکے نہ اب رک پائیں گے۔ یہ مذہب بےزار نہیں یہ تو رجعت پسندی سے اختلاف کرتے ہیں۔ یہ خدا کے منکر نہیں یہ تو لا سے الہہ کے مسافر ہیں. اگر پھر بھی آئین نؤ پر اڑنے والوں نے اس فطری شعور کی بہتی ہوئی ندی کے سامنے بند باندھنے کی کوشش کی تو یہ ایک تند و تیز ریلے کی شکل اختیار کرے گا اور یورپ میں جس طرح کلیساء کو بہا لے گیا یہاں بھی سب کچھ بہا کر لے جائے گا. طرز کہن پر اڑنے والے ضرورت اس امر کی ہے کے آج کے جدید سائنسی, معاشی اور معاشرتی نظریات کو سمجھ کر اس میں موجود کجی کو دور کیا جائے اور ان کو جدید مذہبیاتی سانچوں میں ڈھالا جائے تاکہ ہم جدید دنیا کے ساتھ شعوری ہم آہنگی پیدا کر سکیں اور اپنے نوجوانوں کی شعوری آبیاری کر سکیں۔

Facebook Comments

زوھیب نور
ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں کامرس لیکچرار.....

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply